مسئلہ:
کبھی کچھ لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے ایسا بول دیتے ہیں کہ "جہاں دس ہوتا ہے وہیں خدا بھی ہوتا ہے"۔ تو کیا ایسا بولنا شرعا درست ہے؟براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
جواب
ایسا جملہ نہیں بولنا چاہیے بلکہ بعض علما نے تو ایسا بولنا کفر قرار دیا ہے پس جس نے ایسا جملہ بولا ہے تو اس پر توبہ تجدید ایمان و نکاح اور اگر کسی پیر سے مرید ہے تو تجدید بیعت لازم و ضروری ہے۔
ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ، فتاوی شارح بخاری ، کتاب العقائد ، جلد اول ، ص: ١۴٠/ میں فرماتے ہیں: "یہ کہنا کہ جہاں دس وہیں خدا کلمہ کفر ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکان ثابت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ مکان سے منزہ ہے ۔ حدیقہ ندیہ طریقہ محمدیہ میں ہے : ولو قال ھکذا بالفارسیة نہ مکانی زتو خالی نہ تو در ھیچ مکانی فھذا کفر لانہ نسبة المکان الی اللہ وھو تقتضی الجسمة فی حقہ تعالی والجسمة تقتضی الحدوث وھو محال علیہ تعالی"۔ (حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ ، جلد اول ، ص: ٢٠۵)
فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد صاحب قبلہ امجدی اپنی کتاب فتاوی فیض الرسول ص: ۴۵، ۴٦ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: جب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے یہ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ اور مکان سے پاک ہے۔ عقائد نسفی میں ہے لا یتمکن فی مکانہ اس کے تحت شرح عقائد نسفی میں صفحہ ۳۳/ پر ہے۔ "اذالم یکن فی مکان لم یکن فی جھة لاعلو لاسفل ولا غیرھما"۔
ان مذکورہ عبارات سے یہ بات واضح ہو چکی کہ ایسا جملہ بولنا کہ "جہاں دس ہوتا وہیں خدا ہوتا ہے"۔ ناجائز و گناہ بلکہ کفر ہے لہذا اس جملہ سے لازما اجتناب کرے اور جس کی زبان سے ایسا جملہ نکل گیا ہے وہ توبہ و تجدید ایمان ونکاح کرلے ۔ فقط والله ورسوله اعلم۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
0 Comments