پاپیادہ سفر حج قرآن و سنت اور عمل اسلاف کے آئینے میں, شہاب چتور کون ہے اور اس کا پیدل حج پر جانا کیسا ہے

اس عہد پرفتن میں ہم  قوم مسلم کا  سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم خود تو کار خیر سے کوسوں دور ہیں ہی لیکن کوئی اگر کسی نیکی میں پہل کرتا ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنانا ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ کسی کے عمل میں خلوص و للہیت ایک قلبی اور اندرونی چیز ہے،جس سے آگاہی فقط اس کے بتانے سے ہی ممکن ہے ۔اور بلاشبہ بد گمانی کی حرمت منصوص علیہ ہے۔اس کے باوجود ہمارے کچھ بھائی دوسروں پر ریا و سمعہ حکم لگانے میں ذرا بھی دریغ محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اللہ ہماری قوم کو ہدایت عطا فرمائے۔

آج کل سوشل میڈیا پر یہ خوب وائرل ہو رہا ہے کہ کیرلا کا ایک  شہاب نامی نوجوان سفر حج پر پیدل ہی نکل چکا ہے۔کچھ لوگ اس کے اس عمل کو سراہ رہے ہیں اور اس کے لیے دعا کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ ہمیشہ کی طرح طعن و تشنیع کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

یہ بے مایہ سمجھتا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں وسائل کی دستیابی کے باوجود بھی اگر کوئی خالص خوشنودئ ربانی کی نیت سے پیدل حج کے ارادے سے نکلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔خود قرآن و احادیث اس کے جواز  بلکہ فضیلت پر وارد ہیں اور بہت سے صالحین کا پا پیادہ حج کرنا ثابت ہے۔

قرآن:

ارشاد باری تعالی ہے"و أذن فی الناس بالحج یأتوک رجالا و علی کل ضامر یأتین من کل فج عمیق"(سورۃ الحج، آیت:27)

ترجمہ:اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پر(سوار ہو کر) آئیں گے جو ہر دور کی راہ سے آتی ہیں(خزائن العرفان)

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ نے فرمایا کہ اب لوگوں کو میرے گھر میں حج کے لیے آنے کی دعوت دو، چاہے وہ پیدل أئیں یا اونٹنیوں پر سوار ہو کر۔(تفسیر صراط الجنان بحوالۂ مدارک، سورۃ الحج، آیت:27)

اس آیت میں پیدل حج کے لیے جانے والوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پیدل حج کے لیے جانا بڑی فضیلت کا باعث ہے۔

پاپیادہ سفر حج قرآن و سنت اور عمل اسلاف کے آئینے میں, شہاب چتور کون ہے اور اس کا پیدل حج پر جانا کیسا ہے
پاپیادہ سفر حج قرآن و سنت اور عمل اسلاف کے آئینے میں, شہاب چتور کون ہے اور اس کا پیدل حج پر جانا کیسا ہے


احادیث مقدسہ:

حضرات محدثین نے اپنی کتابوں میں کثیر ایسی احادیث تخریج فرمائی ہیں جن میں نہ صرف پیدل حج کے لیے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی  گئی ہے بلکہ اسے زیادتئ اجر کا موجب بتایا گیا ہے۔ کچھ احادیث ذیل میں زینت قرطاس کی جاتی ہیں۔

(1) مستدرک میں ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہوئے تو اپنی اولاد امجاد کو بلا کر فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا"من حج من مکۃ ماشیا حتی یرجع الی مکۃ کتب اللہ لہ بکل خطوۃ سبع مائۃ حسنۃ، کل حسنۃ مثل حسنات الحرم، قیل و ما حسنات الحرم؟ قال: بکل حسنۃ مائۃ الف حسنۃ

ترجمہ:جو مکہ سے پیدل حج کے لیے جائے یہاں تک کہ مکہ لوٹ آئے تو اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں، جن میں سے ہر نیکی حرم کی نیکیوں کے مثل ہے۔ عرض کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا کہ ہر نیک ایک لاکھ نیکی کے برابر۔

