کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہیں کلی جس میں حسین اورحسن پھول
حضرات اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عظمت اور ان کے مراتب کی بلندی کو سمجھنا ہمارے بس کا روگ نہیں ،حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے خونی نسبت ہی انہیں عام انسانوں سے اتنا فائق بنا دیتی ہے کہ ہما شما کے تصورات بھی وہاں پر نہیں مار سکتے۔
انہیں معززومحتشم ہستیوں میں ایک نام جگر بند مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ،ریحان دل مرتضیٰ ،قرۃ العین فاطمۃ الزھراء ،برادر اکبر حضرت سید الشہداء یعنی سیدنا ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔آپ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور فرزند مولائے کائنات و خاتون جنت ہونے کے ساتھ ساتھ علم و معرفت اور زہد و تقوی کے پیکر تھے،تواضع و انکساری، خشیت الہی، رحم دلی ،سخاوت و فیاضی اور ناتواؤں کی نصرت و اعانت وغیرہاخصال حمیدہ سے بدرجۂ اتم آراستہ تھے۔
ذیل میں آپ کی حیات طیبہ پراختصارا روشنی ڈالی جاتی ہے۔
نام والقاب: آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی حسن، جبکہ کنیت ابو محمد اورلقب سبط الرسول و ریحانۃ الرسول ہے۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی، ص:۱۴۹)
حلیۂ مبارک: آپ کا رنگ گورا مائل بہ سرخ تھا،آنکھیں بڑی اورسیاہی مائل تھی، رخسار نرم تھا، ریشہائے مبارک کثیف تھیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ تھے۔(مسند امام احمد، جلد ۶، ص:۲۸۳)
![]() |
سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ:مختصر سوانح اور فضائل و مناقب |
ولادت باسعادت: مدینہ منورہ میں ۱۵ رمضان المبارک ،۳ ہجری کو آپ رضی اللہ عنہ کا تولد ہوا۔(البدایہ و النھایہ، جلد ۵,ص:۵۱۹)
مبارک تحنیک: ولادت کے بعد حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے کان میں اذان کہی(معجم کبیر، جلد ۱,ص:۳۱۳،الحدیث:۹۲۶) اور اپنے لعاب دہن سے گھٹی دی۔(البدایہ و النھایہ، جلد ۵,ص:۵۱۹)
عقیقہ: پھر ساتویں دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کا عقیقہ کیا،جس میں دو دنبے ذبح کیے،سر کا حلق کرایا اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی تصدق فرمایا۔(تاریخ الخلفاء، ص:۳۱۳، سنن النسائی، ص:۶۸۸، الحدیث:۴۲۲۵)
نبوی تربیت: آپ کی پرورش ایسی ہستی کے آغوش شفقت میں ہوئی جو ساری مخلوق خداوندی کی تربیت کا گہوارہ ہے۔یعنی رحمت عالم، جان دو جہاں حضور سید الانس و الجن صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک گود میں اس طرح پروان چڑھے کہ روحانی اور اخلاقی ہردو جہتوں سے کمال کو پہنچ گئے۔
اوصاف کریمہ:آپ بے حد نرم دل، جواد و سخی، عبادت وریاضت گزاراورعفو و درگزر کے پیکر تھے۔(تاریخ ابن عساکر، جلد ۱۳,ص:۲۴۱)آپ کی فیاضی کا عالم یہ تھا کہ کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات تو کرتے ہی رہتے تھے اس کےعلاوہ دو مرتبہ اپنا کل مال اور تین مرتبہ نصف مال راہ خداوندی میں صدقہ کردیا۔
خشیت ربانی: آپ ہمیشہ فکر آخرت میں محورہتے تھے،ہمہ وقت سینہ خوف خدا سے معمور رہتا تھا،طاعت و عبادت کے پیکر مجسم تھے۔ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھا کہ ایک بچہ مکہ معظمہ کے حرم میں ریت پر سر ملتا جارہا تھا اور شوق الہی میں بے سدھ تھا، نزدیک آ کر جب دیکھا گیا تو پتہ چلا وہ بچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہی ہیں، پوچھا گیا کہ آپ کے نانا شافع محشر، والد مولائے کائنات، ماں خاتون جنت تو آپ کو کیا ڈر ہے؟آپ نے فرمایا: یہ دربار ماں باپ کی بزرگی پر ناز کرنے کی نہیں ہے، یہاں تو فضل کا امیدوار ہونا چاہیے۔(ملخصا از شہادت نامہ،حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ، ص: ۹۱)
وقت نماز رنگ متغیر ہوجاتا:جیسے ہی آپ وضو سے فارغ ہوتے فورا آپ کا رنگ بدل جاتا۔وجہ دریافت کی گئی تو ارشاد فرمایا: جو مالک عرش کی بارگاہ میں حاضری کا عزم کرے تو حق یہی ہے کہ اس کا رنگ بدل جائے۔(وفیات الاعیان، ج:۲، ص: ۵۶)
پیدل سفر حج:امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی معرکہ آرا تصنیف "سیر اعلام النبلاء" میں لکھتے ہیں" کہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے پا پیادہ سفر کرکے ۲۵ حج ادا کیے"۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد ۴,ص:۳۸۷)
روایت حدیث:آپ سے کل تیرہ احادیث مروی ہیں۔جن میں سے اکثرآپ نے اپنے والد ماجد امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت کی ہیں۔آپ سےروایت کرنےوالوں میں ام المومنین سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا، صاحبزادے حسن، ابو الحوراء ربیعہ بن شیبان، امام شعبی اور ابو وائل رحمھم اللہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔(تاریخ الخلفاء، ص: ۳۱۲)
خلافت:امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی شہادت کے بعد آپ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو اہل کوفہ نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ آپ نے وہاں چھ ماہ اور کچھ ایام قیام فرمایا پھر چند شرائط کے ساتھ امور خلافت حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سپرد کر دیے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تمام شرائط قبول کیں اور صلح ہوگئی ۔یوں صادق و مصدوق نبی میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا جو آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ میرے اس فرزند کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔(تاریخ الخلفاء، ص:۳۱۷)
شہادت:کسی کے زہر کھلا دینے کے سبب ۵ ربیع الاول،۴۹ ہجری کو مدینہ منورہ میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ ایک قول ۵۰ ہجری کا بھی ہے۔(صفۃ الصفوۃ، جلد ۱,ص:۳۸۶، المنتظم، جلد ۵,ص:۲۲۶)
نماز جنازہ اور روضہ مبارک:نماز جنازہ حضرت سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے آپ کو جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ۔(الاستیعاب، جلد ۱، ص:۴۴۲)حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنازے میں اس قدررش تھا کہ اگر سوئی پھینکی جاتی تو وہ زمین پر نہ گرتی بلکہ کسی نہ کسی کے سرپر گرتی۔(الاصابہ، جلد ۲، ص:۶۵)منقول ہے کہ آپ نے وصیت کی تھی کہ میرے جنازے کو روضۂ اقدس لے جانا، اگر کوئی مزاحمت نہ کرے تو وہیں دفن کر دینا اوراگر کوئی رکاوٹ ڈالے تواصرار نہ کرکے جنت البقیع میں دفن کر دینا۔ارشاد کے مطابق سب سے پہلے آپ کے جنازے کو روضۂ رسول کے پاس لایا گیا، لیکن مخالفین نے سخت مخالفت کی لہذا جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔
(روضۃ الشھداء، جلد اول، ص:۴۳۰-۴۳۱)
ازواج و اولاد:آپ کثرت کے ساتھ نکاح کرتے اور تکثیر نسل کی خاطر طلاق دے دیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ جو عورت بھی آپ کے حبالۂ عقد میں آتی آپ پر شیفتہ ہو جاتی۔(تاریخ الخلفاء، ص:۳۱۶)کتب تاریخ میں آپ کے جن ازواج کا تذکرہ ملتا ہے وہ درجہ ذیل ہیں:
۱: حضرت ام بشیر بنت ابو مسعود عتبہ رضی اللہ عنھا
۲:حضرت خولہ بنت منظور رضی اللہ عنھا۳
: حضرت فاطمہ بنت ابو مسعود رضی اللہ عنھا
۴:حضرت ام ولد۵:حضرت ام اسحاق بنت طلحہ رضی اللہ عنہا
۶:حضرت رملہ رضی اللہ عنھا۷:حضرت ثقفیہ رضی اللہ عنھا
۸:حضرت امراء القیس رضی اللہ عنھا
۹: حضرت جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنھا(انوار نبوت، ص:۶۲۲، ۶۲۳)
ان ازواج سے اللہ رب العزت نے آپ کو بہت سے صاحبزادے اور صاحبزادیاں عطا فرمائیں ۔کتب سیر میں آپ کے ان شہزادوں کے نام ملتے ہیں:
۱:حضرت زید رضی اللہ عنہ۲:حضرت حسن مثنی رضی اللہ عنہ(حضرت سیدہ صغری بنت امام حسین کے شوہر)
۳:حضرت حسین الاثرم رضی اللہ عنہ۴:حضرت طلحہ رضی اللہ عنھا
۵:حضرت اسماعیل رضی اللہ عنہ
۶:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ۷:حضرت یعقوب رضی اللہ عنہ
۸:حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ
۹:حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ
۱۰:حضرت عمر رضی اللہ عنہ(شہید کربلا)
۱۱:حضرت قاسم رضی اللہ عنہ(شہید کربلا)
۱۲:حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ(شہید کربلا)
۱۳:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ(شہید کربلا((انوار نبوت، ص:۶۲۲، ۶۲۳)
اس کے علاوہ آپ کی پانچ شہزادیاں تھیں۔
۱:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا
۲:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا
۳:حضرت ام عبد اللہ رضی اللہ عنھا
۴:حضرت ام الحسین رملہ رضی اللہ عنھا
۵:حضرت ام الحسن رضی اللہ عنھا (خلفائے رسول، ص:۲۳۳)
