سیدغیاث الدین کالپی کا بیان حقائق کی روشنی میں ،اعلی حضرت اشرفی میاں اور مشائخ مارہرہ شریف

________________________________

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے

نہ کھلتےرازسربستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ اہل سنت وجماعت کا ہر فرد انہیں اپنا پیشوا سمجھتا اور مانتاہے،ان کی دینی وعلمی خدمات کا دل و جان سے اعتراف کرتاہے۔ لیکن کچھ افراد ایسے ضرور ہیں جن کے دل میں امام احمد رضاخان کی عقیدت ومحبت جس قدر ہونی چاہیے،نہیں ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کریں تو متعدد اسباب سامنے آتے ہیں۔ انہیں اسباب میں سے ایک سبب شاید یہ بھی کہ ان سے عقیدت و محبت کا دم بھرنے والوں میں کچھ لوگوں کا مرتبۂ امام احمد رضا کو بیان کرنے میں غلو اور حد سے تجاوز کرنا ہے۔ یا پھر مقامِ امام احمد رضا ان کے نزدیک دوسرے مشائخین کی تنقیص وتوہین کے بغیر مکمل نہیں ہوتاہے۔ ایسی صورت میں انتشار وافتراق، افرا تفری اور بے چینی وہنگامہ آرائی کا ماحول پیدا ہونا ظاہر ہے۔

ہمارے اسلاف ومشائخ نے اپنے کردارو عمل سے آپس میں جس طرح شیر وشکر ہوکر رہنے کا درس حیات ہمیں دیا ہے،ہم نے اس کو پس پشت ڈال دیا،بلکہ اس کے الٹ افتراق وانتشار اور برتری وکم تری کی بنیاد بنا ڈالا۔ کون نہیں جانتا کہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اور حضور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی کے مابین کتنا عظیم اور پاکیزہ ربط وتعلق تھا، کس طرح ایک دوسرے کا پاس ولحاظ رکھتے تھے۔مگر اس عظیم روحانی تعلق کو ناعاقبت اندیشوں نے اپنی روٹی بوٹی اور حصول زرکا ناپاک ذریعہ بنالیا۔

سیدغیاث الدین کالپی کاسفیدجھوٹ پکڑاگیا،اعلی حضرت اشرفی میاں اور مشائخ مارہرہ شریف
 سیدغیاث الدین کالپی کاسفیدجھوٹ پکڑاگیا،اعلی حضرت اشرفی میاں اور مشائخ مارہرہ شریف


بریلی شریف کے اسٹیج سے جھوٹ کی تشہیر

ابھی حالیہ عرس رضوی 2022/1444ء میں ایک خطیب مولانا سید غیاث الدین صاجب کالپی نے جو کچھ کہا اس سے ایک بہت بڑا حلقہ خصوصا برادران اشرفی اور عموما وہ تمام سنجیدہ حضرات جو مشائخین سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں بہت زیادہ مضطرب ہیں۔ اگر خطیب مذکور کے پاس اپنی بات پر کوئی دلیل اور تاریخی حوالے ہیں تو پیش کریں، ورنہ ان کی طرف سے کہی گئی یہ بات غلط اور چھوٹی ہوگی۔ ان کے ذمہ آج بھی اُس قول پر دلیل پیش کرنا باقی ہے۔انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا۔ ورنہ اپنی اس بات پر وہ چھوٹے قرار پائیں گے۔ یا پھر اعلانیہ اپنی بات سے رجوع کرے اور بارگاہ ہم شبیہ غوث جیلاں حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے معافی مانگے۔

قارئین کرام: آپ پہلے ان کادعویٰ ملاحظہ فرمائیں، پھر اس کی حقیقت وصداقت کو آشکار کرنے والے دلائل اور تاریخی شواہدضرور ملاحظہ کریں تاکہ آپ کو بھی سچائی کا علم ہو اور اگر کسی طرح کے کنفیوژن کے شکار ہوگئے ہیں تو وہ بھی دور ہوجائے۔ مولانا سید غیاث الدین کی تقریر کا وہ حصہ جو انہوں نے جامعۃ الرضا بریلی شریف کے اسٹیج سے عرس رضوی کے موقع پربیان کیا تھا،یہ ہے۔

”یہ احسان ہے اعلیٰ حضرت (فاضل بریلی)کا حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ پر کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے سرکارِ نور سے انہیں خلافت و اجازت دلوائی،دلانے والا کوئی اور نہیں، میرا رضا ہے“

