نام ونسب: سید محمد جیلانی
والد: سید محمد محامد اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ ہیں.
نسب نامہ: آپ کا نسب حضرت سید نا عبدالرزاق نور العین علیہ الرحمہ سے ۱۸ ویں پشت اور غوث اعظم سیدنا عبد القادرجیلانی رضی اللہ عنہ سے ۱۲۸ ویں پشت میں ملتا ہے.
ولادت باسعادت:آپ۱۴/جولائی۱۹۴۶ءکو ہندوستان کے روحانی مرکز کچھوچھہ مقدسہ (ضلع،امبیڈکر نگر یوپی) میں پیدا ہوۓ۔
تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت کا چند لمحہ اپنے جدامجد حضور محدث اعظم ہند کے آغوش میں رہ کر گزارا اور عربی اور فارسی کی چند کتابیں پڑھی،پھر اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ۱۹۵۷ء میں ہندوستان کے ایک مشہور و معروف دینی درس گاہ دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں داخلہ لیا. تقریبا / سال تک ماہر اساتذہ سے اکتساب فیض کرنے کے بعد ۱۹۶۴ء میں سند فضیلت سے نوازے گئے. معقولات کی مزید تعلیم کے غرض سے جامعہ عربیہ سلطان پور حاضر ہوے ،۱۹۶۵ء ۔ ۱۹۲۶ء دوسال تک حصول علم میں لگے رہے اور اس فن میں کمال حاصل کیا.
![]() |
نقیب الصوفیاء سید محمد جیلانی اشرفی مصباحی دام ظلہ علینا کی مختصر حالات زندگی |
اساتذہ:
آپ کے چند مشہور اساتذہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی (۲)حضرت علامہ عبد الرؤف المعروف به حافظی علیہ الرحمہ (۳) بحر العلوم مفتی عبد المنان عظمی (۴) سعدی وقت علامہ سید شمس الحق گجہڑوی(۵) اشرف العلماعلامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی۔وغیرہم ۔
بیعت و خلافت:
حضرت علامہ الشاہ جیلانی میاں صاحب کو مخدوم المشائخ سیدنا مختار اشرف سجادہ نشیں سرکارکلاں کچھوچھہ شریف سے بیعت وارادت اور خلافت و اجازت حاصل ہے ۔
دینی و تعلیمی خدمات:
حصول علم سے فراغت کے بعد اشرف العلما سید حامد اشرف کے حکم پر آپ نے سب سے پہلے ۱۹۶۸ء میں بھیونڈی (ممبئی) کے ایک بنجر زمین پر دارالعلوم دیوان شاہ کی بنیادرکھ کر عملی زندگی کا آغاز کیا۔
اس کے علاوہ بھی آپ کی سرپرستی میں ملک و بیرون ملک کے بہت سے دینی ادارے سرگرم عمل ہیں۔جیسے جامعہ صوفیہ ، قادر یہ اشرفیہ پرتگال، دار العلوم قادر یہ اشرفیہ موز مبیق اور دار العلوم اشرفیہ مینائیہ لکھنؤ آپ کا ایک عظیم کارنامہ ”اسپریچول فاؤنڈیشن “ کی بنیاد ہے ، جس کے تحت روحانی تعلیمات اخلاق و تصوف اور احساس کے روح سے پیاسی روحوں کوسیراب کیا جا تا ہے ۔
حضرت علامہ سید محمد جیلانی اشرف کچھوچھوی کی پوری زندگی عمل و پیم اور سعی مسلسل پر محیط ہے، دینی و تعلیمی محاذ ہو کہ صحافی تصنیفی مشغلہ اخلاقی و روحانی میدان ہو کہ رشد و ہدایت کی راہ شیخ طریقت نے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں ۔ دور حاضر میں ابلاغ و ارشاد کے تمام عصری وسائل کے ذریعہ سرمایہ تصوف کے تحفظ و بقا کے لیے آپ نے جس پاکیزہ و مثبت طریقہ پر کام کیا ہے امت مرحومہ کے تئیں ان کی دردمندی اور نوجوان نسل سے ان کی ہمدردی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
تصنیفی و ملی خدمات :
علامہ جیلانی میاں عمدہ خطیب اور ایک بے باک صحافی ہیں ۔ فن تصوف میں ان کی ایک کتاب بنام ”کشف القلوب “جو سات جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد عبادات ، دوسری جلد معاملات، تیسری جلد مہلکات، پانچویں جلد معمولات صوفیہ ، چھٹی جلد تاریخ تصوف اور ساتویں جلد تذکرہ تصوف ۔ علم و تصوف کو مزید فروغ دینے کے لیے آپ نے تحریری کارناموں کے ساتھ ساتھ بہت سے جامعات بھی تعمیر کرائی ،جن میں جامعہ صوفیہ کچھوچھہ سرفہرست ہے ۔اس کے علاوہ بیرونی پانچ ممالک میں جامعہ صوفیہ تعمیر کر چکے ہیں، جن سے علم تصوف کا آج ایک بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے ۔۳۱ مئی ۲۰۱۵ میں اتراکھنڈ کے ummah channel میں آپ کو مد عو کیا گیا وہاں آپ سے سوال کیا گیا کہ”جامعہ صوفیہ کو تعمیر کرنے کا آپ کا کیا مقصد ہے آپ نے اپنی خیالات کا اظہار پرکشش انداز میں پیش کیا، کہتے ہیں کہ آج خانقاہوں میں خانقاہیت نہیں رہی، وہاں درگاہیت کو فروغ دیا جارہا ہے اور صوفیہ کی تعلیم کو لوگوں نے بس چادر ، گاگر ، سندل اور اگر بتی وغیرہ سمجھ بیٹھے ہیں اور عام طور پر خانقاہ والے اس میں الجھ کے رہ جاتے ہیں۔ یک میر ایک بارگی اس چیز کوروک تھام کرنا یہ اچھی بات نہیں تھی ، لہذا میرے پاس ان کے لیے بس ایک ہی آپشن تھا کہ ان خانقاہوں کے بچوں کو لاکر٧سے ٩ سال ان کو دینی تعلیم دے دی جاے ۔ اس غرض سے میں نے جامعہ صوفیہ کا قیام عمل میں لایا اور میری کوشش یہ رہی کہ شریعت کے تعلیم کے ساتھ ساتھ طریقت کی بھی تعلیم دی جائے ۔ “
![]() |
جامعہ صوفیہ، یہ ادارہ کچھوچھہ شریف میں بارگاہ مخدوم سمناں کے قریب واقع ہے |
اس کے علاوہ آپ کی جو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:(۱) عزیمت حج (۲) نماز اور حضوری قلب (۳) روحانی شب و روز (۴) سفرنامه ایران (۵) کسب و تجارت (۶) آداب طعام (۷) فضائل عیدین(۸) فضیلت علم وغیرہ۔(۳)
اللہ تعالیٰ اس مقدس ہستی کو یونہی شاد و اباد رکھے
0 Comments