نسل سادات حسنی:آپ رضی اللہ عنہ کی نسل سیدنا زید اور سیدنا حسن مثنی رضی اللہ عنھما سے چلی۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سیدنا حسن مثنی رضی اللہ عنہ اور سیدۂ صغری رضی اللہ عنھا کی اولاد اطہار سے ہیں۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا، تو ہےعین نور تیرا سب گھرانا نور کا۔
فضائل و مناقب:آپ کے فضل و کمال کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ خاندان نبوت کے چشم و چراغ ہیں، شیر خدا اور سیدۂ کائنات کے نور نظر ہیں اور نبوی تعلیم و تربیت نے آپ کے اخلاق و کردار اور شخصیت کو اس قدر نکھارا تھا کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔حدیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسی روایات کثرت کے ساتھ موجود ہیں جن میں آپ کی عظمت و رفعت جلی حرفوں میں ثبت ہے۔ کچھ روایات ذیل میں ملاحظہ ہوں:
آپ سے سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کہ محبت: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اور حسن کو گود میں لیتے اور یوں دعا کرتے"اے میرے اللہ بلا شبہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، لہذا تو بھی انھیں محبوب رکھ۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم ، باب مناقب الحسن و الحسین، رقم الحدیث:۳۷۴۷)
آپ سردار ہیں:حضرت ابو بکرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر جلوہ افروز تھے جبکہ حسن آپ کے پہلو میں کھڑا تھا جو کبھی لوگوں کو دیکھتا اور کبھی آپ کو، اتنے میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔( حوالۂ سابق، رقم الحدیث: ۳۷۴۶)
شبیہ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم:
۱: حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حسن کو گود میں لیکر فرمایا" میرے والد کی قسم، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمشکل ہے، علی کا ہمشکل نہیں ،یہ سن کر سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم مسکرانے لگے۔(حوالۂ سابق، رقم الحدیث:۳۷۵۰)
۲:امام زھری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ نہ تھا۔(حوالۂ سابق، رقم الحدیث: ۳۷۵۲)
منفرد نام: حضرت مفضل فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو پوشیدہ رکھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرزندوں کے وہ نام رکھے۔(اسد الغابہ، جلد ۲,ص:۱۵، تاریخ الخلفاء، ص: ۳۱۳)
کتنا اچھا سوار : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حسن کو اپنے مبارک کندھے پر لیکر باہر نکلے، یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا"اے لڑکے کتنی اچھی سواری ہے! تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "اور کتنا اچھا سوار ہے!" (المستدرک، جلد ۳,ص:۱۷۰)
آپ جنتی نوجوانوں کے سردار:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا"حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں" (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی الخ، رقم الحدیث: ۳۷۶۸)
آپ ریحانۃ الرسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں:پیارے آقا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اور حسین میرے دنیا کے دو پھول ہیں۔(حوالۂ سابق، رقم الحدیث: ۳۷۷۰)
حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے محبوب ترین: حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "حسن اور حسین" اور سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرماتے کہ میرے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر لاؤ پھر ان دونوں کو سونگھتے اور اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے۔(حوالۂ سابق، رقم الحدیث:۳۷۷۲)
یہ رہا شہزادۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا مختصر تذکرہ جو حصول برکت کی خاطر ایک سعئ ناقص کا نتیجہ ہے۔ اللہ اسے قبول فرمائے اور اس میں رہ گئی فرو گذاشت کو معاف فرمائے۔اخیر میں رب قدیر کی بارگاہ میں استدعا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،ان کے اصحاب کرام اور اہل بیت اطھار رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محبت ہمارے دلوں میں روز افزوں فرمائے اور ہمارے خرمن میں ان کے فیضان کی جھماجھم بارش ہو۔ آمین یا رب العلمین۔
از قلم :محمد سرور عالم اشرفی اتردیناجپور
متعلم: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
1 Comments