اسم گرمی: حسین۔
کنیت:ابو عبداللہ۔
القاب:
طیب، زکی، سید الشھداء، سید شباب اہل جنۃ،ریحانۃ النبی، اور سبط رسول ہیں۔( اسدالغابہ،ج،٢،ص،٢٦)ولادت کے وقت والد گرامی نے حرب نام تجویز فرماتا؛ نانا جان نے تبدیل کر کے حسین رکھا۔ (اسدالغابہ)
ولادت:
بیان کیا جاتاہے کہ؛ ابھی آپ شکم مادر ہی میں تھے، کہ:ام الفضل بنت حارث زوجہ حضرت عباس نے ایک بڑاہی عجیب اور بھیانک خواب دیکھا، کہ؛ کسی نے رسول اکرم صلہ اللہ علیہ اسلم کے جسم اطہر کاا یک ٹکرا، کاٹ کر، ان کی گود میں رکھ دیا ہے. وہ بدحواسی کے عالم میں فورا بارگاہ رسالت میں پہنچیں اور عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میں نے ایک بہت ناگوار خواب دیکھاہے. آپ نے فرمایا: کیا دیکھا ہے؟ عرض کیا:ناقابل بیان ہے. آپ نے فرمایا: بیان کرو، آخر کیا ہے؟ تب انہوں نے خواب بیان کیا. جسے سن کر رحمت دوعالم نے فرمایا: یہ تو بہت مبارک خواب ہے. بات یہ ہے کہ فاطمہ کو ایک لڑکا پیدا ہوگا، اور تم اس کو اپنی گود میں لو گی۔کچھ دنوں کے، بعد اس خواب کی تعبیر یوں ملی، کہ باغ بنوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں وہ ارعوانی پھول کھلا؛ جس کی خشبو؛ حق وصداقت، جرات و بہادری، عزم و استقلال اور ایثار وقربانی کی وادیوں کو ہمیشہ کے لیے بساتی اور چمکاتی رہی یعنی ماہ شعبان 4 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کاشانہ حسین کے تولد سے رشک گلزار بنا۔(حوالہ سابق)
![]() |
سیرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند جھلکیاں |
پرورش اورتعلیم وتر بیت:
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پرورش اور تعلیم وتر بیت کاشانہ نبوت اور معدن علم میں ہوئی. امام حسین جب کچھ بڑے ہو، تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسجد نبوی کاصحن ہے، صحابہ کرام شمع نبوت کے گرد پرو نوں کی ہجوم لگا ئے ہوئے ہیں، اور سجر اسلام تیزی سےبرک و بار لارہے۔ایسے روحانی وعرفانی ماحول میں امام حسین نے نشو ونما پائی۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بچپن کے سات برس حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صحبت پائی۔ اور سات سال تک معدن علم سے خوب استفادہ کیا۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی امام حسین اور امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہما کی پرورش اور تعلیم وتر بیت میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑی۔ دونوبھائی،بچپن ہی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے بہترین نمونہ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، حضرت حسنین کریمین کے ساتھ غیر معمولی شفقت فرماتےتھے.روزنہ دونوں بھائیوں کو دیکھنے کے لیے اپنی لخت جگر خاتون جنت کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے اور دونوں کو بلاکر خوب پیارومحبت کرتے۔کبھی سینے پر بٹھا تے کبھی کاندھوں پر اور مسلمانوں کو ان دونوں سے محبت کی تاکیدی حکم فرماتے۔رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ نے کی کس طر ح تر بیت فرمائی، اس کی ایک جھلک بخاری شریف کے حدیث پاک سے ملاحظہ فرمائیں ۔
خدمت رسالت مآب میں ایک مرتبہ زکوۃ کی کھجو کا ایک ٹوکرا لایا گیا.رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسے تقسیم فرمانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ امام حسین جو کہ ابھی چھوٹے تھےایک کھجوراٹھا کرمنہ میں ڈال دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وہ کھجورامام حسین کے منہ سے نکال کرپھنک دیا اور فرمایا، کہ؛ میرے اہل بیت کے لیے زکوٰۃ حرام ہے۔(بخاری شریف)
عبادت و ریاضت:
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصمت وطہارت، اخلاق فاضلہ، اوراوصاف حمیدہ کے مجسمہ تھے،آپ کی عبادت وریاضت،زہد و ورع، اورخشیت وللہیت،کا، دوست و دشمن سب قائل تھے. عبادت گزاری کی یہ حالت تھی، کہ:آپ سب زندہ دار تھے۔ ایام ممنوعہ کے علاوہ ہمشہ روزہ سے ہوتے تھے، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت فرماتے تھے۔ روایتوں میں آتا ہےکہ:آپ کئی حج پیدل فرمائے.صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیںکان الحسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کثرالصوم والصلاۃ والحج والصدقۃو افعال الخیر جمیعا۔(اسدالغابہ،ج:٢،ص:٢٧)
سخاوت وفیاضی:
مالی اعتبار سے، آپ کو خدانے جیسی فارغ البالی عطافرمائی تھی اسی فیاضی سےراہ خدا میں خرچ بھی کرتے تھے.علامہ ابن عساکر لکھتے ہیں: حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے۔کوئی سائل کبھی، آپ کے دروازے سے ناکام نہیں لوٹتا۔ ایک مرتبہ ایک فقیرمدینے کی گلیوں میں گھومتےہوے، آپ کے دروازے پر پہنچا۔ آپ اس وقت نمازمیں مشغول تھے۔جلدی نماز سے فارغ ہوکر آپ نے خادم کو آواز دی، اورپوچھا، کہ: کیا ہمارے اخرجات میں سے کچھ باقی ہے؟ خادم نے جواب دیا نہیں۔ لیکن آپ نے جو دوسو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تقسیم نہیںکیے گئے ہیں ۔آپ نے فو را طلب فرماکر فقیر کو دے دیا۔ اور معذرت کی، کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے اس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکتا۔( بحوالہ اربعین امام حسین)
عجزو انکسار:
آپ حد درجہ خاکساراورمتواضع تھے۔ ادنی سے ادنی شخص سے بھی بے تکلفی سے ملتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی طرف سے جارہے تھے۔راستے میں کچھ فقرا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کو دیکھ کر کھانے کے لیے مدعو کیا۔ آپ نے کھانے میں شرکت کر کے فرمایا:تکبر کرنے والوں کو خد دوست نہیں رکھتا۔ اور ان فقرا سے فرمایا میں نے تمہاری دعوت قبول کی اس لیے تم میری دعوت قبول کرو، اور ان کو گھر لے جاکر کھانا کھلایا۔(حوالے سابق)
علمی مقام:
حضرت امام حسین ابتدائی عمر ہی سے اصلاح وتعلیم کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ آپ کا علمی مقام ومرتبہ بہت بلند تھا، اور کیوں نہ ہوں جس نے باب علم کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہوں۔ اس کےعلم وکمال کا کیا پوچھنا۔ باب العلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت سےعلوم فنون آپ نے براہ راست سیکھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چوں کہ قضا وافتا میں بڑی شان اورمقام و مرجعیت رکھتے تھے، اس لیےامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت سے مورثی علم سے وافرحصہ عطاکیا گیاتھا۔
شجاعت اور دلیری:
امام حسین نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندرسمیٹ رکھا تھا۔ آپ اس معمولی اورانگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آراہوگئےاورجنگ کے یقینی ہونےکے بعد ذرہ برابرخوف و ہراس آپ کےچہرے پرظاہر نہیں ہوا۔ اس کےباوجود کہ اپنی اور اپنےاصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصرسی فوج کوتیار کیا اورپورے اقتداراوردلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کرلیا۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء واقرباء اوراصحاب وانصارخون میں غلتیدہ ہو گئے لیکن ہرگز آپ دشمن کے سامنےتسلیم نہیں ہوئے۔ اورجب اپنی جنگ کی باری آئی،توشیردلاورکی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کر چیرتے ہوئےلاشوں پرلاشے بچھا دئیے۔
حق کے سلسلہ میں استقامت:
امام حسین حق کے سلسلہ میں استقامت وپائیداری حامل تھے،آپ نے حق کی خاطراس مشکل راستہ کو طے کیا، باطل کے قلعوں کومسماراور ظلم و جور کو نیست و نابود کر دیا ۔آپ نے تمام مفاہیم میں حق کی بنیاد رکھی ،تیر برستے ہوئے میدان کو سر کیا، تا کہ اسلامی وطن میں حق کا بول بالا ہو، سخت دلی کے موج مارنے والے سمندر سے امت کو نجات دی جائے جس کے اطراف میں باطل قواعد و ضوابط معین کیے گئے تھے ،ظلم کا صفایا ہو، سرکشی کے آشیانہ کی فضا میں باطل کے اڈّے، ظلم کے ٹھکانے اور سرکشی کے آشیانے وجود میں آ گئے تھے، امام نے ان سب سے روگردانی کی ہے ۔
شہادت :
اسلام کے اس مرد مجاہد نے میدان کربلا میں حق و باطل کے مابین لکیر کھینچ کر بروز جمعہ عاشوراکے دن ٦١ھ میں جام شھادت نوش فرمایا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
از قلم :مفتی محمد غضنفر حسین اشرفی مصباحی
استاذ:مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف بنگال
0 Comments