حضرت علامہ و مولانا مفتی عبید الرحمن رشیدی مصباحی :مختصر تعارف

نام : عبیدالرحمن،

والد کا نام : مولانا حکیم لطیف الرحمن رشیدی ہے ۔

ولادت: آپ کی ولادت ماہ رجب المرجب بروز سه شنبه ١٣٦٢ھ میں صوبہ بہار کے ایک معروف ضلع کٹیہار کےبینی باڑی گاؤں میں ہوئی ۔

تعلیم و تربیت:

آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے والد بزرگوں حضرت مولانا لطیف الرحمن رشیدی کے زیر سایہ کیا اور میزان و منشعب وغیرہ کتابوں کا درس ان ہی سے حاصل کیا،اور باضابطہ درس نظامی کے لیے دارالعلوم مصطفائی چمنی بازار گئے، یہاں آپ نے مؤقر اساتذہ سے شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد دار العلوم حمیدیہ رضویہ بنارس پہنچے جہاں آپ نے مفتی شمس الدین جون پوری اور مولانا سید سلیمان اشرف بھاگلپوری وغیرہ اساتذہ کرام کی بافیض درس گاہوں سے اپنی علمی تشنگی بجھائی ، پھر ایک سال کے لیے دار العلوم مظہر اسلام بریلی گئے اور اکابر علماے کرام سے اکتساب فیض کیا، شرح وقایہ، شرح تہذیب اور قطبی وغیرہ کتابوں میں درک حاصل کیا، یہیں سے آپ کو معقولات کا شوق پیدا ہوا جب کہ ابتدا میں آپ کو علم محو سے خاص دلچسپی تھی ۔

اس کے بعد آپ نے اپنے مشفق استاذ مولانا غلام محمد یسین رشیدی کے مشورے سے ١٩٦٤ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا اور یہاں داخلہ لیا، اور اپنی محنت و جاں فشانی سے کچھ ہی عرصہ میں تمام طلبہ میں ممتاز اور اساتذہ کی نگاہوں میں محبوب ہو گئے۔ حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ کی آپ پر خاص عنایتیں تھیں، بالآخر مروجہ علوم وفنون سے آراستہ ہوکر ۱۹٦٧ء میں سند فراغت حاصل کی ۔

حضرت علامہ و مولانا مفتی عبید الرحمن رشیدی مصباحی :مختصر تعارف
 حضرت علامہ و مولانا مفتی عبید الرحمن رشیدی مصباحی :مختصر تعارف


بیعت و خلافت:

حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی ۱۹۵۶ء میں منظور الحق حضرت سید شاہ مصطفی علی سبزپوش گورکھپوری ( دسویں سجادہ نشیں : خانقاہ رشیدیہ جون پور) کے دست حق پر سلسلۂ چشتیہ مصطفائیہ میں بیعت ہوۓ۔

آپ کو مختلف سلسلوں سے اجازت و خلافت حاصل ہے ، سب سے پہلے آپ کو اپنے والد محترم حضرت مولانا حکیم لطیف الرحمن رشیدی سے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ مولانا شاہ غلام محمد یسین رشیدی اورحضرت سید شاہ زاہد سجاد جعفری پٹنوی سے بھی تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔

درس و تدریس:

حضرت مفتی عبید الرحمن اپنی علمی صلاحیت و رسوخ کی وجہ سے جامعہ اشرفیہ میں طالب علمی کے دوران ہی معین المدرسین کی حیثیت سے ابتدائی جماعتوں کے طلبہ کو درس دیتے تھے اور جب جامعہ اشرفیہ سے سند فراغت حاصل کی تو باضابطہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوۓ ،ملک کے کئی اداروں کو اپنی علمی تجلیات سے روشن کیا اور اعلی حضرت کے تعلیمی مشن کو خوب فروغ دیا۔

سب سے پہلے آپ حضور حافظ ملت کے حکم سے مدرسہ فیض العلوم جمشید پور گئے اور بحیثیت صدر المدرسین و شیخ الحدیث آپ کا تقرر ہوا ، یہیں سے آپ نے فتوی نویسی کا آغاز کیا، حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی کے حکم سے دارالعلوم حمیدیہ رضویہ بنارس تشریف لے گئے ، یہاں کئی سالوں تک قیام فرماکر دار الافتا اور درس گاہ کی ذمہ داری سنبھالی ۔

