سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کی موجودگی میں ہندہ کی سگی بہن خالدہ سے زنا کیا اور زنا زید ہی سے ثابت ہو گئی تو استفسار کے بعد عمر نے فتویٰ دیا کہ زید کی بیوی ہندہ زید پر حرام ہوگئی اور نکاح باطل ہو گیا اور ہندہ کو زید سے علیحدہ کرانے کے لئے کوشش ہے عمر دور حاضرہ کے قاضی مفتی ہیں۔ زید پھر اسی فتویٰ کو لے کر دوسرے مفتی خالد کے پاس پہونچے تو خالد نے فتویٰ دیا کہ زید نے ہندہ کی موجودگی میں خالدہ سے جو زنا کیا تو زید پر حد زنا ثابت ہوتا ہے۔ نکاح باطل نہیں ہوتا ان دونوں مفتیوں یعنی عمر اور خالد میں کس کا فتویٰ صحیح ہے؟ بحوالہ کتب جواب عنایت فرمائیں۔ کچھ لوگ خالد کے فتویٰ کی تصدیق کرتے ہیں جب لوگ خالد کے فتویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے عمر سے کہا کہ آپ اس طرح فتویٰ کیوں دئے آپ کے پاس کیا ثبوت ہے تو عمر (وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْن ) کی دلیل ظاہر کرتے ہیں پھر کہتا ہے کہ دور حاضرہ کے لئے تقریر ضروری ہے۔ اب اگر واقعی مفتی عمر کا فتویٰ غلاط ہوتا ہے تو عمر پر از روئے شرع کیا حکم عائد ہوتا ہے؟ بحوالہ کتب عنایت فرمائیں۔
الجواب:
ظاہر ہے کہ عمر کا یہ فتوی صحیح نہیں ہے بلکہ غلط ہے۔ سالی سے زنا کرنا بیوی کو نکاح سے خارج نہیں کرتا نہ بیوی کو شوہر کے حق میں ہمیشہ کے لئے حرام بتاتا ہے ۔ قول رب العزت (وَ اَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ) [النساء: ۲۳] كايه مدعا نہیں ہے جو عمر نے سمجھا ہے بلکہ اس کا مدعا یہ ہے کہ دو بہنوں کو جمع کرنا نکاحا و عدۃ و ملكاً حرام ہے یعنی نکاح دونوں سے کر کے وطی و مباشرت کرنا یا ایک بہن اس کی طلاق سے عدت گزار رہی ہو تو عدت گزارنے کے زمانے میں اس کی دوسری بہن سے نکاح کرکے وطی و مباشرت کرنا یا دونوں کو خرید کر یا ایک کو خرید کر دوسرے سے نکاح کر کے دونوں سے وطی و مباشرت کرنا حرام و ناجائز ہے۔ آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی دوسری بہن سے زنا کرنے سے منکوحہ بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی اور نکاح باطل ہو جائے گا۔ در مختار جلد ثانی ص ۲۸۱ میں ہے۔
وفي الخلاصة وطى اخت امرأته لا تحرم عليه امرأته.
فتاوی خلاصہ میں ہے بیوی کی بہن سے وطی کی تو شوہر پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔
شامی میں ہے۔
(قوله لا تحرم) أى لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة موبدة، والا فتحرم الى انقضاءعدة الموطوءة لو بشبهة.
( ان کا قول حرام نہیں ہوگی ) یعنی حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی ۔ مطلب یہ ہے کہ حرمت ابدیہ ثابت نہیں ہوگی ورنہ شبہ کی وجہ سے موطوءہ عورت کی عدت گزر جانے تک تو ولی حرام ہوگی ہی۔
عمر غلط فتویٰ دے کر گنہگار ہوا وہ اپنے گناہ سے تو بہ کرے۔ واللہ تعالی اعلم
کتبہ... مفتی حبیب اللہ اشرفی نعیمی رحمہ اللہ
0 Comments