ایثار و وفا کی ایک عظیم داستان

روز اول سے آج تک ایثار و وفا کے بےشمار واقعے اور قصے روے زمین پر رونما ہوۓ جن سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ان سب کے پس پشت مختلف محرکات و دواعی اور اغراض و مقاصد کار فرما ہیں،کوئ محبت کی خاطر تو کوئی مال و منال اور جاہ و حشمت وغیرہ کے واسطے وقوع پذیر ہوئے جو کہ فانی ہیں۔ اس لیے ان کا دائرہ اثر محدود رہا ،مرور زمانہ و گزرتے ایام کے ساتھ دنیا نے انہیں فراموش کردیا اور وہ محض تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے مگر چشم فلک نے اسی دھرتی کے سینے پر کسی دنیاوی سبب کی بجائے ہمیشہ باقی رہنے والی ذات،اللہ تعالیٰ کی خاطر ایثار و وفا کا ایک ایسا داستان رقم ہوتے دیکھا جس کی نظیر تاریخ انسانی پیش نہیں کر سکتی۔جس کی اہمیت و افادیت،معنویت و عظمت اور یاد آج تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔

ایثار و وفا کی ایک عظیم داستان
 ایثار و وفا کی ایک عظیم داستان

ہزار آرزوؤں،تمناؤں اور دعاؤں کے نتیجے میں ایک باپ کے پیرانہ سالی میں بیٹے کے روپ میں ایک ولد صالح اور فرزند ارجمند کی آمد کیا ہوتی ہےکہ آپ کا ویران آنگن آباد ہوجاتا ہے۔آپ کا پژمردہ گلشن حیات لہلہانے لگتا ہے اور زندگی کے باغ و بہار میں جان آجاتی ہے۔اور ماں کا گود بھر جاتا ہے۔ ابھی ایک عرصہ بھی نہیں گزرنے پاتا ہے کہ باپ کے لیے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔رب العالمین کا اشارہ ہوتا ہے اور باپ اپنی اقامت گاہ سے اپنے ولد صالح اور زوجہ محترمہ کو لے کر کوسوں میل دور حجاز کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔صحراۓ حرم کی دہلیز پر پہنچتے ہیں اور آپ اپنی مومنانہ اور پیغمبرانہ بصیرت و فراست سے محسوس کرلیتے ہیں کہ اسی سرزمین پر سعادتوں کا سورج طلوع ہوگا۔یہیں سے مسلمانوں کی شان و شوکت کی نہریں رواں ہوں گے۔ بندگان خدا جوق در جوق آئیں گے۔چنانچہ بنیادِ کعبہ کے قریب ایک مقدس و پاکیزہ مگر بےآب و گیاہ،لق دق،سنگلاخ وادی—کسی آبادی کی نام و نشان نہ کسی آدم زاد کی آمد و رفت نہ چرند و پرند کی چہچہاہٹ و آہٹ —میں مختصر توشے کے ساتھ کھلے آسمان کے سایے تلے اور رحمت الہی کے آغوش میں ماں بیٹے کو چھوڑ دیتے ہیں۔اور خود آپ حکم الہی کے مطابق پلٹ آتے ہیں۔آہ! کتنی نازک آزمائش ہے۔جس کے تصور ہی سے دل تڑپ جاتا ہے۔ایک طرف شیر خوار ننہا سا بچہ ہے جو عمر بھر کی مناجات کا ثمرہ،جگر کا ٹکڑا،آنکھوں کا ٹھنڈک،بڑھاپے کا سہارا،والدین کا چشم و چراغ،امیدوں اور آشاؤں کا مرکز ہے تو دوسری جانب حکم الہی کی تعمیل کا مسئلہ۔ یہ گھڑی بھی کسی تلوار کی دھار سے کم نہیں ہوتی ہے کہ جس پر ہر خس و خاشاک چل سکے۔بالآخر"مرضی مولی از ہمہ اولی" کے پیش نظر محبت و فراق کے جذبات کے ساتھ بخوشی  واپس آجاتے ہیں کہ یہی شان بندگی ہے۔وفاشعار اہلیہ محترمہ بھی مشیت ایزدی کے آگے جبینِ اطاعت جھکا دیتی ہیں اور صبر و رضا کا دامن تھام لیتی ہیں۔

ادھر توشہ ختم ہوجاتا ہے۔بیٹے کو پیاس کی شدت تڑپاتی ہے۔بچہ کی تڑپ کو ماں کا مامتا کب تک دیکھتا چنانچہ وہ عظیم ماں صفا و مروہ کا تاریخی چکر لگاتی ہے مگر مایوسی ہاتھ آتی ہے۔پھر رحمت الہی جوش میں آتی ہے،زمین اپنا سینہ چیرتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسماعیل(علیہ السلام) کے قدم ناز سے پانی ابلنے لگتا ہے اور آب زمزم کا صاف و شفاف چشمۂ حیات بخش رواں دواں ہوجاتا ہے۔امیدوں کی نئی صبح نمودار ہوتی ہے۔وادیاں سیراب ہونے لگتی ہیں۔انسانوں کا قافلہ اترنے لگتا ہے۔

