ہاتھ کی کلائی میں کڑا پہننا کیسا ہے، بریسلیٹ پہننا کیسا ہے، مردوں کا چوڑی پہننا کیسا ہے

سوال:

آج کل کچھ نوجوانوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کی کلائی میں کڑا یا زنجیر یا پھر دھاگہ پہنتے ہیں اگر منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کڑا اجمیر کا ہے ، یہ دھاگہ فلاں جگہ کا اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔تو کیا کسی مرد کے لیے کڑا یا زنجیر یا دھاگہ پہنناجائز و درست ہے؟ اور اجمیر شریف کی طرف منسوب کڑا ، زنجیر اور دھاگہ وغیرہ کا کیا حکم ہے کیا وہ بھی ناجائز ہیں؟ اگر جائز نہیں ہیں تو پھر جو لوگ ایسی چیزیں پہنتے ہیں اس کے بارے شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

کلائی میں دھاگہ، کڑا یا زنجیر وغیرہ یہ سب چیزیں باندھنا ناجائز و گناہ ہے اگرچہ اجمیر شریف کا ہو یا کہیں اور مقدس جگہ کا ۔ حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے کہیں یہ نہیں فرمایا ہے کہ میری طرف منسوب کرکے دھاگہ یا کڑا پہنوگے تو ایسا فائدہ ملے گا ، ویسا فائدہ پہنچے گا. اور نہ ہی ایسا ہمارے کسی اور بزرگ نے کہا ہے۔ بلکہ صحیح اور حق تو یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں بعد کے مجاوروں اور دگر جاہلوں کی خرافات اور قبیح ایجادات میں سے ہیں ، ان ساری چیزوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

شریعت اسلامیہ میں ہے کہ: ہاتھ میں لوہے کا کڑا پہننا کفار اور فساق کا طریقہ ہے بلکہ بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ شریعت نے تو ربڑ کے بند پہننا بھی فضول قرار دیا ہے۔

فتاوی رضویہ جلد ہفتم ، ص: ٣٠٧/ میں حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ"مرد کے لیے ریشم کے کپڑے پہن کر نماز پڑھنے کا حکم مکروہ تحریمی بیان کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:’’بعینہٖ یہی حکم ان سب چیزوں کا ہے جن کا پہننا ناجائز ہے، جیسے ریشمی کمربند یا مغرق ٹوپی یا وہ کپڑا جس پر ریشم یا چاندی یا سونے کے کام کا کوئی بیل بُوٹا چار انگل سے زیادہ عرض کا ہو یا ہاتھ خواہ پاؤں میں تانبے سونے چاندی پیتل لوہے کے چھلّے یاکان میں بالی یابُندا یاسونے خواہ تانبے پیتل لوہے کی انگوٹھی اگرچہ ایک تارکی ہو یا ساڑھے چار ماشے چاندی یا کئی نگ کی انگوٹھی یاکئی انگوٹھیاں اگرچہ سب مل کر ایک ہی ماشہ کی ہوں کہ یہ  سب چیزیں مردوں کوحرام وناجائز ہیں اور ان سےنمازمکروہ تحریمی"۔ بہارشریعت جلد سوم ، ص: ۴٢٨/ مکتبہ المدینہ کراچی میں ہے کہ :

’’ اسی طرح مردوں کے لیے ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننا یا چھلے پہننا بھی ناجائز ہے۔‘‘

فتاوی اھل سنت دعوت اسلامی میں ہے:"مرد کے لیے لوہے یا پیتل یا کسی بھی دھات کا کڑا پہننا، ناجائز ہے اور اس کو پہن کر نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، یعنی اس حال میں نماز ادا کرنا گناہ ہے اور اگر کرلی ہو تو اس کا اعادہ کرنا لازم ہے"۔

فیضان سنت ، ص: ٧٠/ مکتبہ المدینہ میں ہے:

”سونے یا چاندی یا کسی بھی دھات کی ڈِبیہ میں تعویذ پہننا مرد کو جائز نہیں۔ اِسی طرح کسی بھی دھات کی زَنجیر خواہ اُس میں تعویذ ہو یا نہ ہو مرد کو پہننا ناجائز و گناہ ہے۔ اِسی طرح سونے ، چاندی اور اسٹیل وغیرہ کسی بھی دھات کی تختی یا کڑا جس پرکچھ لکھا ہوا ہویا نہ لکھا ہوا ہو، اگر چہ اللہ کا مبارَک نام یا کلِمہ طیِّبہ وغیرہ کُھدائی کیا ہوا ہو اُس کا پہننا مرد کے لیے  ناجائز ہے‘‘۔

ان ساری عبارات سے یہ بات واضح ہوچکی کہ کڑا ، زنجیر اور دھاگہ یہ ساری چیزیں شرعا ناجائز ہیں ۔اور یہ اچھی طرح یاد رہے کہ ہاتھ میں کڑا، یا دھاگہ یا زنجیر باندھنا اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں کڑا یا دھاگہ یا زنجیر کا باندھنا درست نہیں ؛اس لیے کہ نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتا ہے اور مصیبتوں سے بچاتا ہے یا پھر اس کی عطا سے اس کے مقرب بندوں اور مقدس چیزوں کا ہے ۔ بعض فقہائے کرام رحمھم اللہ تعالی علیھم اجمعین نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو ''رتیمہ'' کہا جاتا تھا۔ جیساکہ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ

''ثم رتیمۃ...ھی خیط کان یربط فی العنق أو فی الید فی الجاھلیة لدفع المضرة عن أنفسھم علی زعمھم ھو منہ عنہ وذکر فی حدود الیمان أنہ کفر '' (رد المحتار ، ج: ٦ ، ص: ۳٦٣)

اور اگر  کڑا وغیرہ مذکورہ عقیدہ کے طور نہیں بلکہ فقط  فیشن اور آرائش کے طور پر پہنتا ہے تو ایسی صورت میں کفر تو نہیں البتہ ناجائز ضرور ہے۔ اور یہی ظاہر ہے کہ نوجوان حضرات ان چیزوں کو عمومٙٙا فیشن ہی کے طور پر استعمال کرتے ہیں.

ان چیزوں کا استعمال کرنا ناجائز اس لیے بھی ہے کہ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے ؛ کیوں کہ یہ عورتوں کے لیے مقام زینت ہے نہ کہ مردوں کے لیے، اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والوں پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، کما ورد فی صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب المتشبہون بالنساء والمتشبہات بالرجال:"لَعنَ رسُولُ اللَّهِ ﷺ المُتَشبِّهين مِن الرِّجالِ بِالنساءِ، والمُتَشبِّهَات مِن النِّسَاءِ بِالرِّجالِ"۔وقال ایضٙٙا ۔من تشبہ بقوم فھو منھم"۔

لہذا مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے زیب و زینت اختیار کریں اور ہر رواج کو قبول کرنے کا مزاج نہ بنالیں ، مسلمان کا مقام یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے رنگ میں رنگ جائیں ؛ بلکہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے حضور ﷺ اور دگر اسلام کے مقدس ہستیوں کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنائے ۔ فقط وٙاللّٰهُ وٙرٙسُولُه اعلم۔

اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔

کتبہ:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments