تعزیہ داری کا حکم، مروجہ تعزیہ داری کا حکم قرآن و احادیث کی روشنی میں

محرم الحرام،اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہونے کے ساتھ،ایک محترم اور بر کت والا مہینہ بھی ہے۔قرآن مجید میں اسے حرمت والے مہینوں میں شمار کیا گیا ہے یعنی اس ماہ میں قتل وقتال لوٹ مار سے منع فرمایا،اور اس کےادب و احترام کا تاکیدی حکم دیا گیاہے۔اسی ماہ کے دسویں تاریخ کو یزیدی لشکروں نے نواسہ رسول سید الشہداء امام حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کربلائے معلیٰ میں ظلما شھید کردیا تھا۔ جو کہ بلاشبہ تاریخ کا ایک الم انگیز واقعہ ہے۔ بعض لوگ اسی کو بنیاد بنا کرمحرم الحرام کے مہینے میں طرح طرح کے خرافات کو وجود بخشتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک، تعزیہ داری بھی ہے۔

تعزیہ داری کیا ہے:

تعزیہ داری اسم کیفیت ہے،جس کامعنی تعزیہ بنانا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک، محرم الحرام میں روضہ امام حسین کانقشہ بناکر یا بنواکر شہر اور گاؤں دیہات کے گلیوں میں، گشت کرانا ،تعزیہ داری کہلاتا ہے۔

تعزیہ داری کی ابتدا:

تعزیہ بنا نے کی ابتدا سلطان تیمورلنگ(1337ء—1404ء) کے زمانے سے ہوئی۔ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بہت بڑا معتقد اور چاہنے والا تھا۔ وہ ہر سال بقصد زیارت و حاضری کربلائے معلی کا سفر کیاکرتا تھا۔ یہ سفر تین ،چار ماہ کا ہوتا تھا۔ جو ایک سلطان کے لیے کافی دشوارتھا ۔ ایک تو سفر کی صعو بتیں ،دوسرا سلطنت کی ذمہ داریاں۔ اسی لیے سلطان نے بعض وزیروں کے مشورے پرامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ کا نقشہ بنوایاتھا،اورہر سال محرم کےموقعے پر اس کی زیارت کیا کرتاتھا۔(رسالہ تعزیہ داری،ص:11)

تعزیہ داری کا حکم، مروجہ تعزیہ داری کا حکم قرآن و احادیث کی روشنی میں
تعزیہ داری کا حکم، مروجہ تعزیہ داری کا حکم قرآن و احادیث کی روشنی میں


تعزیہ داری جائز یا ناجائز:

تعزیہ اگر محض روضہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صیحیح نقشہ پر مشتمل ہو اور اس میں کسی قسم کے خرافات کی آمیزش نہ ہو اور بطور تبرک رکھاجائے۔تو شرعاً کوئی خرابی نہیں ۔کہ: یہ ایک غیر جاندار کا نقشہ ہو گا۔اور غیر جاندار کا نقشہ رکھنے میں شرع کوئی ممانعت نہیں ہے۔جیسےحرمین شریفین کے روضہ کا نقشہ بقصد تبرک رکھا جاتا ہے ۔مگر آج جو تعزیہ داری جاری ہے۔یہ ناجائزوحرام ہے۔کہ:اس میں صدہا خرافات کی آمیزش ہوگئ ہے۔ جیساکہ سرکار سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان تحریر فرماتے ہیں:

"کہ تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضہ امام حسین کی صحیح نقل بناکر بنیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں کوئی خرابی نہ تھی جہاں پہ خرد نے اس اصل جائزکو نیست ونابود کرکےصدہا خرافات تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آنے لگیں اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ہر جگہ نئی تراش کہیں علاقانہ نسبت وغیرہ پھرکوچہ بکوچہ گلی بگلی اشاعت غم کےلئے پھرانا ان کے گرد ماتم زنی کرنا اس سے منتیں مانگنا اس پہ کوئی چیز چڑھانا اور راتوں میں ڈھول باجے کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کود کرنا وغیرہ وغیرہ اب جبکہ مروجہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت ناجائز وحرام ہے"(بحوالہ فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۵۱۳)

اب اس طرح کا بھی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ کا نقشہ رکھنے میں بھی بدعتیوں سے ایک طرح کی مشابہت ہے۔ جس کی بنیاد پر اس وقت اس کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ ہاں اگر بقصد تبرک رکھناہی ہے۔ تو ایک کاغذ پرامام حسین کے روضہ کا صحیح نقشہ بناکر یا بنوا کر رکھا جائے جیساکہ حرمین طیبین کانقشہ رکھا جاتا ہے۔امام اہل سنت سرکار سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے تحریر فرماتے ہیں "مگراب ایسی نقل میں بھی اہل بدعت سے ایک کونہ مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد کے لیے ابتلاء بدعات کا اندیشہ ہے۔اور حدیث پاک میں آیا ہے "اتقوا مواضع التهم" اور دوسری جگہ وارد ہے"من کان يؤمن بالله واليوم الآخرة فلا يقف موقف التهم" لہذا روضہ اقدس حضورسید الشہداء کی ایسی تصویر نہ بناے بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بقصد تبرک بےآمیزش منہیات اپنے پاس رکھے۔ جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضہ عالیہ کے نقشے آتے ہیں" ۔(فتاویٰ رضویہ ،ج:9،ص:36، نصف اول).

محرم الحرام سید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہونےکے ساتھ ایک محترم اور مکرم مہینہ بھی ہے۔لہذا اس ماہ میں خرافات کے ارتکاب سے اجتناب کریں۔اور کوشش یہ کریں کہ اس کے اکثر حصے فرائض کے ساتھ نوافل میں بھی صرف ہوں، ساتھ ہی کثرت صدقات و خیرات میں بھی حصہ لیں۔اوران کارخیر کےثواب کو شھداء کربلا کی بارگاہ میں پیش کریں۔

ازقلم : مفتی محمد غضنفر حسین اشرفی مصباحی

استاذ : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال

Post a Comment

1 Comments

Unknown said…
اس کتاب کی pdf کی ضرورت ہے