ایثار و وفا کے امتحان کا ایک باب کھلتا ہے۔بیٹا حد بلوغت کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ باپ خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے۔خواب کا یہ سلسلہ تین تک چلتا ہے پھر باپ بیٹے کے سامنے پر اعتماد کے ساتھ وہ خواب رکھتا ہے۔پھر بیٹا پیکر وفا میں ڈھل کر بارگاہ ابوت میں ایک عظیم و بےمثال بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جس ایمان افروز لب و لہجے اور سحر طراز و دل نشیں انداز میں عرض گزار ہوتا ہے,وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔آئیے اسے قرآن حکیم کی زبانی سنیے اور اپنی ایمانی حرارت میں اضافہ کیجیے!

(ترجمہ)"بیٹا نے عرض کیا ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے،اسے کر گزریے.ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے"

واہ! بیٹا ہو تو ایسا! ایک آن کی بھی مہلت مانگے بغیر رضامندی کا اظہار کیے دیتا ہے۔واقعی لفظوں کی جلو میں ایثار و وفا،صبر و رضا اور عزم و استقامت کے تابناک جلوے نظر آتے ہیں۔

باپ بیٹے دونوں پورے عزم و ارادے کا چٹان بن کر معبود حقیقی کے حکم کی تعمیل کے لیے تیز گامی سے میدان منیٰ کی طرف جا رہے ہیں۔عنقریب ایک بےمثال واقعہ معرض وجود میں آنے والا ہے۔شیطان بھی کب خاموش بیٹھے رہنے والا تھا۔وہ ان دونوں کو دیکھ کر جل بھن اٹھتا ہے اور عزم کے کوہ ہمالہ اور وفا کے پیکروں کو ان کے راستے سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔پہلے ماں کے مامتا کو جگاکر انہیں ورغلانے چاہتا ہے مگر صبر و وفا کی پیکر ماں اسے دھتکار دیتی ہے پھر بیٹے کے پیروں میں تزلزل پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے،یہاں بھی منھ کی کھانی پڑتی ہے۔بہر حال باپ بیٹے دونوں منزل تک پہنچتے ہیں۔پوری داستان میں یہی وہ مقام ہے جہاں ہر دل تڑپ اٹھتا ہے،ایمان کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔اور ایسا کیوں نا ہو کہ کیا کوئی باپ بھی اپنے لخت جگر کو رب کی خوشنودی کے لیے قربان کرنے کو تیار ہوسکتا ہے اور بیٹا بھی راضی ہوسکتا ہے مگر قربان جائیے ان مبارک ہستیوں کی ایثار و وفا داری اور اداؤں پر کہ ایک لمحہ کے لیے بھی تردد و تامل کے بغیر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ باپ بیٹے کے درمیان کچھ عرض معروض ہوتی ہے اور گردن نثار ہونے کے لیے جھک جاتی ہے۔۔۔چشم فلک حیران ہے... کہکشاؤں کا انجم تصویر بنا ہوا ہے.... شمس و قمر اپنی جگہ محو تماشا ہیں...ودای منی سراپا جستجو ہے....قدرت مسکرا رہی ہے....فرشتگان رشک کناں ہیں... تاریخ کے صفحات ایک بے مثال واقعہ کو اپنے اندر جذب کرنے کو تیار ہیں...گردن پر چھری چلتی ہے،بار بار چلتی ہے مگر گردن کاٹنے کا روادار نہیں ہوتی،ادھر حکم الہی سے جبریل علیہ السلام جنتی دنبہ لے کر حاضر ہوجاتے ہیں اور گردن کی جگہ وہ دنبہ قربان ہوجاتا ہے اور قربانی کی قبولیت صدا آتی ہے :

"اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم! بلاشبہہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا... ہم اپنے نیکوکار بندوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں... یقیناً یہ کھلی ہوئی آزمائش تھی... اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اسماعیل کے اوپر سے نثار کر دیا... اور آنے والی نسلوں میں ہم نے اس کی یادگار قائم کر دی... سلام ہو ابراہیم (جیسے مخلص دوست) پر... " (سورۃ الصّٰفٰت، ٣٧: ١٠٤-١٠٩)

متاع عشق سلامت رہتا ہے۔ امتحان میں کامیاب کی نوید جانفزا ملتی ہے۔یہ قافلہ وہی ٹھہر جاتا ہے۔قیامت تک کے لیے یہ ادا یادگار بن جاتی ہے۔حج کا رکن قرار پاتا ہے ۔طاعت کا نشان بن جاتا ہے۔اور مسلمانوں کو قرینۂ بندگی عطا کرتا ہے،ایثار و وفا،عزم و یقین،صبر و شکر کا درس حیات دے جاتا ہے۔

وہ عظیم ہستی,باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام,ماں حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور بیٹا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

از قلم گوہر رقم : لعل احمد دیناج پوری

متعلم :الجامعۃ الاشرفیہ

صدر :مجلس فکر و قلم


Post a Comment

0 Comments