سوال :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بعد سلام عرض اینکہ میں نے کتابوں کی دوکان کھولی ہے جس میں طرح طرح کی کتابیں رکھا ہوں تو کیا میں وہابیوں کی کتابیں مثلا دینی تعلیم کا رسالہ نمبر تقویۃ الایمان بہشتی زیور مصنف اشرف علی تھانوی. فضائل اعمال مصنف زکریا کاندھلوی اور دگر علمائے دیوبند کی کتابیں بطور تجارت اپنی دوکان میں رکھ سکتاہوں یا نہیں بحوالہ کتب جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
فقط والسلام
الجواب بعون الملک الوهاب
یہ کتابیں فقط علماء اہلسنت کے ہاتھ فروخت کرنا جائز ہے اور ایسے مناظر اہل سنت سے بیچنا درست بلکہ بہتر ہے جن کے اندر بد مذہبوں کا رد کرنے کی صلاحیت ہو ورنہ ہر کسی کے ساتھ ایسی کتابیں فروخت کرنا جائز نہیں، فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۵۳۸ میں ہے : کہ وہابیوں و دیوبندیوں اور بد مذہبوں کی وہ کتابیں جن میں کفریہ باتیں ہیں یعنی اللہ جل شانہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ عبارات موجود ہیں مثلاً "تحذیر الناس''،" حفظ الایمان" اور" بہشتی زیور" اور اس کے علاوہ تمام کتابیں، بدعقیدوں یا سادہ لوح سنی صحیح العقیدہ عوام کو بیچنا ناجائز ہے کیوں کہ یہ کتابیں گمراہ کن ہیں انکا پڑھنا اور عوام کو اس کی تعلیم دینا گناہ ہے تو ان تمام کتابوں کا بیچنا گناہ پر تعاون اور اُن کے مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں مدد ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "ولا تعاونوا على الإثم والعدوان" یعنی گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو
البتہ علمائے اہل سنت کے ہاتھ بیچنا جائز ہے کہ یہ حضرات اِس لئے یے کتابیں رکھتے ہیں کہ بد مذہبوں کے باطل عقائد کی جانکاری حاصل کرسکیں اور وقت ضرورت انہیں دکھا کر اتمام حجت یا رد کرسکیں، اہل سنت کی لائبریریوں میں بھی یہ کتابیں انہیں اغراض ومقاصد کے لئے رکھی جاتی ہیں لہٰذا ایسی لائبریریوں کے لئے بھی بیچنا جائز ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم.
0 Comments