مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی نے اپنے ایک صحافتی بیان میں کہا کہ خوشبوئے کائنات کے دل کی کلی اور جنتی خواتین کی سردار معززہ و مکرمہ سیدۃ نساء العالمین فاطمہ الزہراؓ کو اللہ تعالی نے بے شمار مکارم اخلاق و فضائل اور کمالات و افتخارات سے سرفراز فرماکر بالخصوص اسلامی خواتین اور بالعموم عالم نسوانیت کے لیے اخلاقی و معنوی حوالے سے جامع و مکمل نمونہ بنایا ہے۔ کیوں نہ ہو آپ ؓ اٹھنے بیٹھنے ،چال ڈھال، عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخواست، ظاہری و باطنی اوصاف مرضیہ اور انداز گفتگو میں سرور کائنات فخر موجوداتؐ سے نہ صرف بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں بلکہ سیرت مصطفیؓ کا عکس جمیل تھیں۔ جگر گوشہ رسول کریمؐ بی بی فاطمہؓ کو یہ منفرد مقام و مرتبہ بھی حاصل ہے کہ آپ کے والد ماجد آفتاب نبوت ہیں، آپ کے خاوند ماہتابِ ولایت ہیں، آپ کی والدہ ماجدہؓ مادر ملت اسلامیہ ہے، آپ کی اولاد نوجوانان جنت کے سردار اور تمام صحابہ کرام کی اولاد میں افضل و اعلی ہیں۔ اتنے عظیم اعزازات و انعامات پانے کے باوجود آپؓ نے زندگی کے ہر محاذ پر مجاہدانہ زندگی بسر کی ہے جو ان خواتین کے لیے نمونہ عمل ہے جو حالات زندگی کی سنگینی سے گھبراکر دنیا و آخرت خراب کرلیتی ہیں۔ ایک دور تھا جب مسلم معاشرہ تعلیمی پسماندگی کے باعث مصائب و مشکلات کا شکار تھا لیکن اب بعض مسلم گھرانوں کے تعلیمی قابلیت و لیاقت پر نازاں ہونے کے باعث مسلم معاشرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایک دور تھا جب ازدواجی زندگی میں تلخیاں اور دوریاں جہالت کی وجہ سے آتی تھیں اور رشتہ ازدواج خلع یا طلاق کی نذر ہوجایا کرتا تھا جبکہ آج حالات مختلف ہیں آج خلع اور طلاق کی شرح ان عاقدین میں زیادہ ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ بعض تعلیم یافتہ خواتین کو اپنے تعلیمی صداقتناموں پر ناز ہے تو بعض کو اپنی ملازمت پر فخر ہے، تو بعض اپنی صلاحیتوں پر شاداں و فرحاں ہے تو بعض اپنے عہدے و منصب پر مفتحر نظر آتی ہیں۔ کاش ہم اعلی تعلیمی ڈگریاں اور مناصب حاصل کرنے کے ساتھ سیرت شہزادی کونین فاطمہ الزہراؓ کا مطالعہ کیا ہوتا اور اسے اپنے لیے حرز جاں بنایا ہوتا تو مسلم معاشرے میں عرش کو ہلادینے والے واقعات وقوع پذیر ہی نہ ہوتے۔ آج بعض مسلم تعلیم یافتہ خواتین ایسی بھی ہیں جو گھر گرہستی کے کام کرنے کو عار سمجھتی ہیں جس کی وجہ سے گھر والوں کے درمیان ہمیشہ کشمکش کی صورتحال بنی رہتی ہے اور گھر کا سکون و چین برباد ہورہا ہے جبکہ سیدہ دو عالمؓ اپنے گھر کے کام کاج کرنے کے ساتھ ہر آن مخلوق خدا کی خدمت پر کمربستہ رہتی تھیں، ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتی تھیں اور ان کے حق میں ہمیشہ دعاگو رہتیں تاکہ لوگوں میں پیار و محبت کا رشتہ ہمیشہ مضبوط و مستحکم رہے۔ جب مخدوم کائنات ؓنے گھریلو امور کی انجام دہی میں ہونے والی تھکاوٹ کے باعث سرور کونینؐ سے باندی طلب فرمائی تو رسول انسانیت نے تسبیح کا تحفہ عطا فرمایا جو تسبیح فاطمہ کے نام سے معروف ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ذکر الٰہی میں وہ برکت ہے جس کے فیضان سے انسان کی جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ظاہری پریشانیاں بھی دور ہوجاتی ہیں۔ آپؓ کے کردار میں عاجزی و انکساری بے مثل و بے نظیر تھی۔ آپ کی پوری حیات زہد و تقوی سے عبارت تھی۔ دنیاوی مال و متاع اور عیش و عشرت کو آپؓ نے کبھی خاطر میں نہیں لایا بلکہ رب کی رضا کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح و فوقیت دی۔ سورۃ الدھر کی آیت نمبر 8 کا شان نزول بیان کرتے ہوئے علماء کرام نے رقمطراز ہیں کہ ایک دفعہ حسنین کریمینؓ کی طبیعت ناساز تھی تو حضورؐ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے ساتھ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ کسی نے حضرت علیؓ کو یہ تجویز دی کہ آپ نذر مانیں کہ اللہ تعالی آپ کے صحابزادگان کو شفا عطا فرمائے۔ حضرت علیؓ نے تین روزے رکھنے کی نذر مانی۔ اسی طرح عابدہ و زاہدہ سیدہ کائناتؓ اور آپ کی کنیز فضہ نے بھی تین روزے رکھنے کی منت مانی۔ اللہ تعالی حضرات حسنین کریمین کو شفا بخشی۔ حضرت علی اور آپ کے اہل خانہ نے نذر پوری کرنے کی غرض سے روزہ رکھا۔ افطار کے لیے گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ حضرت علیؓ نے شمعون یہودی کے پاس سے تین صاع جو بطور قرض یا بعوض اجر لے آئے۔ طاہرہ و ذاکیہ فاطمہ الزہراؓ نے روٹیاں پکائیں عین افطار کے وقت ایک سائل دروازے پر دستک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسکین اور بھوکا ہوں آپ نے تمام روٹیاں اس سائل کو دے دی۔ دوسرے روز بھی افطار کے وقت دروازے پر دستک ہوئی سائل نے کہا میں یتیم اور بھوکا ہوں آپ نے ساری غذا سائل کے حوالے کردی۔ تیسرے روز بھی افطار کے وقت ایک سائل نے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ میں اسیر اور بھوکا ہوں۔ آپ نے سارا کھانا سائل کو دے دیا۔ مسلسل تین دن اور رات کے فاقے کی وجہ سے حسنین کریمین انتہائی نحیف و کمزور ہوچکے تھے۔ فرطِ نقاہت سے سیدہ کائنات بھی سمٹی پڑی تھی۔ سرور کونینؐ یہ منظر دیکھ کر سخت غمگین اور پریشان ہوگئے تب رب ذوالجلال نے یہ آیت پاک نازل فرمائی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ کائناتؓ کے پورے گھرانے نے پانی سے افطار کرنے پر اکتفا کیا اور محتاجوں کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ آج کی مسلم معاشرے میں اکثر خواتین ایسی ہیں جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتی ہیں۔ اسی کی نحوست ہے کہ جہیز کی لعنت ہر سو عام ہے، گھریلو تشدد میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، طلاق و خلع کی شرح میں روز افزوں بڑھوتری ہورہی ہے، ارتداد کی لعنت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اگر مسلم خواتین مرکز محبت و عقیدت اور تعظیم و احترام سیدہ فاطمہؓ کی زندگی کے مذکورہ بالا واقعہ کے مطابق اپنی زندگی گزارنا شروع کردیں تو اس کے مثبت اثرات سماج اور معاشرہ پر پڑیں گے۔ اس طرح نہ صرف وہ روزہ کے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوں گی بلکہ عملی طور پر تبلیغ اسلام کا کام احسن طریقہ سے انجام دینے کا اجر و ثواب بھی پائیں گی۔ بعض مسلم خواتین حسن و جمال کے نشہ میں بے پردگی کے تمام حدود کو پھلانگ رہی ہیں اور دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے غیرت و شرافت اور شرم و حیا چھوڑ کر سوشیل میڈیا پر اپنی نمائش کرکے بے غیرتی و بے حیائی کا مظاہرہ کررہی ہیں جبکہ انہیں یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ سیدہ فاطمہؓ چودھویں رات کے چاند کی مانند حسین و جمیل تھیں لیکن اس کے باوجود وہ عفت و ناموس کی مینارہ نور تھیں۔ آپؐ نے وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔ ام المومنین سیدتنا بی بی عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ بروز محشر ایک ندا دینے والا آواز دے گا اپنی نگاہیں جھکالو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفیؐ گزر جائیں۔ عالم نسوانیت کو چاہیے کہ فلمی ستاروں کو اپنا رول ماڈل بنانے کے بجائے عفت و عصمت کی پاسداری میں سیدہ فاطمہ کا مثالی کردار اور اعلی ترین نمونہ اپنائیں جو ہر سعادت کا ضامن ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’فاطمہؓ کی طرح پرہیزگار، پردہ دار بنو تاکہ گود میں شبیر نامدار امام حسینؓ جیسی اولاد دیکھو‘‘۔ مغربی ذہنیت اور یوروپی طرز زندگی جس نے خواتین کو صرف حصول لذت کا ذریعہ سمجھا تھا دین اسلام نے اسی خاتون کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی۔ ایسی باوقار اور باعزت مسلم خواتین کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کرنے اور انہیں دوبارہ بازار کی زینت بنانے کے لیے آج بھی مغرب، مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے والے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں منجملہ ان میں ارتداد، بین المذاہب شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اورحجاب بھی شامل ہے۔ مسلم خواتین کے مرتد ہونے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلم بچیاں جہیز کی لعنت سے تنگ آکر یہ غیر اسلامی قدم اٹھانے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ ایک چھوٹی سے مصیبت کا ٹھوس حل تلاش کرنے کے بجائے ہم ایمان کی لازوال نعمت کو چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سیدتنا فاطمہ الزہراؓ سے حقیقی الفت و محبت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم خواتین اپنے کردار کو سیرت فاطمہ سے مزین کریں۔ پردہ عورت کے حق میں بندش، مانع ترقی و تعلیم اور باعث خرابی صحت نہیں بلکہ اس کے حسن اور عزت میں اضافہ کا سبب ہے۔ جب بھی خواتین اپنے آپ کو عفت و عصمت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہیں وہ انسانی معاشرہ میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو خواتین بے پردگی کے عالم میں زندگی گزارتی ہیں وہ انسانی معاشرے میں بے قدر و بے وقعت ہوجاتی ہیں۔ اگر مسلم خواتین سیرت فاطمہ الزہراؓ کا مطالعہ کریں اور اس کو مشعل راہ بنائیں تو مذکورہ بالا تمام گناہوں سے بچکر عقبی کی کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتی ہیں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے مرقع ہر خوبی و زیبائیؐ نے ارشاد فرمایا میں نے اپنی دختر کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اللہ نے اس کو اور اس کے محبوبوں کو دوزخ سے جدا کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
0 Comments