السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ایک مسئلہ ہےکہ نکاح میں دولہا دولہن دونوں کو یا صرف دولہا کو یا صرف دولہن کو دو یا تین ، یا ساتوں کلمے پڑھنا ضروری ہے اگر ضروری ہے تو واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے یا احسن ہے، یا ضروری نہیں ہے؟
بہرصورت مختصر، حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ دلہا، دلہن کو ایجاب و قبول کتنی مرتبہ کرانا چاہیے
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ...
دولہا دلہن دونوں کو کم از کم تینوں کلمے اور ایمان مجمل و مفصل پڑھادینا چاہیےکہ یہ بہتر،افضل و اولی اور ایک فعل حسن اور باعث نزول خیر و برکت بھی ہے البتہ پڑھانا کوئی واجب و ضروری اور فرض نہیں ہے ۔
![]() |
کیا دولہا ، دلہن کو کلمہ پڑھاناضروری ہے.ایجاب و قبول کتنی بار کرانا چاہیے |
یاد رہے کہ دولہا و دلہن کو کلمے اس لیے بھی پڑھادیا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کبھی دانستہ یا غیر دانستہ ان سے کوئی غلط فعل یا کفریہ کلمے صادر ہوگئے ہوں اور اس سے یہ آگاہ نہ ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں اکثر متناکحین کا نکاح ہی منعقد نہیں ہوتا اس لیے احتیاطاً متاخرین علماء محتاطین ایمان مجمل و مفصل کے مضمون کو دولہا و دلہن کے سامنے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تاکہ نکاح حالت اسلام میں منعقد ہوجائے ۔
البتہ کلمے پڑھائے جانے کو ضروری سمجھنا یا اس سے انکار کرنا یہ ضرور غلط ہے.
اعلی حضرت ، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
"نکاح میں خطبہ پڑھنا سنت ہے اور کلمے پڑھانا ایک اچھی بات ہے"۔(فتاویٰ رضویہ جلد ١١ ص: ٢۴٠)
اور فتاوی عزیزیہ ، ص:۵۴٢/ میں ہے:
"از روئے شریعت درمیان مومن و کافر نکاح منعقد نمی گردد و ظاہر ست کہ ازیشاں در حالت لا علمی یا از روئے سہو اکثر کلمۂ کفر صادر می گردد کہ ایشاں برآں متنبہ نمی شوند دریں صورت اکثر نکاح متناکحین منعقد نمی گردد و لہذا متاخرین علمائے محتاطین احتیاطا صفت ایمان مجمل و مفصل را بحضور متناکحین می گویند و می گویانند تا انعقاد نکاح بحالت اسلام واقع شود"۔
ترجمہ:شریعت مطہرہ کے قانون کے مطابق مومن و کافر کے درمیان نکاح منعقد نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ دولہا و دولہن سے لا علمی کی حالت میں یا بھول سے اکثر کلمۂ کفر صادر ہو جاتا ہے جس سے وہ آگاہ نہیں ہوتے اس صورت میں اکثر متناکحین کا نکاح منعقد نہیں ہوتا اس لئے احتیاطاً متاخرین علماء محتاطین ایمان مجمل و مفصل کے مضمون کو دولہا و دولہن کے سامنے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تاکہ نکاح حالت اسلام میں منعقد ہو جائے۔
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ فتاوی برکاتیہ ، ص: ١٣٨/ میں فرماتے ہیں :
"نکاح سے پہلے دولہا دلہن کو کلمہ پڑھانا ضروری نہیں مگر دولہا یا دلہن کو اس کے پڑھنے سے انکار کرنا غلط ہے کہ اس کو پڑھنا باعث برکت اور نزول رحمت کا سبب بھی ہے " اسی لیےحدیث شریف میں ہے:
"لقنوا موتکم لاالٰہ الا اللہ" یعنی اپنے مردوں کو " لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ" کی تلقین کرو اور بوقت نکاح کلمۂ طیبہ پڑھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مومن اور کافر کا نکاح نہیں ہوتا۔ تو اگر لاعلمی میں دولہا یا دلہن کسی سے کفر سرزد ہوا ہوگا تو نکا ح ہی نہیں ہوگا اور زندگی بھر حرام کاری ہوتی رہے گی اسی لیے علمائے کرام نے دولہا اور دلہن کو نکاح سے پہلے کلمہ پڑھانا جاری فرمایا"۔
فتاوی فقیہ ملت ، جلد اول ، کتاب النکاح ، ص: ٧١ میں مفتی اظہار احمد نظامی نکاح پڑھانے کا صحیح طریقہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
"دلہن اگر بالغ ہو تو نکاح پڑھانے والا دلہن سے ورنہ اسکے ولی سے اجازت لے ۔۔۔دولہا کو کلمہ شریف اور ایمان مجمل اور ایمان مفصل پڑھائے تو بہتر ہے۔اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے فقیہ ملت علیہ الرحمہ الجواب صحیح لکھا ہے۔
پس ان عبارات مذکورہ سے اچھی طرح یہ معلوم ہوگیا کہ وقت نکاح دولہا و دلہن کو کلمہ شریف پڑھانا یہ ایک جاںٔز اور مستحسن فعل ہے کوئی واجب وفرض نہیں۔
اب رہی بات یہ کہ دولہا دلہن کو ایجاب و قبول کتنی بار کرانا چاہیے؟
تو اس کا جواب یہ ہےکہ ایک بار اتنی بلند آواز سے ایجاب وقبول کرالینا کہ گواہان سن لیں کافی ہے کہ دستور کے مطابق ایک بار ہی ایجاب وقبول کرنے سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے، مگر دو یا تین بار تاکید یا تشفی قلب کے لیے دہراتے ہیں تاکہ کوئی مغالطہ نہ رہے۔
دو یا تین بارایجاب و قبول کرانا کوئی ضروری نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ و رسولہ المجتبی اعلم بالصواب
کتبہ:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
0 Comments