تمام حمد پاک ہے اس خالق کائنات کیلۓ جس نے مسلمانوں کو آقاۓ دوجہاں ﷺ، صحابہ،تابعین،تبع تابعین اور جملہ اولیاء کاملین کے صدقہ و طفیل میں نعمت غیر مترقبہ (قربانی) عطا فرمایا۔
تعریفِ قربانی:
مخصوص جانورکومخصوص دنوں میں بنیت تقرب ذبح کرناقربانی کہلا تا ہے۔۔۔(بہارشریعت،ودیگرکتب فقہیہ)
قربانی کاتصور:
حلال جانور کو تقرب کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدم علیہ السلام کے عہد مبارک سے جاری و ساری ہے (لیکن طریقے مختلف تھے)جیسا کہ قران کریم کی تلاوت سے معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشادفرماتاہے"وَاْتْلُ عَلَیہِمْ نَبَاءَ بْنَیْ اٰدمَ بِالحقِ اِذْا قَرَّبَا قُربَاناً فَتُقُبِّلَ مِن اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الاٰخَرِ" ترجمہ : اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پڑھ کرسنادو! آدم کے دوبیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک نیاز(قربانی) پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی دوسرے کی نہیں ہوئی۔(ترجمئہ کنزالایمان ،مائدہ آیت ۲۶)سورہ حج میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے"لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلنَا مَنْسَکًا لِیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَۘھِیمَۃِ الْاَنعامِ"اورہرامت کیلئے ہم نے قربانی کا طریقہ مقررکیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے بے زبان چوپایوں پرذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے۔اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ابراہیم سے لے کرسابقہ تمام امتوں میں سے ہرامت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک خاص طریقہ مقررکیا ہے۔ یعنی زمانوں اورقوموں کے اختلاف سے قربانی کے طریقے مختلف ہوتے رہے ہیں لیکن ہرزمانے میں اورہرقوم میں صرف اسی خدائے واحد کی عبادت مشروع کی گئی تھیں۔ شریعتیں مختلف رہی ہیں اوردین سب کا ایک ہے(تبیان القران، سورہ حج)
فضائل عیدالاضحٰی،مسائل قربانی سوال و جواب کے ساتھ
فضیلت قربانی:
اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے.."لَن یَّنَالَ اللہَ لُحُومُھَا وَلاَ دِمَاؤُھَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنکُمْ" اللہ تعالیٰ کو ہرگز نہ اسکے گوشت پہنچتے ہیں،نہ اسکے خون۔ہاں!تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔اس آیت کریمہ کی تفسیر علامہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالی کو راضی کرسکتے ہیں۔اس تفسیر سے وہ حضرات درس عبرت لیں جو محض دکھاوے کیلئے قربانی کرتے ہیں۔بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ میڈیا والے کو بلا کر قربانی کے جانور کی تشہیر کی جاتی ہے. اللہ تعالی خلوص عطا فرمائے!۔
قربانی کے فضائل پہ احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں
"عن عبداللہ ابن قرط عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال ان اعظم الایام عنداللہ تبارک وتعالی یوم النحرثم یوم القر"حضرت عبداللہ بن قرط نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں۔آقاۓ دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عنداللہ سب سے معظم قربانی اور اس کا اگلا دن ہے۔(ابوداؤدشریف کتاب المناسک)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ "حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: یوم النحرمیں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں۔ وہ جانور قیامت کے دن اپنی سینگ،بال اور کھروں کے ساتھ آئےگا۔قربانی کے جانور کا خون زمین پہ گرنے سے قبل خدا کی بارگاہ میں مقام قبولیت کو پہنچ جاتاہے۔لہذا اسے خوش دلی سے کرو! (بہارشریعت ح ۱۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا: جو روپیہ قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں"(حوالہ مذکورہ)
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ "حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جس نے خوش دل سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سےحجاب (روک)ہوگی۔" (کتاب مذکورہ)
سبحان اللہ!ایام نحر بارگاہ صمدیت میں کتنا معظم ومکرم ہے کہ اس میں کئےجانےوالا عمل (قربانی)،اس میں خرچ کیئے جانے والا روپیہ رب تعالی کو بہت زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔
قربانی سنتِ ابراہیمی ہے:
یوں تو قربانی ہر امت پر رہی ہے پر اس کی خاص شناخت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے جیساکہ حدیث رسول ﷺ ہے"عن زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ قال قال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما ھٰذہ الاضاحی؟قال سنۃ ابیکم ابراہیم،قالو فما لنا فیھا یارسول اللہ قال بکل شعرۃ حسنۃ قالوا فاالصوف یارسول اللہ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ"حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ قربانیاں کیاہیں (اسکی حیثیت کیا ہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (طریقہ ہے) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نےعرض کیا اس قربانی سے ہمیں کیا ملے گا۔فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔صحابہ کرام نے پھر سوال کیا، یارسول اللہ اون(کےبدلے میں کیا ملے گا) فرمایا : اون کے بال کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی(شرح نسائی بحوالہ سنن ابن ماجہ)
قربانی نہ کرنے پر وعید:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے"
مذکورہ حدیث پاک میں قربانی نہ کرنےوالوں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نےناراضگی کا اظہار فرمایاہے۔
اللہ اکبر!خدا را اغنیاء ترکِ قربانی کے ذریعہ ناراضگی رسول ﷺ سے بچیں جو کہ سبب جہنم ہے!
مسائل قربانی:
سوال: وجوب قربانی کی کتنی شرطیں ہیں؟
جواب: چار شرطیں ہیں.....
(۱) اسلام: کافر اور دیگر فرقہائے باطلہ پرقربانی واجب نہیں ہے۔اگران میں سےکوئی بھی سنی صحیح العقیدہ کےساتھ قربانی کرےتو سب کی قربانی اکارت ہوجاۓگی۔
(۲) مقیم:مسافرپرقربانی واجب نہیں ہے۔اگر کرے تونفل ہوگی۔
(۳)حریت: یعنی آزاد ہونا۔لہذا شرعی غلام پر قربانی نہیں۔
(۴)مالک نصاب:
تنبیہ: قربانی کا نصاب وہی ہےجوصدقئہ فطر کا نصاب ہے۔یعنی حاجتِ اصلیہ کے علاوہ زائد مال کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو یا پھر انتی چاندی ہو. فی زماننا ساڑھے باون تولہ چاندی برابر 653 گرام 184 ملی گرام ہے..... قربانی کے ایام میں چاندی کا بھاؤ معلوم کرکے اسے ضرب دیں مقررہ نصاب نکل کر سامنے آیے گا.
سوال: مالک نصاب کون شخص ہے؟
جواب: جو اپنی تمام ترضرورتوں اورسہولتوں سے فراغت کے بعد ساڑھےباون تولہ چاندی یا اتنی مقدار میں کسی چیز کا مالک ہو تو وہ مالک نصاب ہے۔
سوال: قربانی کے ایام کب تک ہیں؟
جواب: دسویں ذی الحجہ کے طلوع شمس سے بارہویں کی عصر تک ہے.(فتاوی رضویہ جلد ۲۰ ،ص ۳۵۴۔وبہارشریعت حصہ ۱۵)
سوال : شرائط قربانی پورے وقت میں پایا جانا ضروری ہے؟