اس میں کئی باتیں ایسی ہیں جو کہ سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت کی دلیل ہیں۔

(۱) ہم شبیہ غوث جیلاں، اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو سرکار نوری میاں یعنی قطب مارہرہ حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں علیہ الرحمہ سے خلافت واجازت حاصل تھی۔ یہ غلط ہے آپ کو ان سے خلافت حاصل نہیں تھی بلکہ سرکار نوری میاں کے دادا خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ سے خلافت حاصل تھی۔ جس پر وہ تمام کتابیں گواہ ہیں جن میں اس خلافت کا ذکر ہے۔ مثلا: اہل سنت کی آواز خلفاء خاندان برکات نمبر، ماہنامہ اشرفیہ کا سیدین نمبراور شجرہ اشرفیہ، وغیرہم۔اور یہی وہ خاتم الاکابر ہیں جو حضور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی اور ان کے والد بزرگوار کے پیر ومرشد ہیں۔

لہذا حصولِ خلافت کی نسبت سرکار نوری میاں کی طرف کرنا غلط، سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔ اسٹیج پر موجود حضرات کی ذمہ داری تھی کے جب یہ جھوٹ بولا جارہاتھا تو ان کو روکتے، ٹوکتے۔ لیکن انہوں نے ایسانہیں کیا اور وہ صاحب تو بہت زیادہ لائق ملامت ہیں جو اس جھوٹ پر واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ رہے تھے۔

(2) دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ ”اعلیٰ حضرت نے خلافت دلوائی“ اس کی حقیقت تاریخی حقائق اور ریفرینس کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔

اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کا ”شجرہ اشرفیہ“ جس کے مرتب سید شاہ آل حسن اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ ہیں۔ یہ شجرہ حضور اشرفی میاں کے حسب ارشاد مرتب کیا گیاتھا۔پہلے شجرہ اشرفیہ کے مرتب کامختصر تعارف اور اشرفی میاں کے نزدیک ان کے مقام ومرتبہ ملاحظہ فرمائیں تاکہ آنے والی بات ناقابل تردید ہواور کسی ایرے غیرے کا قول کہہ کر کوئی مسترد نہ کر سکے۔ پھر حصول خلافت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔


شجرہ اشرفیہ کے مرتب کا مختصر تعارف


حیات مخدوم الالیاء محبوب ربانی میں حضرت علامہ مفتی محمود احمد رفاقتی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے۔

”حضرت مولانا حکیم سید آل حسن علیہ الرحمہ کی جائے پیدائش قصبہ چاند پور ضلع بجنور یوپی ہے۔ آپ خانوادہئ غوثیہ کے رکن رکین تھے، علوم وفنون پر کامل دست رس حاصل تھی، خدمت خلق اور معاش کے لئے طب پڑھی اور ہاپوڑ ضلع میڑھ میں مطب (دواخانہ) جاری کیا، حضور پرنور اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیا محبوب ربانی قدس سرہ کی زیارت ودید سے مشرف ہوئے تو دل ان کی طرف کھینچا اور مرید ہوگئے اور کسب سلوک کیا۔ حضور پرنور نے آپ کی نرالی شان سے تعلیم وتلقین کی اور سلوک کے مدارج طے فرمائے۔ نقیب الاشرف حضرت شیخ اعظم مولانا سید شاہ اظہارصاحب قبلہ مد ظلہ سجادہ نشین آپ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”اعلیٰ حضرت محبوب ربانی کے ایک مشہور خلیفہ حضرت مولانا سید آل حسن ہاپوڑی بھی تھے، جو یقینا فنا فی الشیخ تھے، ہر لمحہ اور ہر گفتگو میں شیخ کی پاکیزہ صورت وسیرت اور کمالات ظاہری وباطنی کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان تشریف لے گئے۔ ان کا معمول تھا کہ ہمیشہ عرس شریف میں شرکت فرماتے تھے۔ ان کے لئے خانقاہ میں ایک کمرہ مخصوص تھا،

سرکار اشرفی میاں نے ان کے لئے فرمایا تھا:

” میں نے اپنے اس فرزند کو ایسی راہ میں ڈال دیا ہے، جہاں فرشتے بھی گھبراتے تھے“

تمام سلاسل کی اجازت کے ساتھ سلسلہ ملامتیہ کی بھی اجازت تھی۔ اس سلسلے کی اجازت میری معلومات میں صرف حضرت سید صاحب کو حاصل تھی۔ آپ کا وصال رمضان المبارک میں کراچی میں ہوا، حضرت عبداللہ شاہ کے جوار میں مدفون ہوئے، آج بھی ان کی قبر پر عشق کی گرمی اہل دل محسوس کیاکرتے ہیں۔

حضرت حکیم صاحب حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا کے آخری علالت کے زمانے میں حاضر خدمت تھے، آخری شب میں حضور نے آپ سے ارشاد فرمایا تھا کہ

”آج کی شب اگر گذر گئی تو گیارہ برس اور فقیر کی عمر بڑھا دیئے جائیں گے“

فہرست خلفاء میں آپ کے بارے میں ہے۔

”مولوی حکیم سید آل حسن بن سید خورشید علی قادری رزاقی المخاطب بہ احسن اللہ شاہ

اولاد حضرت محبوب سبحانی، پنجشنبہ ۵/ ذی الحجہ ۶۳۳۱ھ، ساکن چاندپور ضلع بجنور“

(حیات مخدوم الاولیا محبوب ربانی)


خاندان برکات سے حصول خلافت


قارئین کرام:شجرہ اشرفیہ کے مرتب کا مقام ومرتبہ، آپ نے ملاحظہ کیا۔انہوں نے ہی اس شجرہ میں حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو خاندانِ برکات سے ملنے والی خلافت تفصیل سے ذکر کیاہے۔ خلافت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ مولانا سید غیاث الدین کالپی کا بیان کہ”یہ احسان ہے اعلیٰ حضرت (فاضل بریلی)کا حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ پر کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے سرکار نور سے انہیں خلافت و اجازت دلوائی“

کتنا بڑا جھوٹ اور خاندان اشرفیہ کو نیچا دکھانے کی کتنی بڑی اعلانیہ ناپاک کوشش کی ہے۔

واقعہ یہ ہے

”پیر ومرشد جب ضلع علی گڑھ اور ضلع ایٹہ کے سفر میں تشریف لے گئے، وہاں کے لوگوں سے سنا کہ آستانہ ماہررہ شریف میں ایک بڑی سرکار اولیاء کبار سے ہے اور وہاں کے صاحب سجادہ عالمِ کامل، درویش، صاحب دل حضرت مولانا آل رسول احمدی برکاتی قادری بافیض تشریف رکھتے ہیں۔ تین دن تک حضرت پیر ومرشد وہاں جاکر مقیم رہے اور اندر خلوت خانہئ عبادت، مولانا کو کسی آدمی کے ذریعے سے اطلاع دیتے رہے مگر آپ کو خبر نہ ہوئی اور کوئی جواب تک نہ آیا۔ آخر مایوس ہوکر موضع حسیپور جس میں حضرت شیخ عبداللہ، باباشیخ فرید گنج شکر کے پوتے کا مزار ہے اور وہیں آپ کی اولاد بھی آباد ہے۔ وہ موضع شاہان دہلی سے معافی چلاآتاہے،وہاں جاکر شب باش ہوئے۔ اس موضع کے مرد، عورت اور چھوٹے بڑے سب حضرت کے ہاتھ پر مرید ہوئے۔دودن گزرے تھے اور تیسرے دن بھی وہی سلسلہ بیعت جاری تھا کہ جناب سید شاہ حسین حیدر نواسہ آلِ رسول مارہرہ شریف سے بہلی پرسوار پہنچے اور فرمایاکہ

” نانا جان نے آپ کو یاد کیا ہے، تشریف لے چلئے“

حضرت نے فرمایا کہ تین دن ہم وہاں ٹھہرے تھے

اور روزانہ حضرت کو ہم اطلاع دیتے تھے، جواب تک نہ آیا۔ سید شاہ حسین حیدر نے فرمایا کہ ناناجان کی حالتِ استغراق میں آٹھ آٹھ دن تک یہی حالت رہتی ہے، جب نانا جان استغراق سے عالم شعور میں آئے اور آپ کے تین دن قیام کرنے کا حال ان سے بیان کیا گیا، فرمایا: ہم کو اطلاع کیوں نہ دی؟ وہ صاحبزادہ، ہمارے غوث پاک کی اولاد میں مرشد زادے ہیں، جلد ان کو بلاؤ۔“

