جس شخص کے پیر کی تین انگلیاں کٹی ہوئی ہو اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب!

ایک مسئلہ کا جواب تحریر میں دیجیےمسئلہ یہ ہے کہ ایک ہمارے گاؤں میں امام صاحب ہے ان کو شوگر ہونے کی وجہ سے ان کی پیر کے چھوٹی انگلی کی طرف دو انگلی کٹ گئی ہیں تو اب بچی انگلیاں تین اب ان تین اگلیوں میں سے انگوٹھے کے بعد کی جو انگلی ہے وہ بھی کٹ گئی ہے اس کے بعد تیسری انگلی ہے تو سجدے کی حالت میں امام کی صرف دو ہی انگلی لگتی ہیں ۔ تو کیا ایسی صورت میں وہ امام صاحب نماز پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟تو آپ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔

زیدنےاس کو مسئلہ یہ بتایا تھا کہ سجدے کی حالت میں ایک انگلی کا لگنا فرض ہے تین انگلی کا لگنا واجب اورپورے انگلیوں کا لگنا سنت ہے ۔ تو اب ان کی تو تین انگلی زمین پر لگتی ہی نہیں ہیں دو ہی لگتی ہیں انگوٹھا تو اب ایسی حالت میں وہ نماز پڑھا سکتا ہے کہ نہیں ؟ زید نے کہا تھا کہ آپ نماز نہیں پڑھا سکتے ہیں کیوں کہ آپ کا واجب چھوٹ جا رہا ہے۔ تو آپ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔


الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق قالصواب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

مسئولہ امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی۔

ہاں اگر اکثر نمازی حضرات اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کراہت محسوس کر رہے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ کسی دوسرے لائق وفائق سالم الاعضاء شخص کو امام بنایا جائے ۔لیکن یہ کسی دوسرے کو امام بنانا کوئی واجب و ضروری نہیں ہے صرف اولی ہے۔ اور اگر سب نمازیوں میں سب سے زیادہ (یہی انگلی کٹا ہوا امام صاحب ہی) علم وتقوی رکھتا ہے تو پھر ایسی صورت میں اسی کو امام بنانا افضل و اولی ہے۔فتاوی شامی جلد اول، ص ۵٦٢ / میں ہے:

"وكذلك أعرج يقوم ببعض قدمه فالاقتداء بغيره أولى، تاتارخانية. وكذا أجذم، بيرجندي . ومجبوب وحاقن ومن له يد واحدة، فتاوى الصوفية عن التحفة. و الظاهر أنّ العلة النفرة، ولذا قيد الأبرص بالشيوع؛ ليكون ظاهرًا، ولعدم إمكان إكمال الطهارة أيضًا في المفلوج و الأقطع والمجبوب".

ترجمہ:اور اسی طرح پاؤں کے بعض حصے پر کھڑے ہونے والے لنگڑے شخص کے علاوہ دوسرے کی اقتدا بہتر ہے ،بحوالہ :’’تاتارخانیہ‘‘،یہی حکم ہاتھ کٹے کا ہے ،’’برجندی‘‘۔اور (یہی حکم اس کا ہے) جس کا ذکر کٹا ہوا ہو ، پیشاب روکنے والا اور جس کا ایک ہاتھ ہو ، اُن کی اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی ہے ، ’’فتاوی الصوفیہ عن التحفہ‘‘۔ ظاھر ہے کہ علت نفرت ہے ، اسی لیے برص والے کو برص کے پھیلنے سے مُقیّد کیا ہے تاکہ وہ ظاھر ہو اور مفلوج ،ہاتھ کٹے ہوئے اور ذکر کٹے ہوئے کی اقتدا اس لیے مکروہ ہے کہ ممکن ہے وہ مکمل طہارت نہ کرسکتا ہو۔

فتاوی عالمگیری جلد اول ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح اماما لغیرہ ، ص: ٨۵/ میں ہے:

"ولو کان القدم الامام عوج و قام علی بعضھا یجوز و غیر اولی کذا فی التبیین

ترجمہ : اگر امام کے پیر میں ٹیڑھا پن (ایسا نقص ہو)کہ پورا پاؤں زمین پر نہیں جما سکتا، تب بھی اس کی امامت جائز ہے ، مگر (اس کے مقابلے میں)غیر معذور کی امامت بہتر ہے"۔

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا:

’’ایک شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے ،اس بنا پر تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت اس کا ہاتھ کانوں تک نہیں پہنچتا اور کانوں کی لَو سے مَس نہیں ہوتا ،اس بنا پر بعض لوگ اُس کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے انکار کرتے ہیں ،کیا اس شخص کی اقتدا میں نماز نہیں ہوتی ’’خلاصہ‘‘، آپ نے جواب میں لکھا: ’’خیال مذکور غلط ہے ،اُس کے پیچھے جوازِ نماز میں کلام نہیں ،ہاں !غایت یہ ہے کہ اس کا غیر اَولیٰ ہونا ہے ،وہ بھی اس حالت میں کہ یہ شخص تمام حاضرین سے علم مسائلِ نماز وطہارت میں زیادت نہ رکھتا ہو ورنہ یہی اَحقّ و اَولیٰ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد ٦، ص: ۴۵٠)‘‘۔

یعنی دوسروں کے مقابلے میں علمی تَفوُّق کی بنا پر یہی شخص امامت کا زیادہ حق دار ہے اوراس کا امام بنانا اَولیٰ و بہتر ہے ۔

