اسم گرامی: محمد.
لقب: محدث اعظم ہند ۔
والد ماجد: حکیم الاسلام مولانا سید نذر اشرف جائسی ۔
ولادت:
آپ کی ولادت مبار که شب ۱۵/ ذی قعدہ ۱۳۱۱ھ/۱۸۹۵ء کو حضرت مولانا سید علی حسنین اشرفی جیلانی جائسی ماموں حضرت سید نذر اشرف کے دولت کدہ پر ہوئی ۔ والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ انھوں نے خواب دیکھا کہ کوئی بزرگ ان کے ہاتھ میں قرآن و حدیث دے کر مبارک باد دیتے ہیں ، ان کی آنکھ کھل گئی اور اسی وقت درد زہ شروع ہوا، لیکن معمولی تکلیف محسوس ہوئی اور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
جب آپ کی عمر مبارک چار سال ، چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو خاندانی معمول کے مطابق آپ کے جد امجد حضرت مولانا سید فضل حسین اشرفی جیلانی نے فاتحہ خوانی کی اور ۱۹/ ربیع الاول ۱۳۱۵ھ کو بسم اللہ خوانی کرائی ۔ ابتدائی تعلیم آپ نے والدین کریمین سے حاصل کی پھر تمام دینیات کی تکمیل کے لیے بر صغیر کے سب سے مشہور ادارہ مدرسہ نظامیہ فرنگی محل لکھنو کا قصد کیا۔ لکھنو کے بعد آپ علی گڑھ تشریف لے گئے پھر محدث وصی احمد قدس سرہ کی بارگاہ میں پیلی بھیت آکر صحاح ستہ وغیرہ کتابیں پڑھیں ، اس کے بعد ماموں سید احمد اشرف کے مشورہ سے بریلی شریف اعلی حضرت کی خدمت میں پہنچے ، اعلی حضرت کی تربیت نے آپ کو کندن بنادیا، دو سال اعلی حضرت کی خدمت میں رہ کر آپ نے فقہ وفتاوی نویسی میں کامل مہارت حاصل کر لی اور عالم میں محدث اعظم ہند کے لقب سے مشہور ہوۓ ۔
![]() |
محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ: مختصر حیات و خدمات |
اساتذہ کرام:
(۱) سیده محمدی خاتون ”والدہ ماجدہ (۲) علامہ سید نذر اشرف اشرفی ”والد گرامی (۳) مجدد اعظم امام احمد رضا قادری بریلوی (۴) استاذ العلما مفتی لطف اللہ علی گڑھی (۵) علامہ عبدالباری فرنگی محلی (۲) محدث جلیل وصی احمد محدث سورتی (۷) علامہ عبدالمقتدر بدایونی (۸) علامہ سید احمد اشرف کچھوچھوی ”ماموں جان “۔
تصنیف و تالیف:
آپ کی متعدد تصانیف ہیں ، جن کی کی ایک مختصر فہرست بطور نمونہ پیش ہے: ۱) معارف القرآن () تفسیر قرآن پاک (۳) اتمام حجت (۴) حیات غوث العالم (۵) مرقومات بے مثال (۲) تحقیق التقلید (۷) روداد مناظرہ کچھوچھ (۸) شیخ العالم (۹) عید معراج (۱۰) سلطان المشائخ (۱۱ ) وصايا شریف امام اعظم (۱۲) کتاب الصلاۃ ( ۱۳ ) فتاوی اشرفیہ (۱۴) جزیره العرب و آریہ ناریہ (۱۵) سیرۃ الخلفا (۱۶) معظم الابواب (۱۷) پیران پیر (۱۸) منافقین اسلام کا آغاز وارتقا(۱۹) حقا کہ بناے لا الہ است حسین (۲۰) بصارۃ العین وغیرہ۔(۱)
تدریسی خدمات:
تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے ، ایک مدرسہ بنام مدرسۃ الحدیث قائم فرمایا درباره سال تک علم حدیث وغیرہ کی تعلیم دی پھر کچھوچھہ جامعہ اشرفیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوۓ۔ آپ کے نامور تلاند وکی ایک طویل فہرست ہے جو سارے ملک میں پھیل کر علوم اسلامیہ کی خدمات انجام دیتے رہے۔
بیعت و خلافت :
حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنے نانا جان اعلی حضرت حضور اشرفی میاں قدس سرہ کی ایما پر اپنے ماموں مولاناسید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کے دست حق پرست پر بیعت کی ، آپ تیرہ سال تک راہ سلوک طے کرتے رہے اور ریاضات و مجاہدات سے عرفان الہی کی منزل حاصل کرتے رہے ، آپ کے ماموں جان آپ پر علمی اور روحانی فیضان کے دروازے کھول رہے تھے ، چناں چہ آپ نے علمی اور روحانی خزانوں سے خود کو خوب مالا مال کیا یہاں تک کہ مدینہ طیبہ میں مواجہ شریف میں ۱٣٤٠ھ/۱۹۲۲ء کو تمام سلاسل کی خلافت سے سرفراز کیے گئے ۔ اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت احمد رضاخاں فاضل بریلوی نے بھی آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا تھا۔
محدث اعظم ہند اور الجامعۃ الاشرفیہ:
آپ کا الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارک پور سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔چناں چہ۱۳۵۵ھ میں شیخ المشائخ حضرت سید علی حسین اشرفی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد دارالعلوم اشرفیہ کے سرپرست منتخب ہوۓ اور ۱۳۸۱ھ تک تقریبا ۲۶ سال اس منصب پر فائز رہے ۔ حضرت محدث اعظم ہند صرف نام کے سرپرست نہ تھے بلکہ دارالعلوم اشرفیہ کی ہر مشکل وقت میں مشکل کشائی فرماتے اور ضرورت پڑنے پر اپنے اسفار ترک فرما کر مبارک پور تشریف لاتے اور منتظمین کی میٹنگ طلب فرماکر تدبیر و حکمت سے ہر گتھی کو سلجھاتے ۔
آپ دارالعلوم اشرفیہ ، مبارک پور میں باضابطہ ممتحن کی حیثیت سے بھی تشریف لاتے۔تلمیذ حافظ ملت مولانا محبوب اشرفی کا بیان ہے کہ سر کار محدث اعظم ہند قدس سرہ کو درس و تدریس کا کام چھوڑے ہوۓ چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ، مگر جب دار العلوم اشرفیہ ، مبارک پور یا دوسرے مدارس کے طلبہ کا امتحان لیتے تو معلوم ہوتا کہ مسند تدریس کے بادشاہ ہیں ، معقولات کی وہ کتابیں جو اس وقت دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کے علاوہ چند ہی مدارس میں داخل نصاب تھیں ، امتحان لینے کے لیے جب حضرت محدث اعظم کے سامنے آئیں تو معلوم ہوتا کہ سارے علوم وفنون حضرت کے لیے مسخر ہیں۔
حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ دارالعلوم اشرفیہ کی تعلیم اور نظام تربیت سے کافی متاثر اور مطمئن تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دو صاحب زادگان شیخ الاسلام حضرت سید مدنی میاں اور غازی ملت حضرت سید محمد ہاشمی میاں کو حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کی خدمت میں مبارک پور بھیجا۔ حضرت مدنی میاں نے اعداد یہ تا دورہ حدیث کی مکمل تعلیم اشرفیہ سے ہی مکمل فرمائی۔
امام احمد رضا سے تعلقات :
محدث اعظم ہند نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی ۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولاناشاہ عبدالمقتدر بدایونی سے بھی اکتساب فیض کیا ، علم حدیث میں مولانا وصی احمد محدث سورتی اور فقہ وافتا میں اعلی حضرت کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا، آپ محدث سورتی کی زبانی اعلی حضرت کے تذکرے سن رکھے تھے جو آپ کے دل میں گھر کر گئے۔
