سوال: زکوۃ اورصدقہ فطر کے نصاب میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟اور اگر ہے توکیا ہے؟بینوا وتوجروا
المستفتی:محمد سلمان،کلیاچک،مالدہ
الجواب:بعون الملک المعبود الوھاب۔اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
زکوۃ اوصدقہ فطردونوں کا نصاب تو ایک ہی ہے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کا مالک ہونا اورملکیت نصاب کا حوائج اصلیہ سے زائد ہونا۔
دونوں کے نصاب میں فرق حسب ذیل ہے۔
(۱)وجوب زکوۃ کے لیے صاحب نصاب کا عاقل و بالغ ہو نا ضروری ہے لیکن صدقہ فطر میں ایسا نہیں۔ لہذا مجنون اور نابالغ کے اولیاء پر ضروری ہے کہ ان مال سے ان کا صدقہ فطرنکالیں۔ اگرایسا نہیں کرتے توبعد افاقہ جنون یابعدبلوغ ان دونوں کو صدقہ فطرنکالنا ہوگا۔
(۲)ادائیگئی زکوۃ کے لیے مال نصاب پرپورا سال کا گزرنا ضروری ہے اور مال کا نامی (بڑھنے والا) ہونا ضروری ہے جبکہ صدقہ فطرکے لیے نہ سال کا گزرنا ضروری ہے اور نہ ہی مال کا نامی ہونا ضروری ہے۔
(۳)وجوب زکوۃ کے بعد اگرمال نصاب ہلاک ہوجائے توزکوۃ ساقط ہوجاتی ہے۔اورصدقہ فطربعدِ ہلاکت بھی ذمہ سے ساقط نہیں ہوتی۔
(۴)اگرکسی کے پاس ایسی زمین اور جائداد ہو جواس کی رہائش وغیرہ سے فاضل ہو اوراس کی قیمت مقدار نصاب کو پہنچتی ہواوروہ زمین و جائداد بنیت تجارت نہ ہوتو اس پرزکوۃ نہیں۔ مگرصدقہ فطرواجب ہے۔
حوالہ جات:
تنویر الابصار مع درالمختار،جلد۲، بیان زکوۃ میں ہے: شرط افتراضھا عقل و بلوغ و اسلام۔
اورالدرالمختارمع الشامی،جلد۲،ص۹۷، باب صدقہ فطر:تجب علی کل مسلم ولو صغیرا مجنونا حتی لو لم یخرج ولیھما وجب الاداء بعد البلوغ و بعد الافاقۃ فی المجنون۔
اورشرح وقایہ،جلد۱،ص ۲۴۰باب صدقہ فطر: تجب علی حرمسلم لہ نصاب الزکوۃ وان لم ینم، و قد ذکرنا فی اول کتاب الزکوۃ النماؤ مع الثمنیۃ او السوم او نیت التجارۃ فمن کان لہ نصاب الزکوۃ ای نصاب فاضل عن حاجتہ الاصلیۃ فان کان من احد الثمین او السوائم او مال التجارۃ تجب علیہ الصدقۃ وان لم یحل علیہ الحول و ان کان من غیر ھذہ الاموال کدار لایکون للسکنۃ و لا للتجارۃ و قیمتھا تبلغ النصاب تجب بھا صدقۃ الفطر مع انہ لا تجب بھا الزکوۃ۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
از قلم: محمد اسیرالدین اشرفی علائی
متعلم ؛ شعبہ تحقیق مخدوم اشرف مشن،پنڈوہ شریف، مالدہ، بنگال۔
الجواب صحیح والمجیب مصیب
مفتی محمد لقمان اشرفیؔ عفی عنہ
صدر شعبہ الافتاء مخدوم اشرف مشن،پنڈوہ شریف، مالدہ، بنگال۔
0 Comments