فتح مکہ کے دن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کریمی

ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ مسلمان ہوگئے-

فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الہی میں پہلا دربار عام منعقد فرمایا اور اس میں دو خطبے ارشاد فرمایا بعدہ بیعت اسلام کاسلسلہ شروع ہوا-کوہ صفا کے دامن میں ایک اونچی جگہ پر آپ تشریف فرما ہوئے اور لوگ جوق در جوق آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے - مردوں کی بیعت ختم ہونے کے بعد عورتوں کی باری آئی - انہیں عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت لینے کے لئے آئیں جو حضرت ابو سفیان کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ کی والدہ ہیں -

یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا شکم چاک کرکے ان کا جگر نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان، ناک کو کاٹ کر اور آنکھ کو نکال کر ایک دھاگے میں پرو کر گلے کا ہار بنا لیا تھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر صدمہ پہنچا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت وحشی جنہوں نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا جب وہ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ وحشی ! تم میرے سامنے نہ آ یا کرو-

بہر حال وہی ہند بنت عتبہ جب بیعت لینے کے لئے آئیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی - ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے -

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا -

ہند بنت عتبہ: یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا - لیکن بہرحال ہم کو منظور ہے -

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : چوری مت کرنا -

ہند بنت عتبہ : میں اپنے شوہر ( ابو سفیان ) کے مال میں سے کچھ لے لیا کرتی ہوں معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں -

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا -

ہند بنت عتبہ: ہم نے تو بچوں کو پالا اور جب وہ بڑے ہوگئے تو آپ نے جنگ بدر میں ان کو مار ڈالا - اب آپ جانے اور وہ جانے- ( طبری )

نوٹ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا - صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے -( بخاری)

بہر حال حضرت ابو سفیان اور ان کی بیوی دونوں مسلمان ہوگئے اور ان کا ایمان پختہ ہوگیا تھا اور ایمان ہی پر دونوں کا خاتمہ ہوا - لہذا ان کے بارے میں بد گمانی یا ان کی شان میں بد زبانی روافض کا طریقہ ہے - اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان کا شمار صحابہ و صحابیات کی فہرست میں  ہے - رضی اللہ عنھما -

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ بارگاہ نبوت میں آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! روۓ زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا ، مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روۓ زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا عزت دار ہونا مجھےپسند نہیں(بخاری)

کٹر دشمن رسول ابوجہل کا بیٹا عکرمہ- امیہ بن خلف کا فرزند صفوان - کعب بن زہیر - وحشی - یہ سب بھی رسول اکرم اور اسلام کے سخت دشمن تھے اور مکہ سے فرار ہوکر مختلف مقامات کی طرف چلے گئے تھے مگر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحیمی و کریمی، عفو و درگزر اور اخلاق حسنہ کی داستان سن کر واپس مکہ آئے اور ہمیشہ کے لیے  دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے- رضی اللہ عنہم ( موطا امام مالک ، مدارج النبوۃ )

تفصیل آئندہ ان شاءاللہ عزوجل -

عبد الخالق اشرفی راج محلی

صدرالمدرسین جامع اشرف درگاہ رسول پور، کچھوچھہ، یوپی

Post a Comment

0 Comments