جواب: جی نہیں ہے بلکہ ایام قربانی کےکسی حصہ میں پایاجاناوجوب کیلئےکافی ہے۔آسان لفظ میں یوں سمجھیں کہ ایک شخص ابتدائےوقت میں کافر تھا لیکن وقت باقی تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوگی بشرطیکہ مذکورہ شرائط بھی پائےجاتےہوں۔(بہارشریعت ح ۱۵)
سوال: اول وقت میں ہی قربانی کرناواجب ہے؟
جواب: ایام قربانی میں سے کسی بھی وقت کر سکتے ہیں مگر دسویں افضل پھر گیارہویں پھر بارہویں (بہارشریعت ح۱۵)
سوال: نمازعیدسےقبل قربانی کرنا کیسا ہے؟
جواب: دیہات ہے تو جائز و درست ہے۔شہر میں نہیں (فتاوی رضویہ۲۰ص۳۷۹)
سوال:دسویں تاریخ کو عید نہیں ہوئی تو قربانی کب کرے؟
جواب: بعد زوال کرے۔اگر پہلے دن نماز ادا نہیں کیاتو دوسرے یا تیسرے دن نماز عید سےقبل قربانی کرنا جائز ہے (بہارشریعت ۱۵)
سوال: قربانی واجب تھی اور جانور بھی موجود لیکن ٹال مٹول میں ایام نحر گذر گئے توکیا کرے؟
جواب: اسکی قربانی فوت ہوگئی اب نہیں ہوسکتی۔وہ شخص خواہ غنی ہو یافقیر اگرمعین جانور(منت والا)زندہ ہے توصدقہ کردے اورذبح شدہ ہے تو سارا گوشت کردے۔
سوال: ایک قربانی کتنے افراد کی طرف سےہوسکتی ہے؟
جواب: بکری اسکی نوعتیں ایک کی طرف سے۔اونٹ اسکی نوعتیں سات کی طرف سے(فتاوی رضویہ ج۲۰ص۳۶۹)
سوال: شوہرکےرہتےہوئےعورت قربانی کرسکتی ہے؟
جواب: کرسکتی ہے۔اگر اس پر واجب ہے تو واجب ادا ہوگی ورنہ نفل(فتاوی بحرالعلوم ج۵ص۱۷۴)
سوال: قربانی میں بدیہ قوم(بھٹیا)کی شرکت کیسی یے؟
جواب:وہ سڑا غیر مقلد ہو (جنکی گمراہی حد کفر کو پہنچ چکی ہو)تو شرکاء میں سےکسی کی قربانی روا نہ ہوگی ۔اگرگمراہی حد کفر تک نہ پہنچی ہو تو احتیاط یہی ہے کہ ان کو شریک نہ کیاجاۓ۔جیساکہ فتاوی بحرالعلوم ج۵ص۱۸۰میں یہ مسئلہ مرقوم ہے۔
تنبیہ: بعض علاقوں کے بدیہ سخت غیر مقلد اور اہلحدیث ہیں لہذا ان کےساتھ قربانی میں شریک نہ ہو۔لیکن یہ بات ذہن نشیں ہوکہ بدیہ اگر سنی صحیح العقیدہ ہو تو اسکی شرکت سے قربانی میں کوئی خلل واقع نہیں ۔ازنعیمی۔
سوال: ایک شخص کے بالغ ونابالغ بھائی،بہن ہیں،سب اپنی اپنی کمائی گھر کے ایک ذمہ دار کو سونپ دیتے ہیں توکیا ان پرقربانی واجب ہوگی؟
جواب: اگر جمع شدہ مال کو تقسیم کردینے سےاس دن سب مالک نصاب ہوجائیں گے تواس صورت میں بالغوں پر قربانی واجب ہوگی ورنہ کسی پر نہیں (فتاوی بحرالعلوم ج۵ص۱۸۳)
سوال: غوث پاک رضی اللہ عنہ کےنام سےقربانی کی منت مانی تو اس کا گوشت خودکھاسکتاہےیانہیں؟
جواب: کھا بھی سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔کیوں کہ یہ منت شرعی نہیں ہے(بحرالعلوم ج۵ص۱۸۶)
سوال: چھ آدمیوں نےایک گائےمیں اپنےاپنےنام کی چھ حصہ قربانی کی اور ایک حصہ مشترکہ طور پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام تو ایسی قربانی جائز ہوگی یانہیں؟
جواب: جائز ہوگی(فتاویٰ بحرالعلوم،ج۵،ص۱۹۰)
سوال: کسی نے ماں باپ کے نام سے قربانی کی توقربانی ہوگی یانہیں؟
جواب: قربانی ہوجاۓ گی لیکن اگر وہ مالک نصاب ہے تو اسے پہلے اپنے نام سے قربانی کرنا واجب ہوگا ورنہ گنہگا رہوگا(فتاویٰ فیض الرسول،ج۲ص۴۴۰)... لیکن مفتی بہ قول یہ ہے کہ میت نے اگر وصیت نہیں کی ہے تو ایسی صورت میں قربانی ذابح کی طرف سے ہوگا اور میت کو اس کا ثواب ملے گا... (فتاویٰ عالمگیری)
سوال:جسکے پاس کھیت ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی یانہیں؟
جواب:اتنی کھیت ہوکہ بیچنے سے مقدارِ نصاب مال ہونے پر قربانی واجب ہوئی ورنہ نہیں(فتاویٰ فیض الرسول،ج۲،ص۴۴۲)... زمین کا حاجت اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے..... ورنہ قربانی واجب نہیں ہوگی.
سوال: بقر عید کے دن شہر میں کرفیولگ جائےیافتنہ کےسبب لوگ گھر سے نکل کر عیدگاہ یا مسجدمیں بقرعیدکی نمازنہ پڑھ سکے توقربانی کب کریں گے؟
جواب: جبکہ کرفیو یا دوسرے سبب سے شہرمیں عیداضحیٰ کی نمازپڑھناممکن نہ تواس صورت میں دسویں ذوالحجہ کو بعدطلوع فجر شہر میں قربانی جائزہے(فتاویٰ فیض الرسول،ج۲ص۴۴۷)
سوال: شادی شدہ عورت اپنی طرف سےقربانی کرے تووالدین یا شوہرمیں سے کس کا نام لے گی؟
جواب: صرف اپنا نام کافی ہے۔والدین یا شوہرکا نام لیناضروری نہیں اورلینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے(فتاویٰ فیض الرسول،ج۲ص۴۴۸)
سوال:کوئی عزیز پردیسی کی جانب سے قربانی کرےتواس کا کیا حکم؟
جواب: بلااجازت ناممکن ہے۔ ہاں!صراحۃً اجازت ضروری نہیں بلکہ دلالةً بھی کافی ہے۔مثلا اسکی پرورش اسی کے ذمہ ہو(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۴۵۳)
سوال: کیانابالغ پرقربانی واجب ہے؟
جواب: اولاد صغار کی طرف سےاپنےمال سےقربانی کرنا واجب نہیں ہاں مستحب ہے جیساکہ فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۴۵۴ میں مذکور ہے۔
سوال: کن کن جانوروں کی قربانی درست ہے؟
جواب: اونٹ،گائے،بکری اوران کی جملہ نوعیتیں خواہ نرہوں یامادہ،خصی ہوں یاغیرخصی سب کی قربانی جائز و درست ہے۔
سوال: کیا بھینس کی قربانی جائزہے؟
جواب:بھینس بقر ہی کی جنس سے ہے (ہدایہ بحوالہ فتاویٰ فیض الرسول ، ج ۲ ص ۴۴۹)
سوال: دودھ دھاری یاگابھن جانورکی قربانی کیسی ہے؟
جواب:جائز مگرناپسند ہے۔ حدیث میں اسکی ممانعت آئی ہے
(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۳۷۰)
سوال: جس جانور کی سینگ نہ ہو یا ہو پر ٹوٹ گءی ہو، مجنون، خصی جسکے خصیے نکال لیئے گئے ہوں، مجبوب جسکے خصیے اورعضو تناسل کاٹ لیئے گئے ہوں توان سب جانوروں کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب: جس جانور کی پیدائشی سینگ نہ ہو تو اسکی قربانی جائزہے۔سینگ تھی پر گودا تک ٹوٹ گئ تو اس کی قربانی ناجائز ہے ورنہ جائز۔خصی اور مجبوب دونوں کی قربانی جائز ہے۔رہی بات مجنون کی تواس کا جنون اس حدتک ہو کہ وہ چرت ابھی نہیں تو اس کی قربانی ناجائز ورنہ جائز ہے۔(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: بھینگا،اندھا،کانا،بیمار،لنگرا،لاغراور دم یاچکی کٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز ہے یانہیں؟
جواب:بھینگا جانور کی قربانی جائز ہے لیکن اندھا کی جائز نہیں ۔ کانا جسکا کاناپن ظاہرہواسکی بھی قربانی جائز نہیں۔اتنا بیمارکہ جسکی بیماری ظاہرہواسکی قربانی جائز نہیں۔لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ چل سکے اور جسکے کان یا دم یا چکی تہائی سے زیادہ کٹے ہوں ناجائزہے دم اگرتہائی سےکم کٹےہوں توجائز۔اورجسکا پیدائشی کان نہ ہو یا ایک ہی کان نہ ہوتواسکی بھی ناجائزہے۔جسکا کان چھوٹا ہوتواسکی جائزہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰،ص۴۵۹)
سوال:بغیر دانت والے جانور یا جس کا تھن کٹا ہو یا خشک ہو ان سب کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟
جواب:جس کے دانت جھڑ گئے ہوں اسکی قربانی جائز نہیں۔اگر دانت آیا ہی نہ ہواورعمرمکمل ہو تواسکی قربانی جائز ہے۔تھن کٹے یا خشک والے جانور کی قربانی ناجائزہے۔
تنبہہ: بکری میں ایک تھن کافی ہے۔ گائے اور بھینس میں دونوں تھن خشک ہو(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: عیب دارجانور کو قربانی کیلئے خریدا بعد میں اسکا عیب جاتا رہا تو اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جائز ہے(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال:بانجھ بکری کی قربانی جائزہے یا نہیں؟
جواب:جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی اور وجہ مانع نہ ہو.
(فتاویٰ فیض الرسول،ج۲ص۴۶۵)
سوال: اگرسات آدمی سے زیادہ چندہ کر کےایک قربانی کرناچاہے توکیسےکریں؟جواب: سات کی طرف سے قربانی کرے۔ ان کوعین قربانی کا ثواب ملے گا باقی کو مدد قربانی کا.(فتاویٰ بحرالعلوم،ج۵بحوالہ فتاویٰ رضویہ)
سوال: قربانی کا جانوراگرمرگیا تو کیا دوسرے جانورکی قربانی واجب ہوگی یانہیں؟جواب: غنی پر دوسری قربانی کرنا واجب ہے۔فقیرپرنہیں.(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال:عقیقہ کرنے والا قربانی کے جانورمیں شریک ہوسکتاہے؟
جواب:جی ہو سکتا ہے!۔(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰،ص۴۵۰)
سوال:اگر سات آدمی سے زیادہ چندہ کرکے ایک قربانی کرنا چاہے توکیسے کریں؟جواب:سات کی طرف سے قربانی کرے۔ان کوعین قربانی کا ثواب ملے گا باقی کو مدد قربانی کا .(فتاویٰ بحرالعلوم،ج۵بحوالہ فتاویٰ رضویہ)
سوال: قربانی کا جانورکیساہونا چاہیۓ؟
جواب: خوبصورت اور بہت فربہ ہو۔ بکری کی قسم میں سے قربانی کرنی ہوتوسینگ والا خصی چت کبرامینڈھا بہتر ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اسی پرعمل مبارک ہے (بہارشریعت،ح۱۵)
سوال:جانورذبح کرنے کا طریقہ کیاہے؟
جواب: جانور کو بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں۔ایک کے سامنے دوسرے کوذبح نہ کریں۔چھری وغیرہ پہلے سے تیز کرلیں۔جانورکو بائیں پہلو پراس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی طرف منھ ہو،اپنا داہنا پاؤں اسکے پہلو پررکھ کرتیز چھری سے جلدی ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم ازکم تین رگیں۔گردن تک چھری نہ پہنچاۓ کہ بے وجہ تکلیف دینا ہے(بہارشریعت،ج١٥)۔ اورذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں"انّی وجّھتُ وجْہِیَ لِلّذی فطرَالسّموٰتِ والارضَ حنیفًاوماانامِن المشرِکِین اِنّ صَلاتِی ونُسُکِی ومَحْیَایَ ومَماتِی لِلہ ربِ العالَمِین لاشَرِیکَ لہ وبِذَالِک اُمِرْتُ وانامِنَ المُسْلِمِین الّلٰھُمّہ لَکَ ومِنْک بِسْمِ اللہ اللہ اکبر" بعدہ یہ دعا پڑھیں!:الّلٰھمہ تَقَبّل مِنّی کَماتَقَبّلْتَ مِنْ خَلِیلِک اِبْراہیمَ علیہ السلام وحَبِیْبِک مُحَمَّدصَلّی اللہ تعالی علیہ وسلم"۔اگردوسرےکی جانب سےہوتو"منی" کی جگہ ''من فلاں'' یعنی اس کانام لے لیں!
سوال:جانور کا ہاتھ، پاؤں کب کاٹا جاۓ اورچمڑا کب اتارا جائے؟
جواب: جب تک ٹھنڈا نہ ہوجاۓ۔ (بہارشریعت،ح۱۵)
سوال:قربانی کا جانورکس سے ذبح کرانا چاہیئے؟
جواب:خود سے ذبح کرنا بہتراورمناسب ہے جب کہ ذبح کرنا جانتا ہو ورنہ مسلمان سے۔اگر مسلمان کے علاوہ کسی نے کیا (مجوسی،مشرک،مرتداوردیوبندیوغیرہ) تو وہ جانورحلال نہیں بلکہ حرام ومردارہے جیساکہ بہارشریعت،ج۱۵اورعام کتب فقہیہ میں ہے۔
سوال:قربانی کرنے والا قربانی کا گوشت کھا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: کھا سکتا ہے بلکہ مستحب ہے۔
سوال: قربانی کےگوشت کوتین حصہ کرناضروری ہے؟
جواب: مستحب ہے۔ کل صدقہ کرنا بھی جائزہے اور اپنے لئے رکھ لینا بھی جائز ہے جبکہ اہل وعیال زیادہ ہوں۔(فتاوی رضویہ۔بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: منت کی قربانی کےگوشت کاکیاحکم ہے؟۔۔۔
جواب: پورے کوصدقہ کرناواجب ہے اسے نہ خود کھا سکتا ہے اور نہ ہی اغنیا کو دے سکتا ہے(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: میت کی طرف سے قربانی ہو تواسکے گوشت کا کیا حکم ہے؟
جواب: میت نے اگروصیت کی ہے تو اس گوشت کوصدقہ کردے خود نہ کھائے نہ اغنیاء کو دے! اوراگروصیت نہیں کی ہے تو سب کھا سکتے ہیں.
(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۴۵۵)
سوال: چرمِ قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب:صدقہ کردے! اور اپنے کسی کام میں بھی لا سکتے ہیں مثلا جائےنمازوغیرہ بنائے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۴۵۱)
سوال: قربانی کے جانور کی کوئی چیز(چمڑا،گوشت) قصاب کو بطور اجرت دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: نہیں دے سکتے ہیں! بلکہ عام الناس کی طرح دے سکتے ہیں۔
(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: جانور کے پیٹ میں بچہ ہوتواسکی قربانی ہوسکتی ہے؟
جواب: جی ہاں! ہوسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔وہ بچہ اگرزندہ ہوتوذبح کردیں اور اپنے استعمال بھی میں لا سکتے ہیں ۔ اگرمردہ ہوتو پھینک دیں!
(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: مشترکہ قربانی کا گوشت کیسےتقسیم کریں؟
جواب: وزن سے کیوں کہ اگر کسی کے پاس زیادہ چلا گیا تو دوسرے کے معاف کرنے سے بھی معاف نہیں ہوگا.(بہارشریعت،ح۱۵)
سوال: قربانی کی کھال سادات کرام کودے سکتے ہیں؟
جواب: جی! سادات کرام ،علماۓ ذوی الاحترام، والدین، شوہر، بیوی، مسجد، مدرسہ، مؤذن، امام اور خویش و اقارب سب کو دے سکتے ہیں۔ بنیت تصدق ہوتوصدقئہ نافلہ ورنہ ہدیہ ہے.(فتاویٰ رضویہ،ج۲۰ص۴۶۵)
واللہ اعلم بالصواب..
ازقلم : محمد ناصررضا نعیمی،شریفی
0 Comments