بیوی کہتی ہے مجھے شوہر نے طلاق دی ہے اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے طلاق مانی جائے گی یا نہیں، عورت دوسرے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے

مسئله:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کوطلاق نہیں دی۔اور بیوی کہتی ہے کہ مجھکو طلاق دیدی ہے ۔ جسکی کوئی گواہی نہیں ۔اب یہ عورت اپنا عقد ثانی کرنا چاہتی ہے ۔ نکاح پڑھانے والا قاضی دوشهادت اسطرح کی مانگتا ہے جن کے رو برو زید نے طلاق دی ہو۔ یہ عورت اپنا عقد ثانی عمر کے بھائی کے ساتھ کرنا چاہتی ہے ۔ عمر اس کی جھوٹی شہادت باحلف دیتا ہے کہ میرے سامنے طلاق دی ہے جب کہ اس کو طلاق دینے یا نہ دینے کا کوئی علم بھی نہیں ہے ۔ یہ جھوٹی گواہی اس لئے دیتا ہے کہ اس کے بھائی کو بیوی مل رہی ہے ۔اور اس کی شہادت پر قاضی نکاح پڑھا دیتا ہے تو یہ نکاح شرعاً جائز ہوا یا ناجائز اور اس جھوٹی گواہی دینے والے عمر کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ دوسرے اس نکاح میں چند آدمی شامل ہوۓ جن کو کہ صاف معلوم تھا کہ زید نے طلاق نہیں دی ہے تو ان شریک ہونے والے آدمیوں کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ تیسرے عمر اپنے بھائی کے نکاح کی خوشی میں کھانے کی دعوت دیتا ہے تو یہ کھانا کھالینا چا ہئے یانہیں؟

بیوی کہتی ہے مجھے شوہر نے طلاق دی ہے اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے طلاق مانی جائے گی یا نہیں، عورت دوسرے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے
بیوی کہتی ہے مجھے شوہر نے طلاق دی ہے اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے طلاق مانی جائے گی یا نہیں، عورت دوسرے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے

الجواب:

اگر فی الواقع زید نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی اور اس کی بیوی طلاق کا جھوٹا دعوی کرتی ہے اور شوہر طلاق دینے سے انکار کرتا ہے تو ایسی صورت میں بغیر دو مرد عادل کی شہادت کے وقوع طلاق کا حکم نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس عورت کا دعوی قابل اعتبار قرار دیا جا سکے گا۔ لہذا قاضی کا طلاق کی بابت دوشہادتوں کا طلب کرنا بلاشبہ حق وصواب اور صحیح و درست ہے ۔ بغیر شہادت مذکورہ اس عورت کا دوسرے مرد سے نکاح کا ارادہ کرنا شرعا غلط و باطل موجب معصیت و گناہ ہے ۔ عمر کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے بیوی ملنے کی بناء پر جھوٹی گواہی دے ۔ نیز صرف ایک گواہی سے طلاق واقع ہونے کا شرعا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ جس قاضی نکاح خواں نے محض ایک شخص کی شہادت پر اطمینان کرکے نکاح پڑھا دیا وہ قاضی شرعا گنہگار و خطا کار ہے اور جھوٹی گواہی دینے والا بھی موجب عذاب وعتاب ہے ۔ چونکہ جھوٹی شہادت دینا گناہ کبیرہ ہے ۔ یہ نکاح بھی صحیح و جائز نہ ہوا۔ جولوگ دیدہ و دانستہ اس دوسرے نکاح میں شریک ہوۓ سب گنہگار ہوۓ ۔ سب اپنے اس گناہ سے توبہ کریں ۔ عمر کی یہ دعوت ہرگز ہرگز نہ کھائی جاۓ ۔ واللہ تعالى أعلم

Post a Comment

0 Comments