احکام شرعیہ کے اسرار و حِکَم کو نہ سمجھنے والوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ کے اسلام نے رمضان کے دنوں میں دن بھر بھوکے پیاسے رہنے اور محنت شاقہ اور نفسانی خواہشات کو چھوڑنے کے بعد بھی رات میں آرام کے بجائے مزید ۲۰/رکعت تراویح کا حکم کیوں دیا ہے جبکہ یہ ایک انسان کو سراسر مشقت و پریشانی میں مبتلا کرنا ہے۔میں آپ قارئین حضرات کو بتاتا چلوں کہ بہت پہلے یہ اعتراض کشمیر کے ایک معترض نے نائب مفتی اعظم ہند حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ سے کیا تھا کہ رمضان شریف میں ایک مسلمان دن بھر کھانا،پینا اور دنیاوی عیش و عشرت سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اور عبادت میں دیگر مہینوں سے زیادہ مصروف رہتا ہے۔اس مہینے میں دن بھر اتنی محنت شاقہ اور نفسانی خواہشات کو چھوڑنے کے بعد شریعت نے اس پر پنجگانہ نماز کے بعد مزید تراویح پڑھنے کا حکم دیا ہے جس سے وہ راحت کے بجائے رات گئے تک جسمانی مشقت میں پڑتا ہے حالانکہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ دن بھر روزہ رکھنے کے بعد ایک روزہ دار کو کچھ آرام ملنا چاہئے۔تو حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ نے احکام شرعیہ کے اسرار وحِکَم بیان کرتے ہوئے جواباً ارشاد فرمایا کہ"جس طرح دنیا میں دنیاوی کاروبار کرنے کے کچھ خاص موسم ہیں کہ اس موسم میں جتنی زیادہ محنت کی جائے اتنا ہی زیادہ نفع ہوتا ہے اسی طرح مذہبی کاموں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ ایام کچھے مہینے ایسے مقرر کئے ہیں کہ ان میں جتنی زیادہ محنت و مشقت کی جائے ثواب زیادہ ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ ایسا ہی ہے حدیث صحیح میں فرمایا کہ اس مہینے میں ایک فرض کا ثواب دوسرے دنوں کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔اور اس مہینے میں نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر۔اس لئے اللہ عزوجل نے تراویح مشروع فرمائی کہ نفس پر تھوڑی سی مشقت کے بعد بندہ اجر عظیم کا مستحق ہو۔رہ گیا روزہ کی وجہ سے تھکان کا عذر۔یہ نفس کا دھوکہ ہے کہ کیا ایک تاجر افطار کے بعد دکان بند کرکے سوتا ہے۔کیا انسان اپنا کاروبار بند کردیتا ہے؟ نفس کو جتنا ہی آرام و سکون دو انسان کو کاہل بناتا جائگا۔اور جتنا کام میں لگائے رکھو انسان چاق و چوبند رہےگا۔پھر تراویح فرض نہیں سنت مؤکدہ ہے جس کے ترک کا وبال فرض سے کم تر ہے"
اس معترض کا اعتراض چوں چرا سے قید و بند تھا لیکن جب نائب مفتی اعظم ہند حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ نے جواب دیا تو اس کا چوں وچرا بالکلیہ ختم ہو گیا اور وہ معترض حواس باختہ رہ گیا۔
(ماخوذ:فتاوی شارح بخاری جلد:1،صفحہ54)
0 Comments