چنانچہ پیر ومرشد اسی وقت سوار ہوکر ماہریرہ شریف پہنچے۔ صبح کو حضرت کی خدمت میں طلب کئے گئے،پہلے ملتے ہی آپ نے فرمایا:

حالنا کحال النائم وقلبنا کقلب البھائم۔

اور اپنے صاحب زادے چھوٹے میاں سے فرمایا: تھوڑی دیر کے لئے تم اٹھ جاؤ میں صاحبزادے سے تنہائی میں کچھ باتیں کروں گا۔ جمیع سلاسل قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، ابوالعلائیہ، مداریہ، قدیمہ وجدیدہ عنایت فرمایا۔ اس کے علاوہ بہت سارے اعمال، اوراد ووظائف کی اجازت عطافرمائی۔ پیر مرشد نے عرض کیا کہ میں کہاں تک لکھ سکتاہوں، آپ نے اپنے پوتے مولانا احمد نوری سے فرمایا کہ اگر کوئی مجموعہ اعمال واذکار واشغالِ خاندان کا لکھا ہوا تمہارے پاس ہو تو لاؤ، انہوں نے پیش کیا، آپ نے اس پر لکھ دیا کہ اس کتاب میں جتنے اعمال واشغال خاندانی میں نے لکھے ہیں میں نے ان سب کی اجازت اپنے فرزند روحی حاجی سید علی حسین اشرفی جیلانی کو بخشی، یہ فضل خدا کا تھا۔ذالک فضل اللہ یوتیہٖ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔

(شجرہ اشرفیہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں، مرتبہ:حضرت سید آل حسن اشرفی جیلانی)


حضرت خاتم الاکابر کا خاتم الخلفاء کون؟


یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضور اشرفی میاں کو یہ خلافت واجازت۲ ربیع الثانی1296 ھ میں حاصل ہوئی اور 18 ذی الحجہ 1296 ھ کوحضرت خاتم الاکابر کا وصال ہوا۔

خاندان برکات میں حضرت مولانا سید شاہ محمد میاں مارہروی نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلی علیہ الرحمہ کو خاتم الخلفاء تحریر فرمایا ہے۔ جب کہ حضرت فاضل بریلوی کو 25 جمادی الآخر 1294ھ میں بیعت کا شرف اور اجازت وخلافت کی نعمت حاصل ہوی۔ لہذا درست یہ ہے کہ حضرت خاتم الاکابر مولانا آل رسول مارہروی کے آخری خلیفہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہیں۔ اب یوں کہا جائے کہ خاتم الاکابر کے خاتم الخلفاء حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہیں۔(حیات مخدوم الاولیاء)

اب آپ ہی بتائیں کہ حصول خلافت کے اس واقعہ حقہ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا کہیں ذکر یا اشارہ بھی ہے؟ نہیں۔ تو پھر مولانا غیاث الدین کالپی شریف کا یہ بیان:

” یہ احسان ہے اعلیٰ حضرت (فاضل بریلی)کا حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ پر کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے سرکار نور سے انہیں خلافت و اجازت دلوائی“

کتنا بڑا جھوٹ اور حضور اشرفی میاں کی شان میں تنقیص کی کتنی بڑی مذموم حرکت ہے۔ اس لئے ان کو یاتو دلیل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اعلیٰ حضرت نے خلافت دلوائی یا پھر اعلانیہ اس سے رجوع اور اس جھوٹ سے توبہ کرنا ہوگا۔


کون محسن،کس کا احسان

رہ گئی بات احسان کرنے کی، تو دنیا جہان جانتی ہے کہ کس بزرگ کا احسان کس پرہے؟ ہمیں اُن کے بارے میں بات کرنا، اس طرح منھ کھولنا روانہیں ہے۔ جب ان بزرگوں نے کبھی ایسا نہیں فرمایا اور نہ اس طرح کا کوئی عندیہ دیا تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں کہ ان کے معاملات میں فیصل بنیں۔اگر دیکھا جائے تو حضرت فاضل بریلوی کا الملفوظ میں درج یہ جملہ سب کچھ واضح اور عیاں کرگیا ہے کہ:

”سید محمد یعنی محدث اعظم ہند تو میرے شہزادے ہیں، میرے پاس جو کچھ ہے وہ انہیں کے جد امجد یعنی غوث اعظم کا صدقہ وعطیہ ہے“

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی بزرگی وبرتری کا اعتراف اور ان سے حصولِ فیض کی درخواست جس والہانہ انداز میں کیا ہے اس کو جاننے کے لئے تاج الفحول حضرت علامہ عبدالقادرمحب رسول بدایونی*کی بارگاہ میں چلئے۔ جنہوں نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور ان کے پدر بزرگوار کو اپنے ساتھ لے جاکر حضور خاتم الاکابر حضرت سید آل رسول سے بیعت، اورخلافت واجازت دلواکر احسان کیا۔ وہیں حضور تاج الفحول کو حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی سے کس قدر عقیدت تھی اور ان کی تعظیم و تکریم کرکے کتنے شرف حاصل کئے؟ درج ذیل 1295 ھ (حضور اشرفی میاں کوخلافت ملنے سے پہلے)کے واقعہ سے اندازہ لگائیں۔

”حضرت تاج الفحول بھی اسی سال(1295ھ)میں سفر حج وزیارت میں گئے تھے،حضرت تاج الفحول صفا ومروہ کی سعی میں مشغول تھے، آپ کے ہمراہ پیر خانہ مارہرہ مطہرہ کے صاحبزادگان عالی گرامی حضرت مولانا سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں

اور حضرت مولانا شاہ حامد حسن بھی مصروف سعی تھے۔ حضرت تاج الفحول نے اچانک سعی کی ترتیب بدل دی، حضرت مولانا سید اسماعیل حسن صاحب نے حضرت شاہ حامدحسن صاحب سے کہا کہ حضرت تاج الفحول سے پوچھو کہ اس تبدیلی سعی کی کیا وجہ ہے؟

چنانچہ انہوں نے دریافت کیا، حضرت اقدس تاج الفحول نے فورا فرمایا:

” آپ نے دیکھا نہیں کہ سامنے سے شبیہ غوث الثقلین شاہ علی حسین صاحب قبلہ جیلانی آرہے تھے میں کیسے ان کی طرف پشت کرتا“

دوسرے دن صبح کو تینوں حضرات نے ایک دوسرے سے اپنا شب کا واقعہ بیان کیا کہ”آج کی شب حضرت سیدنا غوث الثقلین قطب الکونین رضی اللہ عنہ کی دولتِ دیدار سے مشرف ہوا“

(بیان: حضرت سید شاہ یحییٰ حسن نبیرہ شاہ حامد حسن برکاتی سجادہ نشین حضرت شاہ آل رسول احمدی مارہروی بموقع عرس چہلم شریف حضرت مخدوم المشائخ سرکارکلاں قدس سرہ کچھوچھہ مقدسہ۔ بحوالہ:حیات مخدوم الاولیاء۔)

اب اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا دیوان حدائق بخشش اٹھا ئیے اور قصیدہ چراغ انس کھولئے۔ جس میں انہوں نے حضرت تاج الفحول محب رسول کی مدح میں سیکڑوں اشعار لکھے ہیں۔ اسی میں مذکورہ واقعہ کو شعری جامہ پہناکر یوں استدعافرمایا:

یہ سچ ہےکہ ہاں وہ آنکھ کہاں

آنکھ پہلے دلا محب رسول

میں بھی دیکھوں جوتونےدیکھاہے

روز سعی صفا محب رسول

کیا شان ہے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی کہ جن کی رفعت وبلند مقامی دیکھ کر وقت کا تاج الفحول سعی کی ترتیب بدل دے، جن کی شباہتِ غوثیہ کی تعظیم کرنے پر غوث الاعظم کی زیارت نصیب ہو اور وقت کا مجدد اپنے لئے اس کا صدقہ مانگے۔ تو پھر سرکار اشرفی میاں پر امام احمد رضا کا احسان ہےکہنا یقینا بہت بڑی محرومی اور شومی قسمت ہے، اعلیٰ حضرت کی رو ح کو شدید تکلیف دینا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا تو بلاواسطہ حضوراعلیٰ حضرت اشرفی کی شان میں یہ شعر کہہ گئے ۔

اشرفی اے رُخَت آئینۂ حسنِ خوباں

اے نظرکردہ وپروردۂ سہ محبوباں


ازقلم گوہر رقم؛۔ مفتی محمدنذرالباری جامعی پورنوی

Post a Comment

0 Comments