آپ کے استاذ گرامی حضرت علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی نے ممبئی میں ایک مدرسہ دارالعلوم محمدیہ قائم کیا اور دور حدیث کے طلبہ کی تعلیم کے لیے آپ کا انتخاب کیا ، تو آپ دار العلوم محمدیہ تشریف لے گئے ،لیکن یہاں کا ماحول آپ کو راس نہ آیا ؛اس لیے کچھ عرصے قیام کے بعد حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم سے مظہر اسلام بریلی شریف آگئے اور تقریبا ایک سال بعد دار العلوم امجدیہ ناگ پور چلے گئے جہاں دو تین سال تک تدریس و افتا کی خدمت انجام دی ، یہاں سےدار العلوم نداے حق جلال پور تشریف لاۓ ، اس وقت حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ یہاں کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث تھے ، اسی سال حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا وصال ہوگیا اور شارح بخاری وہاں سے مبارک پور تشریف لے آۓ ، ان کے جانے کے بعد آپ صدرالمدرسین ،شیخ الحدیث اور مفتی کے منصب پر فائز ہوۓ ، یہاں کئی سالوں تک آپ کا علمی فیضان جاری رہا ، اس کے بعد گھوسی مدرسہ شمس العلوم تشریف لے گئے ، یہاں پانچ سال تک آپ تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے ۔ اس کے بعد آپ کو خانقاہ رشیدیہ جون پور کا سجادہ نشیں بنادیا گیا اور درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

مناظرہ:

حضرت مفتی عبید الرحمن صاحب قبلہ نے باطل فرقوں سے کئی دندان شکن مناظرے کیے جن میں حق کو واضح کیا اور اہل سنت و جماعت کے عقائد حقہ اور مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے افکار و نظریات کی خوب نشر واشاعت کی اور بد مذہبوں کے گمراہ کن عقائد اور نظریات کا پردہ چاک کیا۔

آپ نے پہلا مناظرہ اپنے دیار میں کیا تھا جس وقت وہاں فتنہ پرور دیوبندی اپنے باطل نظریات کو عام کر رہے تھے اور ھل من مبارز ؟ کی صدا بلند کر رہے تھے ،انھوں نے مناظرہ کا چیلنج کیا تو آپ نے چار گھنٹے کے اندر ہی ان دیوبندیوں کو شکست دے دی ۔ جب علامہ ارشد القادری کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے بہت حیرت کی ۔ دوسرا مناظرہ بنگال کی سرزمین آساپور میں کیا اور تیسرا مناظرہ بردوان کے قریب گلسی بازار میں کیا ، اس طرح آپ نے جتنے بھی مناظرے کیے سب میں باطل کو شکست ہوئی ۔

فقہ وافتا:

حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی کو فقہ وافتا میں مہارت تامہ حاصل ہے ؛ اس لیے جہاں جہاں درس و تدریس کے لیے تشریف لے گئے ،وہاں کے دار الافتا کی ساری ذمہ داری آپ کے سپرد کر دی گئی فقہی عبارتیں خصوصافتاوی رضویہ پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔

حضرت مفتی صاحب قبلہ جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد جب مدرسہ فیض العلوم ، جمشید پور تشریف لے گئے توعلامہ ارشد القادری کی نگاہ دور میں نے آپ کے اندر چھپے ہوئے گوہر نایاب کو پرکھ لیا اور کہا: ”آپ میں بھر پور صلاحیت ہے ، آپ فتوی بھی لکھا کریں “ یہ کہ کر ان کا قلم دان آپ کے سپرد کر دیا۔ اسی سال حضرت علامہ ارشد القادری صاحب نے سیوان میں ایک کانفرنس کرائی کہ ہمارا اپنا ایک دار القضا ہوناچاہیے اور یہ دار القضا سر دست بنگال، بہار اور اڈیشا کے لیے قائم کیا جاۓ اور اس کا ہیڈ کوارٹر پٹنہ ہو ، چنانچہ سردست سبزی باغ پٹنہ میں دار القضا قائم کر دیا گیا اور دار القضا سے متعلق جتنے مسائل بھی تھے ان سب کا دستور العمل مرتب کرنے اورآۓ ہوۓ استفتوں کے جوابات دینے کی بھی ساری ذمہ داری حضرت مفتی عبید الرحمن کے سپردکر دی گئی ۔

پھر جب آپ دار العلوم حمیدیہ بنارس تشریف لے گئے تو فرماتے ہیں: اس وقت وہاں شمس العلما حضرت قاضی شمس الدین علیہ الرحمہ صدر المدرسین تھے ، انھوں نے مجھ سے کہا : عبید الرحمن فتویٰ کے کام میں تم میرا ہاتھ بٹاؤ، تو آپ نے اسے قبول کیا، حضرت نے پہلے آپ کو ہدایت کی تھی کہ پہلے تم کاغذ میں اس کا جواب لکھو اور مجھے دکھا دو، تب استفتا کے کاغذ میں جواب لکھنا۔ آپ نے ایسا ہی کیا، چند دنوں کے بعد حضرت نے فرمایا: "ماشاءاللہ تم صحیح لکھتے ہو،اب مجھے دکھانے کی ضرورت نہیں ، تم فتوی دیا کرو “ الحاصل آپ جس ادارے میں درس و تدریس کے لیے تشریف لے گئے ، وہاں آپ نے درس کے ساتھ ساتھ افتا کی بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 

فتاوی رضویہ کی تصحیح:

حضرت مفتی صاحب قبلہ نے فتاوی رضویہ کی چوتھی جلد پر طالب علمی کے دوران ہی ایک عظیم کام کیا، حضرت خود بیان فرماتے ہیں:

جامعہ اشرفیہ میں زمانہ طالب علمی کے اخیر سال١٩٦٧ء میں استاذ گرامی حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ نے مجھ سے کہا: "فتاوی رضویہ کی چوتھی جلد کی کتابت ہو کر آئی ہے ، اس کو اصل سے ملانا ہے ، میں اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا، اگر تم کو موقع ہو تو اس کام میں میری مدد کرو ، تم پڑھنا اور میں دیکھتا رہوں گا، اگر کہیں کچھ فرق ہوا تو میں اس کی صحیح کر دوں گا ۔ تو میں نے اپنی سعادت سمجھتے ہوۓ حضرت کے اس فرمان کو قبول کیا اور کئی مہینوں تک حضرت کے ساتھ میں نےیہ کام کیا۔

تصنیفی خدمات:

حضرت مفتی صاحب قبلہ نے درس و تدریس اور فقہ وافتا کے علاوہ گراں قدر تصنیفی خدمات بھی انجام دیں،بہت ساری علمی و تحقیقی کتابیں اور رسائل ومضامین تحریر کیے جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں: (۱) اختیار نبوت: یہ کتاب مبارک پور کےایک غیرمقلد عالم صفی الرحمن مبارک پوری کی کتاب بنام ”حق وباطل “ کے جواب میں تحریر کی گئی ، آپ اس وقت مدرسہ شمس العلوم ، گھوسی میں مسند تدریس افتا پر فائز تھے ۔

(۲) بیان حقیقت: جب آپ دار العلوم حمیدیہ بنارس میں تھے تو ایک دیو بندی مولوی نے ” نورحق “ نامی

کتاب لکھ کر اہل سنت پر طعن و تشنیع کی ، اس کے جواب میں آپ نے یہ کتاب لکھی ۔

(٣) جواہر الحدیث: یہ کتاب اس وقت کی یاد گار ہے جب آپ سنی دار العلوم محمدیہ ممبئی میں شیخ الحدیث تھے ،تب علماو احباب کی فرمائش پر یہ کتاب تحریر کی۔(۴) آیات نافعہ (۵) اذکار نافعہ (۶) معمولات قطب الاقطاب ۔

) موبائل کی خبروں سے استفاضہ شرعی کا حکم : اس مضمون میں فتاوی رضویہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ موبائل کے ذریعہ اگر متعدد جگہوں سے رویت ہلال کی خبریں موصول ہوں اور باتحقیق ہوں تو استفاضہ شرعی کا حقق ہو جاۓ گا جو ثبوت ہلال کے طریقوں میں سے ایک ہے.

مسند سجادگی:

حضرت مفتی صاحب قبلہ کے پیرو مرشد منظور الحق حضرت سید شاہ صطفی علی سبز پوش علیہ الرحمہ کی ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹۵۸ء میں وفات ہوگئی ، اس وقت سے ۱۹۸۶ء تک خانقاہ رشیدیہ کی سجادگی خالی رہی ، خانقاہ کے خلفا و مشارخ خصوصا شیخ الاسلام شاہ غلام محمد یسین رشیدی علیہ الرحمہ رشد و ہدایت، تعلیم وتلقین ، دعوت و تبلیغ اور خانقاہ کے دیگر امور انجام دیتے رہے ۔ ۱۹۸۶ء میں اس خانقاہ عالیہ رشیدیہ کی ساری ذمہ داری حضرت مفتی صاحب قبلہ کو سونپ دی گئی اور آپ کو اس خانقاہ کا مختار عام اور سجادہ نشیں نامزد کیا گیا۔

ازقلم : محمد ابو الحسن خرقانی

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

Post a Comment

0 Comments