ہماری شریعت مطہرہ ہمارے لئے حجت ہے اور ہمیں جس چیز کا حکم دے وہ ہم پر لازم ہے مگر انبیائے سابقین کی شریعتیں ہمارے لیے حجت بن سکتی ہیں یا نہیں؟
اس سلسلے میں ہمارے ائمہ کے چار اقوال ہیں۔
اول:
بعض علماء فرماتے ہیں کہ جب تک نسخ پر کوئی دلیل قائم نہ ہو سابقہ شریعتیں ہمارے لئے لازم ہیں۔ان حضرات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے"اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ"(سورۃ الانعام،آیت:90)
یہاں ہمیں اگلوں کی ہدایت کی اتباع کرنے کا حکم ہوا ہے اور لفظ ہدایت ایمان اور شرائع دونوں پر بولا جاتا ہے۔اور اس لئے بھی کہ سابقہ شریعتوں کی حقیقت اللہ رب العزۃ کے دین کی حیثیت سے ہے اور اللہ کا دین اس کے نزدیک حسن و پسندیدہ ہے۔ وہ خود فرماتا ہے "لا نفرق بین أحد من رسلہ"(سورۃ البقرۃ ، آیت:285) اور فرماتا ہے"مصدقا لما بین یدیہ.(سورۃ آل عمران، آیت:3)"لہذا اصل یہی ہےکہ سابقہ شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں ۔البتہ کوئی ناسخ وارد ہو جائے تو اصلا حجت نہیں ۔
![]() |
کیا اگلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں, انبیاء سابقین کی شریعتیں ہمارے لئے قابل عمل ہے یا نہیں |
دوم:
کچھ حضرات کا موقف یہ ہے کہ جب تک کسی دلیل شرعی کا تحقق نہ ہوجائے اگلی شریعتیں ہمارے لیےحجت نہیں۔ان کی دلیل یہ ارشادی ربانی ہے"و لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا"(سورۃ المائدۃ،آیت:48)
اس آیت میں صریح طور پر فرمایا گیا ہے کہ ہر امت کے لئے الگ راہ اور الگ شریعت ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ شرائع ماضیہ میں اصل خصوص ہی ہے۔اس طور پر اگلی امتوں میں ایک ہی وقت میں دو جگہوں میں الگ الگ رسول ہوا کرتے اور ہر ایک کی شریعت الگ الگ ہوا کرتی تھی۔ لہذا وہ ہمارے لئے حجت نہیں بن سکتیں مگر جب کہ کوئی دلیل شرعی وارد ہو جائے۔
سوم:
کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کے سابقہ شریعتیں ہمارے لئے مطلقا اسی طرح حجت ہیں جس طرح کہ ہماری شریعت ہے۔
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام شرائع میں اصل ہیں اور آپ کی شریعت جملہ انسانوں کو عام ہے۔ اس لحاظ سے وہ شریعتیں بھی آپ ہی کی ہوئیں لہذا ہمارے لئے قابل حجت ہیں۔
چہارم:
لیکن ہمارے ائمۂ اعلام کے نزدیک صحیح اور مختار یہ ہے کہ سابقہ شریعتیں مطلقا ہمارے لیے حجت نہیں بلکہ جب ان شرائع ماضیہ کا کوئی حکم اللہ یا اس کے رسول بیان کریں اور اس پر نکیر نہ فرمائیں وہ ہمارے واسطے حجت ہے ورنہ نہیں۔
کتاب یا سنت میں مذکور ہونے کی شرط اس لیے رکھی گئی کیونکہ اگلی شریعتوں کی کتابیں تحریف سے خالی نہیں ،اس لیے جس واقعہ یا مسئلہ کا تذکرہ قرآن یا حدیث میں آئے اس کا اپنی شریعت کا حصہ ہونا متیقن ہے۔لہذا نکیر نہ فرمانے کی صورت میں ہمارے لیے حجت ہے اور نکیر وارد ہو تو حتما و قطعا حجت نہیں ۔(ملتقطا از أصول البزدوی، باب شرائع من قبلنا، ص:521 تا 524)
ازقلم : محمد سرور عالم اشرفی اتر دیناج پور
متعلم:الجامعۃ الاشرفیۃ،مبارکپور
0 Comments