مسئله:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا نکاح ہندہ سے ہوا اور دونوں نابالغ تھے ۔ ہندہ کے باپ و دادا اور نانا بقید حیات ہیں ۔ باپ کی منشا نہیں تھی کہ ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ ہو، مگر نانا ہندہ کے ولی بنے اور انہوں نے نکاح کی اجازت دی ۔لیکن زید کا ولی کوئی نہیں تھا۔ زید کو جس شخص نے متبنی کیا تھا اس کا زید سے کوئی قرابت داری کا رشتہ نہیں ہے ۔ اس نے اپنے آپ کو زید کی ولایت کے لئے پیش کیا لیکن قاضی نے بروۓ شرع شریف تسلیم نہیں کی ۔ جب زید نے خود قبول کیا۔ قاضی نے اس وقت یہ کہہ دیا تھا کہ بوقت بلوغ زید سے اس کی قبولیت پھر سے کرالی جاۓ ۔ ہندہ نے جس وقت سے ہوش سنبھالا ہے اس نکاح سے متنفر ہے ۔اور سن بلوغ کو پہونچنے کے بعد سے تو بالکل قطعی انکار کرتی ہے ۔ لہذا ایسی صورت میں یہ نکاح صحیح ہوایانہیں؟
الجواب:
سوال کا یہ جملہ کہ '' لیکن زید کاولی کوئی نہیں تھا''۔ مبہم ہے اگر اس سے یہ مراد ہے کہ وقت نکاح زید نابالغ کا شرعا کوئی ولی مطلقا تھا ہی نہیں نہ مجلس نکاح میں ، نہ اس شہر یا قریہ میں جہاں نکاح ہوا نہ کسی اور دوسرے مقام پر تو یہ نکاح ابتداء ہی سے منعقد نہ ہوا، بلکہ نکاح باطل قرار پایا۔ درمختار ہاشمی ص ۳۸۷ میں ہے ۔
كـل تـصـرف صـدر مـنـه كـبـيـع و تزویج و طلاق وله مجيز أيمن يقدر على اجازته حال وقوعه انعقد موقوفاً ومالا مجيز له حالة العقد لا ينعقد اصلا ملخصا.
ہر وہ تصرف جو اس سے صادر ہوا جیسے بیع ، شادی اور طلاق ۔ حالت یہ ہے کہ اس کا کوئی اجازت دینے والا ہے یعنی اجازت دینے پر قدرت رکھتا ہے ۔ جس وقت وہ تصرف و عمل واقع ہوا تو یہ تصرف ولی کی اجازت پر موقوف ہوکر منعقد ہو جاۓ گا۔ اور حالت عقد میں جس تصرف کا کوئی اجازت دینے والا نہیں وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا۔ ردالمحتار میں بحرالرائق سے ہے ۔
انهم قالو كل عقد لامجيز له حال صدوره فهو باطل لا يتوقف.
ان حضرات نے کہا ہر وہ عقد جسکا اس کے صادر ہونے کی حالت میں کوئی جائز کرنے والانہیں وہ باطل ہے ۔ موقوف ہوکر بھی منعقد نہیں ہوگا۔
اور اگر اس جملہ سے یہ مراد ہے کہ وقت نکاح اس مجلس میں زید کا کوئی شرعا ولی نہ تھا لیکن فی الحقیقت زید کا شرعاً کوئی ولی مجلس نکاح کے علاوہ کسی مقام پر تھا تو یہ نکاح جانبین سے فضولی قرار پایا۔ چونکہ اگر زید نابالغ کا اس کے ولی کے ہوتے ہوۓ اس کو متبنی کرانے والے کی ولایت سے ہوا تو وہ متبنی کرنے والا شرعا زید کا ولی نہیں ۔ فتاوی عالمگیری مصری جلد اول ص ۲۶۶ میں ہے ۔
ولـو كـان الـصغير والصغيرة في حجر رجل يعولهما كالملتقط و نحوه فإنه لا يملك تزويجهما كذا فی فتاوی قاضی خان.
اگر کمسن بچہ یا بچی کو کسی نے گود لیا جو ان کی کفالت کررہا ہے گمشدہ چیز کی طرح ۔اسے ان کی شادی کرانے کا کوئی اختیار نہیں ۔ایسای فتاوی قاضی خان میں ہے ۔
خود زید نابالغ اپنے نفس پر قدرت نہیں رکھتا۔ لہذا قاضی نکاح خواں کی ولایت سے ہوا تو وہ فضولی تھا۔ اور جانب ہندہ میں اس کے باپ ولی اقرب کے ہوتے ہوۓ اس کے نانا ولی ابعد نے جو نکاح کرا دیا یہ نکاح بھی فضولی قرار پایا۔ درمختار ہاشمی ص ۱۶۷ میں ہے۔
فلو زوج الابعد حال قيام الأقرب توقف على اجازته.
اگر دور کے ولی نے قریب کے رہتے ہوۓ شادی کرادی تو یہ شادی ولی اقرب کی اجازت پر موقوف رہے گی ۔
بہر حال یہ نکاح جانبین سے فضولی قرار پایا۔ اس صورت میں زید و ہندہ کے بلوغ سے قبل اگر دونوں کے اولیاء نے نکاح کو جائز قرار دیدیا تھا تو بھی نکاح صحیح ہوا۔ اور اگر دونوں کے اولیاء نے یا صرف کسی ایک کے ولی نے نکاح کو رد کر دیاتھا تو یہ نکاح باطل ہوگیا۔ اور اگر دونوں کے اولیاء نے قبل بلوغ زید و ہندہ نہ نکاح کو جائز رکھا تھا نہ دونوں کے اولیاء نے یا کسی ایک کے ولی نے نکاح کو رد کیا تھا ۔ یہاں تک کہ دونوں خود بالغ ہو گئے ۔ تو اب یہ نکاح خود ان دونوں کے جائز رکھنے سے جائز وصحیح ہوگا ورنہ باطل وفاسد ۔ مجمع الانہر مصری ص۱۷۳ میں ہے ۔
(و وقف تزويج فضولي) من أحد الجانبين و هو من لم يكن وليا ولا أصيلا ولا وكيلاً (أو فضوليين على الاجازة) أي إجازة من له العقد بالقول، أو الفعل فان أجاز ينفذ وإلا لا.
ایک جانب سے فضولی ہو یا جانبین سے فضولی ہوں ،اگر وہ شادی کرادیں تو یہ شادی جائز کرنے پر موقوف رہے گی ۔ جسے قول یا فعل سے عقد کا اختیار ہے وہ اگر جائز کردے تو نکاح منعقد ہو جاۓ گا اگر جائز نہیں کیا تو نہیں منعقد ہوگا ۔
فضولی وہ ہے جو نہ اصیل ہو ، نہ ولی ہو ، نہ وکیل ہو ۔ واللہ تعالی اعلم
0 Comments