محدث اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"میرے استاذ ، فن حدیث کے امام کو بیعت حضرت مولا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی سے تھی مگر حضرت کی زبان پر پیر ومرشد کا ذکر میرے سامنے بھی نہ آیا اور اعلی حضرت کے تذکرے بکثرت محویت کے ساتھ فرماتے تھے ۔ اس وقت تک بریلی حاضر نہ ہوا تھا۔ اس انداز تذکرہ کو دیکھ کر میں نے ایک دن عرض کیا کہ آپ سے آپ کے پیرومرشد کا تذکرہ نہیں سنتا اور اعلی حضرت کا آپ خطبہ پڑھتے رہتے ہیں ۔ فرمایا کہ جب میں نے پیر ومرشد سے بیعت کی تھی بایں معنی مسلمان تھا کہ میر اسارا خاندان مسلمان کا خاندان سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب میں اعلی حضرت سے ملنے لگا تو مجھ کو ایمان کی حلاوت مل گئی ۔ اب میرا ایمان رسمی نہیں بلکہ بعونہ تعالی حقیقی ہے ۔ جس نے ایمان حقیقی بخشا اس کی یاد سے اپنے دل کو تسکین دیتار ہتا ہوں۔
حضرت محدث سورتی حافظ بخاری تھے ۔ علم حدیث میں بڑی دسترس تھی ۔ محدث اعظم ہند نے آپ سے اعلیٰ حضرت کے محدثانہ مقام کے تعلق سے دریافت کیا تو جو جواب آپ نے ارشاد فرمایا اس نے محدث اعظم ہند کے دل میں اعلی حضرت کی محبت کی ایک آگ بھڑکادی اور بریلی جانے کے لیے بے قرار ہوگئے ۔ اس حال کا تذکرہ کرتے ہوۓ محدث اعظم ہند رقم طراز ہیں:
میں نے عرض کیا کہ علم الحدیث میں کیا وہ (اعلی حضرت ) آپ کے برابر ہیں ؟فرمایا ہرگز نہیں ۔ پھر فرمایا: شہزادے صاحب! آپ کچھ سمجھے کہ ہرگز نہیں کا کیا مطلب ہے ؟ سنیے کہ اعلی حضرت اس فن میں امیر المومنین فی الحدیث ہیں کہ میں سالہا سال صرف اس فن میں تلمذ کروں تو بھی ان کا پاے سنگ نہ ٹہروں ۔ حضرت محدث صاحب قبلہ کے اسی قسم کے ارشادات نے میرے دل کو بریلی کی طرف کھینچا اور بالآخر آنکھوں نے دیکھ لیا کہ اعلی حضرت کیا ہیں ۔
امام احمد رضا قدس سرہ کے تدریسی احوال اور طرز تربیت کو سرمایہ افتخار قرار دیتے اور ان لمحوں کو متاع حیات گردانتے ہیں۔ محدث اعظم ہند کے کلمات ملاحظہ فرمائیں اور امام احمد رضا سے آپ کے اٹوٹ تعلق کا اندازہ لگائیں:
”جب تکمیل درس نظامی و تکمیل درس حدیث کے بعد میرے مربیوں نے کار انتہا کے لیے اعلی حضرت کے حوالےکیا۔ زندگی کی یہی گھڑیاں میرے لیے سرمایہ حیات ہوگئیں اور میں محسوس کرنے لگا کہ آج تک جو کچھ پڑھا تھا وہ کچھ نہ تھا اور اب ایک دریاے علم کے ساحل کو پالیاہے۔ علم کو راسخ فرمانا اور ایمان کو رگ وپے میں اتار دینا اور صحیح علم دے کر نفس کا تزکیہ فرمادیتا، یہ وہ کرامت تھی جو ہر منٹ پر صادر ہوتی رہتی تھی ۔
محدث اعظم ہند اپنے اکثر خطبوں میں اعلی حضرت کا ذکر بڑے ہی دل پذیر انداز میں فرماتے۔ آپ کے خطبات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔اعلی حضرت کی مومنانہ و فقیہانہ شان، مجددانہ شخصیت ، فرق باطلہ کی تردید میں سعی و کاوش، احقاق حق میں نمایاں کردار اور وسیع فہم وفراست پر محدث اعظم اپنے ایک خطبہ صدارت میں اظہار خیال فرماتے ہیں:
یہاں تک کہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ نے ایک ایسی بلند ترین شخصیت سے امت اسلامیہ کو نوازا جس کو عرب و عجم نے اپنا امام مانا۔ جن کو ارباب بصیرت نے مجدد ماۃ حاضرہ کہا اور جن کی نگاہ فراست نے ایک ایک عیار و غدار کو پہچان لیا، فریب کے لبادوں کو اتار کر عیاری کو برہنہ کر دیا۔ ان کی فقاہت، ان کی درایت ، ان کے مطالعے کی کثرت ، ان کا رسول پاک ﷺ سے والہانہ عشق و محبت ، دشمنوں پر ان کے نیزے کی مار ، باطل کی گردن پر ان کی باطل شکن تلوار ، یہ ہے وہ چیزیں جن کی اسلامی دنیا میں دھوم مچ گئی ۔
وہابیت کی بیخ کنی:
ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان انتشار و افتراق پھیلانے میں مولوی اسماعیل دہلوی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اس نے تقویۃ الایمان“ نامی ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اہل سنت کے مسلم عقائد و معمولات سے انحراف کیا اور توحید کی آڑ میں اس نے امت مسلمہ پر شرک کا بہتان عظیم باندھا۔ اسے انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی اس وجہ سے جنگ آزادی میں متحرک کردار اداکرنے والے علما انگریزوں کے مقابل تھے اور عقائد میں اسماعیل دہلوی کے خلاف تھے ۔ چناں چہ علماے حق نے اس کے گمراہ کن عقائد کا شدید رد کیا اور علمی و تحقیقی کتابیں مرتب فرمائیں ۔ اعلی حضرت کے نمایاں کردار پر روشنی ڈالتے ہوۓ تحریر فرماتے ہیں: اس (مولوی اسماعیل دہلوی ) نے بد دینی و بد مذہبی یعنی توہب کی اشاعت شروع کی ۔ ابن عبدالوہاب کے عقائد کے علاوہ اس نے اور بھی خباثتیں ایجاد کیں ۔ قدم قدم پر شرک و بدعت کا ڈھیر لگا دیا۔ اس کو اپنی شقاوت کے اعلان میں (انگریز) حکومت وسیف کی بے خوفی نے بڑی مدد دی لیکن علماے عصر اور فضلاے دہر نے عمدہ طریقے سے بذریعہ سیف قلم اس کے مضامین کی گردن زدنی فرمائی ۔ علماے اہل سنت میں حضرت مولانا سیف الله المسلول مولوی فضل رسول صاحب بدایونی ، ارسطوے زماں ، افلاطون دوراں، فاصل بین الحق والباطل مولانا فضل حق صاحب خیر آبادی اور اعلی حضرت عظیم البرکت، مجد دماۃ حاضرہ ، موید ملت طاہرہ ، حامی سنت ، مالی بدعت ، علامہ دوراں ، فاضل زماں جناب مولانا احمد رضاخاں صاحب خصوصیت رکھتے ہیں۔
حیرت انگیز قوت حافظہ:
یہ چیز روز پیش آتی تھی کہ تکمیل جواب کے لیے جزئیات فقہ کی تلاش میں جولوگ تھک جاتے تو عرض کرتے ، اس وقت فرما دیتے کہ ردالمحتار جلد فلاں کے صفحہ فلاں کے سطر فلاں میں ان لفظوں کے ساتھ جزئیہ موجود ہے ۔ ”در مختار “ کے فلاں صفحہ فلاں سطر میں یہ عبارت ہے ۔ ”عالم گیری “ میں بقید جلد و صفحہ و سطر یہ الفاظ موجود ہیں ۔ ہندیہ میں ، خیر یہ میں ، مبسوط میں ، ایک ایک کتاب فقہ کی اصل عبارت بقید صفحہ و سطر یہ الفاظ موجود ہیں،ارشاد فرمادیتے ۔اب جو کتابوں میں جاکر دیکھتے تو صفحہ و سطر و عبارت وہیں پاتے جو زبان اعلی حضرت نے فرمایا تھا اس کو آپ زیادہ سے زیادہ سہی کہ سکتے ہیں کہ خداداد قوت حافظہ سے ساڑھے چودہ سویرس کی کتابیں حفظ تھیں ۔ “ علم قرآن : علم قرآن کا اندازہ اگر صرف اعلی حضرت کے اس اردو ترجمے (کنز الایمان ) سے کیجیے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی زبان میں اور نہ اردو میں ۔ اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دو سرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جاسکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں (روح) قرآن ہے۔
اس ترجمہ کی شرح حضرت صدرالافاضل استاذالعلما مولانا نعیم الدین علیہ الرحمہ نے حاشیہ پر لکھی ہے ۔ وہ فرماتے تھے کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ اعلی حضرت کے استعمال کر وہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گزرےاور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا۔ اعلی حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمہ کو پاتے تو فرما دیتے تھے کہ: ترجمہ قرآن شے دیگر است، علم قرآن شے دیگر.
علم حدیث و علم رجال:
علم حدیث کا اندازہ اس سے کیجیے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر ، اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر رد پڑتی ہے ان کی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت از بر۔ علم حدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے ۔ اعلیٰ حضرت کے سامنے کوئی بھی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرمادیتے تھے، اٹھا کر دیکھا جاتا تو ”تقریب و تہذیب و تذہیب “ میں وہی لفظ مل جاتا تھا۔ اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت ۔
اعلی حضرت نے اس حقیقت کو واضح فرمادیا کہ بعض لوگوں کا ایمان بالرسل بایں معنی نہیں ہے کہ رسول پاک سید المرسلین ہیں ، خاتم النبیین ہیں شفیع المذنبین ہیں ، اکرم الاولین والآخرین ہیں ، اعلم الخلق اجمعین ہیں ، محبوب رب العالمین ہیں، بلکہ صرف بایں معنی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑے بھائی ہیں جو مر کر مٹی میں مل چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے بے اختیار اور عند اللہ تعالی بے وجاہت رہے ۔ اگر ان کو بشر سے کم قرار دو تو تمھاری توحید زیادہ چمک دار ہو جاۓ گی ۔ ان حقائق کے واضح کر دینے کا یہ مقدس نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی جمہوریت اسلامیہ بڑی اکثریت کے ساتھ دامن رسول سے لپٹی ہوئی ہے اور دشمنان اسلام کے فریب سے بچ کر مجرموں کے منہ پر تھوک رہی ہے۔ فجزاه الله تعالى عنا وعن سائر اهل السنة والجماعة خير الجزاء .
اعلی حضرت کا لغزشوں سے محفوظ رہنا:
علماے دین کے اعلی کارنامے چودہ صدی سے چلے آرہے ہیں۔ مگرلغزش قلم وفلتت لسان سے بھی محفوظ رہنا یہ اپنے بس کی بات نہیں ۔ زور قلم میں بکثرت تفرد پسندی میں آگئے بعض تجدد پسندی پر اتر آۓ تصانیف میں خود رائیاں بھی ملتی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں بھی بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں۔ قول حق کے لہجہ میں بھی بوۓ حق نہیں ہے ۔ حوالہ جات میں اصل کے بغیر نقل پر ہی قناعت کر لی گئی ہے لیکن ہم کو اور ہمارے سارے علماے عرب و عجم کو اعتراف ہے کہ یا حضرت شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی یامولانا بحر العلوم فرنگی محلی یا پھر اعلی حضرت کی زبان و قلم کا یہ حال دیکھا کہ مولی تعالی نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے اور زبان و قلم نقطه برابر خطا کرے اس کو ناممکن قراردياـ ذلك فضل الله يوتيه من يشاء ۔اس عنوان پر غور کرنا ہو تو فتاوی رضویہ کا گہرا مطالعہ کر ڈالیے ۔
یہ محدث اعظم ہند کے خطبے کے چند جواہر پارے سپرد قرطاس کیے گئے جو آپ نے یوم رضا کے موقع پر ارشاد فرماۓ ۔ آپ کا یہ خطاب بڑا مقبول ہوا اور کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اسے محدث اعظم ہند نے اپنے دست مبارک سے تقسیم بھی فرمایا۔
علالت و رحلت :
حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی نے زندگی کے آخری ایام میں جنوب ہند کے تبلیغی دورے پر تھے کہ علیل ہوگئے ۔ آپ نے علالت کے باوجود دورے کو جاری رکھالیکن جب مرض بڑھ گیا تو آپ لوٹ آۓ۔ ۱۲۵ اکتوبر تا ۱۰ر نومبر ۱۹۶۱ء تک لکھنو میں زیر علاج رہے ۔ آپ نے اپنی پیشن گوئی کے مطابق ۲۵؍ دسمبر کو وصال فرمایا۔ میت لکھنو سے کچھوچھہ لائی گئی۔ آپ کی نماز جنازہ سر کار کلاں سید مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے پڑھائی۔بارگاہ عالیہ اشرفیہ میں تدفین ہوئی.
از قلم: محمد التمش انصاری مصباحی
پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی
0 Comments