مفتی پاکستان حضرت علامہ وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا:ایک آدمی جس کے دونوں پاؤں کی انگلیاں نہیں ہیں، کیا وہ ان لوگوں کی امامت کرسکتا ہے؟،جن کے دونوں پاؤں درست ہوں ، آپ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’شریعت میں نماز کے احکام میں معذور اس کو کہتے ہیں، جس میں وضو توڑنے والی کوئی بات پائی جائے ، اس طرح کہ وہ وضو کرکے نماز پڑھنے کا وقت بھی نہ پاسکے کہ وضو ٹوٹ جائے ، مثلاً بار بار پیشاب کے قطروں کا آنا ، ہر وقت ریح کا خارج ہونا یا بدن سے خون یا پیپ کا بہتے رہنا ، اس کا حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے غیر معذور کی یا اس سے کم عذر والے کی نماز نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں لکھا ہے۔ پیر کی انگلیاں کٹی ہونے کی وجہ سے اس قسم کا معذور نہیں ہے، وہ اپنے قدم زمین پر لگاکر نماز پڑھے گا تو اس کی نماز بھی ہوجائے گی اور اس کی امامت بھی صحیح ہے۔ انگلی موڑنے کا حکم اس کے لیے ہے، جس کے پیر میں انگلی ہو اور جس کے پاؤں میں انگلی ہی نہیں ہے ، اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے ۔

(وقارالفتاویٰ ، جلد دوم ، ص:١٧٩/ مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)‘‘۔

لہٰذا سوال میں مذکور امام صاحب کی اقتدا میں نماز جائز ہے اور یہ امامت کے لائق ہیں، نیز کسی کی جسمانی ساخت میں پیدائشی نقص ہو یا کسی حادثے کے نتیجے میں نقص پیدا ہوگیا ہو ، اس پر اسے ملامت نہیں کرنا چاہیے ، یہ قدرت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے ۔

البتہ اگر یہ محسوس ہوکہ لوگ کراہت محسوس کرتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اسے مستقل امام مقرر نہ کریں ،مگر لوگوں کو بھی چاہیے کہ اپنے ذوق کو شریعت کے تابع رکھیں ۔

پس اب انھیں عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ زید نے امام صاحب پر جو فتوی لگایا ہے وہ غلط ہے زید کو امام صاحب پر فتوی لگانے سے پہلے کسی عالم سے مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے تھا ۔ لہذا زید امام صاحب سے معافی مانگے اور زید نے جتنے لوگوں کے سامنے سامنے یہ مسئلہ بیان کیا ہے ان سب کے سامنے توبہ اور رجوع کرے کیوں کہ

حدیث پاک میں آیا ہے:

"توبة السر بالسر وتوبة العلانیة بالعلانیة"۔ یعنی پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ اور علانیہ گناہ کی توبہ علانیہ ہے۔ اور اور زید لوگوں سے کہے کہ میں نے جو مسئلہ بتایا تھا وہ غلط ہے صحیح یہ ہے کہ امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔

حدیش شریف میں ہے:

عن ابی ھریرة قال:  قال رسولﷺ من افتی بغیر علم کان اثمہ علی من افتاہ ۔ یعنی جس شخص کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا ہو اس کا گناہ اس شخص (مفتی) پر ہوگا جس نے اس کو (غلط ) فتوی دیا ہے۔ رواہ امام احمد وابوداود)

ملاعلی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:

"یعنی کل جاھل سال عالما عن مسئلة فافتاہ العالم بجواب باطل فعمل السائل بھا و لم یعلم بطلانھا فاثمہ علی المفتی ان قصر فی اجتھادہ ۔ یعنی کوئی جاہل اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کرے اور وہ عالم غلط جواب دے پس سوال کرنے والا اس غلط جواب پر اپنی عدم واقفیت کی وجہ سے عمل کرے تو اس کا گناہ اور وبال مفتی پر ہے اگر اس کی طرف سے صحیح جواب کی تلاش میں کوتاہی ہوئی ہے۔

اور ایک دوسری حدیث میں ہے:

قال رسول ﷺ اجروکم علی الفتوی اجروکم علی النار ۔

یعنی تم میں بغیر علم فتوی دینے پر جو زیادہ جری ہے وہ دوزخ کی آگ پر زیادہ جرات کرنے والا ہے۔

اور ایک تیسری حدیث میں ہے:

من افتی الناس بغیر علم لعنتہ ملائکة السمآء وملائکة الارض

یعنی: جو بغیر علم کے لوگوں پر فتوی لگاتا ہے اس پر آسمان فرشتے  اور زمین کے فرشتے دونوں لعنت بھیجتے ہیں۔

امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: "من افتی الناس بغیر علم ولا ھدیٙٙ لٙعٙنٙتْہُ ملائکة الرحمة وملائکة العذاب ولحقہ وِزْرُ من عمل بِفُتیاہُ"۔ ہر کس بدون علم وہدایت بہ مردم فتوی دہد فرشتگان رحمت وفرشتگان عذاب بر او لعنت فرستند وگناہ آن کہ بہ فتوی او عمل کند دامن گیرش شود"۔

حضرت سعید بن سحنون کا بیان ہے کہ اجراء الناس علی الفتیا اقلھم علما ۔ یعنی فتوی دینے میں سب سے زیادہ جرات اس کے پاس ہوتی ہے جس کے پاس سب سے کم علم ہوتا ہے۔ ان ساری احادیث و فرامین سے زید سبق حاصل کرے اور آئندہ بلا تحقیق کسی کو کوئی بتانے سے پہلے خوب اچھی طرح سے غور و خوض کرلے یا پھر کسی معتمد عالم یا مفتی سے رابطہ کرے۔ فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب ۔

کتبہ : محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments