حضرت علی بن ابی طالب کا مختصر تعارف

13 رجب المرجب جشن ولادت باسعادت

شمع شبستان ولایت, بہار چمنستان معرفت، امیر المومنین،خلیفۃالمسلمین،سیدالعارفین،أبوالأئمۃ الطاہرین، اسد اللہ الغالب، مظہر العجائب، قاسم ولایت، امام المشارق والمغارب،فاتح خیبر، حیدر کرار، صاحب ذوالفقار، شیریزداں، شاہ مرداں، مشکل کُشا، مولائے کائنات سیدنا ابوالحسن علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم

مدحِ علی سنائیے بچوں کو رات دِن

نسخہ بتا رہا ہوں ذہانت کے واسطے

تعارف:

آپ کا اسم گرامی: علی، لقب حیدر ومرتضیٰ، کنیت ابوالحسن اور ابو تراب ہے۔  آپ نجیب الطرفین ہاشمی ہیں۔

ولادت طیبہ: عرب کے قبائل طواف کعبہ میں لگے ہوئے تھے ان میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں آثار ولادت پیدا ہوگئے دردزہ شروع ہوا۔ کعبتہ اللہ شریف کی دیوار پھٹ گئی آواز آئی:"اے فاطمہ کعبہ کے اندر آجا"اندر چلی گئیں وہیں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اسی لئے آپ کو مولود کعبه کہا جاتا ہے۔

(حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بحوالہ مدارج النبوت)

آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم ﷺ کے دیدار کا شرف حاصل کیا۔

آپ کی سب سے پہلی خوراک شہد سے زیادہ شیریں اور دنیا کی تمام غذاؤں سے بہتر سرکار ابد قرار ﷺ کا لعاب دہن پاک ہے۔ آپ نے سب سے پہلے سرکار ابدقرار ﷺ کے زبان اقدس کو چوما اور سکون سے سوگئے۔

مولائے کائنات کی شخصیت: آپ کی ذات اقدس تاریخِ اسلام کی وہ عظیم ہستی ہے جن کے علّو مرتبت، رِفعت وعظمت اور عقیدت ومحبت میں ہر اہلِ ایمان رطب اللسان ہے۔ آپ کا مقام و مرتبہ اہل سنت کے نزدیک مسلّم ہے۔

آپ نے حضور نبی کریم ﷺ کے زیر سایہ پرورش پائی، جس کا اثر آپ کی شخصیت پر نمایاں تھا۔ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے، لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا علمی میدان میں بھی اصحاب رسول ﷺ میں بلند مقام کے حامل تھے۔ اللہ رب العزت! نے فضائل ومناقب کا ایک تفصیلی باب آپ رضی اللہ عنہ کے حصے میں رکھا، جس کا تذکرہ احادیث مبارکہ اور کتب سیر و تواریخ میں رقم کیا گیا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت روحانی، رعنائی اور اخلاقی زیبائی کا پیکر نبیل، صبر ورضا کا مجسمہ, فقر واستغنا کا نمونہ, علم وحکمت کا مرقع، عفت وعصمت کا منبع، اخلاص ووفا کا سراپا اور شجاعت کا معیار تھی۔

صائب نظری، صالح فکری اور راست گوئی آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا حصہ تھیں، آپ قلب و نظر کی بصیرتوں اور سیرت و کردار کی رفعتوں کے حامل ہیں۔ آپ مظہر صدق و صفا، منبع جودوسخا، پیکر حلم و حیا اور داماد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ صبر و رضا اور فقر وغنا میں شان امتیازی کے مالک ہیں۔

آپ تمام کمالات وصفات کے جامع ہیں۔ آپ تمام علوم میں اپنی نظیر آپ ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ حضور اکرم ﷺ نے آپ کی شان میں فرمایا: *"انا مدینتہ العلم وعلیّ بابھا"* یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔

معلوم ہوا کہ تمام علم کا ظہور اسی باب علی سے ہوا ہے پھر وہ تمام علوم دنیا کے ادبا, عقلا, حکما, علما, عرفا, اولیا, اقطاب, اغیاث تک پہونچے اور ان شاء اللہ پہونچتے رہینگے۔ آپ شریعت وطریقت دونوں کے امام ہیں۔

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ترجمہ:’’جس کا میں دوست اور مقرب ہوں اُس کے علی بھی دوست اور پیارے ہیں، اےاللہ عزوجل! جو علی سے محبت رکھے تو اُس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اُس سے دشمنی رکھ۔"(مشکوۃ شریف)

اورصحیح حدیث میں ہے کہ سرکارِ دوعالَمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:"علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مومن کے ولی ہیں۔" (ترمذی شریف)

حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا کہ:"تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو  جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے، مگر بات یہ ہےکہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔"(بخاری ومسلم)

ان ارشادات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مولائے کائنات کی شخصیت وہ ہے جو ایمان کی کسوٹی ہے۔ مومن کی پہچان ہی علی کی محبت ہے اور منافق کی پہچان علی کا بُغض ہے۔ یہ مرتبت کا وہ کمال ہے جو ذاتِ مولیٰ علی کو بارگاہِ نبوی ﷺ سے ملا اور رہتی دنیا تک کے لئے قانون بن گیا۔

خوش ہوکے اپنے سَر کو اٹھاکے جِیا کرے

جامِ وِلائےآلِ محمدﷺ پیا کرے

نام علی سے جس کے دِل کو ملے سکون

ہر لمحہ اپنی ماں کو سلامی دیا کرے

شان اقدس میں 800 آیات کا نزول:

صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ آپ کی شان میں (800) آیات مبارکہ نازل ہوئیں,  جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام ابن عساکر کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شان میں آٹھ سو (800) آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں۔(تاریخ الخلفاء)

شجاعت وبہادری: اللہ تعالی نے آپ کو شجاعت و بہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا، میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجواں افراد کے لئے ایک نمونہ تھی، غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق کیا کہنا اللہ اکبر! قلعہ خیبر کے اس دروازہ کو تن تنہا اکھاڑ لیا جسے 40 افراد بھی اپنی جگہ سے ہٹا نہ پائے۔

خصوصی التجا: خوب خوب ایصال ثواب کا اہتمام کریں اور دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہوں۔ اللہ رب العزت! حضرات حسنین کریمین کے صدقے وطفیل ہمیں مولائے کائنات علیہم السلام کا صدقہ عطا فرمائے ۔آمین بجاہ سید المرسلین

✍🏻 اسیر اشرف الاولیا

محمد ساجد حسین اشرفی سہرساوی

Post a Comment

0 Comments