اس حدیث کے بعد امام حاکم لکھتے ہیں"ھذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاہ۔(المستدرک، کتاب المناسک، جلد اول، ص:632)

(2)کنزل العمال میں ہے"ان للحاج الراکب بکل خطوۃ تخطوھا راحلتہ سبعین حسنۃ و للماشی بکل خطوۃ یخطوھا سبع مائۃ حسنۃ (کنز العمال، کتاب الحج و العمرۃ، الفصل الاول فی فضائل الحج، الجزء الخامس، ص:5)

ترجمہ:سواری پر حج کے لیے جانے والے کے لیے جانور کے ہر قدم پر ستر نیکیاں ہیں جبکہ پیدل جانے والے کے لیے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں۔

(3) اسی میں ہے"لا یرفع الحاج قدما و لا یضع أخری الا حط اللہ عنہ بھا خطیئۃ و رفع لہ درجۃ و کتب لہ حسنۃ"(ایضا، ص:14)

ترجمہ: حاجی ایک قدم اٹھا کر ابھی دوسرا قدم نہیں رکھتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کا ایک گناہ معاف کر دیتا ہے، اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور اور اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے۔

اب کتنا بڑا گناہ معاف کیا جاتا ہے اور کتنی بڑی نیکی لکھی جاتی ہے،یہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے غیب داں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی جانتے ہیں۔

(4) کنز العمال ہی میں ہے"الحاج الراکب لہ بکل خف یضعہ بعیرہ حسنۃ و الماشی لہ بکل خطوۃ یخطوھا سبعون حسنۃ من حسنات الحرم (ایضا، ص:25)

ترجمہ: سواری پر حج کو جانے والے کے لیے اونٹ کے ہر قدم پر ایک نیکی ہے اور پیدل جانے والے کے لیے ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے ستر نیکیاں ہیں۔

(5) اسی میں ہے "للماشی أجر سبعین حجۃ و لمن یرکب أجر حجۃ" (ایضا، ص:26)

ترجمہ:پیدل جانے والے کے لیے ستر حجوں کا اجر ہے جبکہ سوار کے لیے ایک حج کا ثواب ہے۔

(6) أن الملئکۃ لتصافح رکاب الحجاج و تعتنق المشاۃ (ایضا، ص:5)

ترجمہ: بیشک فرشتے سوار حاجیوں سے مصافحہ کرتے ہیں اور پا پیادہ حاجیوں سے معانقہ کرتے ہیں۔

(7) بلکہ خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کی معیت میں پا پیادہ حج کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں"حج النبی صلی اللہ علیہ و سلم و أصحابہ مشاۃ من المدینۃ الی مکۃ"(المستدرک، کتاب المناسک، جلد اول، ص:610)

(8) حضرت عبد اللہ بن عبید بن عمیر کا بیان ہے کہ حضرت سید المفسرین عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا "ما ندمت علی شیئ فاتنی فی شبابی الا أنی لم أحج ماشیا" (السنن الکبری، کتاب الحج، الجزء الرابع، ص:542، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

ترجمہ:جوانی میں فوت ہونے والی چیزوں میں صرف میں اس بات پر نادم ہوں کہ میں پیدل حج کو نہ جا سکا۔


پیدل سفر حج کرنے والے سلف کرام:

ہمارے بزرگان دین و سلف صالحین میں سے کثیر حضرات نے پا پیادہ سفر حج کیا ہے،جن کا تذکرہ سیرت اور حدیث کی کتابوں میں جابجا آیا ہے۔ انھیں میں سے مندرجہ ذیل حضرات بھی ہیں۔

(1)حضرت آدم علیہ السلام: آپ نے ہندوستان سے مکہ پیدل سفر کر کے چالیس حج کیے (کتاب الطبقات الکبیر، جلد اول، ص:18)

(2،3) حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے بھی پا پیادہ حج کیا (السنن الکبری، کتاب الحج، الجزء الرابع، ص:542)

(4)حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے پیدل سفر کر کے پچیس حج ادا کیے جبکہ آپ کے پاس عمدہ قسم کے سواری کے جانور موجود تھے۔(حوالۂ سابق)

(5)حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم نے بھی پیدل سفر حج کیا، اس طرح کہ ہر قدم پر دوگانہ نفل پڑھتے جاتے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچنے میں چودہ سال لگ گئے۔(مرآۃ الاسرار، طبقۂ سادسہ، ص:288،مترجم)

(6) اسی طرح حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ  نے بھی پا پیادہ سفر حج کیا۔آپ چند قدم چلتے اور نماز ادا کرتے اور کہتے کہ کعبہ سلاطین دنیا کی بارگاہ نہیں ہے جہاں یکبارگی اٹھ کر آدمی چلا جائے۔اس طرح بارہ برس میں آپ مکہ مکرمہ پہنچے۔حج ادا کیے اور مدینہ منورہ نہ گئے اور فرمایا کہ یہ امر نامناسب ہے کہ حج کے طفیل مدینہ منورہ جاؤں، میں دوبارہ خاص مدینہ کی زیارت کو حاضر ہوں گا اور اپنے شہر واپس چلے آئے۔(انوار الاتقیاء، جلد اول، ص:160)

تصریحات فقہا:

احادیث کریمہ میں وارد فضائل اور بزرگان دین کی اس پر عملدر آمدگی کے سبب ہمارے فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر کوئی قادر ہو تو پا پیادہ حج کا سفر کرنا افضل ہے۔

رد المحتار میں ہے "و لأنہ أشق علی البدن فکان أفضل" (رد المحتار ، جلد سوم، کتاب الحج، مطلب فیمن حج بمال حرام، ص:527)

ترجمہ:اور چونکہ پیدل حج کو جانا جسم پر زیادہ مشقت و آزمائش کا باعث ہے لہذا وہ افضل ہے۔

بہار شریعت میں ہے"پیدل کی طاقت ہو تو پیدل حج کرنا افضل ہے۔ حدیث میں ہے:"جو پیدل حج کرے اس کے لیے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں ۔(بہار شریعت، جلد سوم، حج کا بیان ، ص:1042)

پھر اگر کوئی یہ کہے کہ اس دور میں جب سفر کی گوناگوں سہولیات موجود ہیں تو پھر پیدل سفر کرنے کا کیا حاصل؟تو عریضہ ہے کہ امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ سے متعلق گزرا کہ عمدہ قسم کی سواریاں رہتے ہوئے بھی آپ نے پچیس مرتبہ پیدل حج کیا، تو اس اعتبار سے  سہولیتیں تو انھیں بھی حاصل تھیں۔اس کے باوجود آپ نے پا پیادہ حج کیا، لہذا امام کا یہ عمل اس بات کی صریح دلیل ہے کہ سواریوں کی فراوانی کے باوجود اگر کوئی پیدل سفر حج کرے اور اس پر قادر بھی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ جس عمل میں جتنی تکالیف کا سامنا ہوگا اس کا اجر اتنا ہی بڑا ہوگا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس میں تواضع و انکساری زیادہ ہے۔

علامہ شامی لکھتے ہیں"فلا شک أن المشی أفضل فی نفسہ لأنہ أقرب الی التواضع و التذلل"(رد المحتار، حوالۂ سابق)

حاصل کلام یہ ہے کہ پیدل حج کی قدرت ہو تو پیدل حج کے لیے جانا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے جبکہ اس سے نام و نمود مقصود نہ ہو۔ و اللہ اعلم


از محمد سرور عالم اشرفی، اتر دیناج پور

متعلم:جامعہ اشرفیہ، مبارکپور

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

Post a Comment

0 Comments