انویسٹ کی نیت سے خریدی ہوئی زمین پر زکوة واجب ہے یا نہیں

مسئلہ:

زمین ۷ سال پہلے خریدی گئی تھی اور وہ زمین کاشتکاری کیلئے ہے لیکن اس زمین پر ۷ سال سے کسی قسم کی کھیتی نہیں کی لیکن اس زمین کو خریدتے وقت انویسٹ کرنے کی نیت تھی تو اس زمین پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق والصواب

سوال میں مذکور زمین کو کاشتکار نے اگر انویسٹ کرنے کی نیت سے خریدی تھی یعنی اس کاشتکار کا اس زمین کو خریدتے وقت یہ پختہ ارادہ تھا کہ بعد میں اس زمین کو بیچ ڈالے گا اگرچہ تین یا اس سے زائد سال کے بعد ہی بیچنے کی نیت ہو تو ایسی صورت میں اس زمین کی قیمت پر زکوة واجب ہوگی کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مال تجارت ہے اور مال تجارت پر زکوة واجب ہے ۔ لہذا سوال میں مذکور کاشتکار پر اس زمین کی ساتوں سال کی زکوة( ہر سال کی مارکیٹ کے ویلو کے مطابق ادا کرنا واجب ہے۔ جیساکہ درمختار مع شامی ، جلد سوم ، کتاب الزکاۃ ص: ١٧٩، ١٨٠ میں ہے:"(وما اشتراہ لہا) أی للتجارة (کان لہا)لمقارنة النیة لعقدالتجارة"۔اور جو چیز خریدی تجارت کے لئے وہ تجارت کے لئے ہی ہے اس لیے کہ نیت عقد تجارت سے متصل ہے۔

فتاویٰ عالمگیری جلد اول ، كتاب الزكوة، الباب الثالث فى زكوة الذهب والفضة، ص: ١٧٩/ پر ہے : الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. تجارت کے سامانوں میں زکات واجب ہے وہ جیسے بھی ہوں ، جب کہ ان کی قیمت چاندی یا سونا کے نصاب کو پہنچے ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔

اور فتاوی رضویہ جلد دہم ، ١٦١/ میں حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "زکات صرف تین چیزوں پر ہے: سونا چاندی کیسے ہی ہوں،پہننے کے ہوں، یا برتنے کے ، یا رکھنے کے، سکہ ہو یا ورق ۔ دوسرے چرائی پر چھوٹے جانور ۔تیسرے تجارت کا مال ۔ باقی کسی چیز پر نہیں"۔

لیکن اگر سوال میں مذکور کاشتکار نے بیچنے کے پختہ ارادہ سے وہ زمین نہ خریدی ہو اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ معقول نفع ملے گا تو بیچ بھی سکتا ہوں یا خریداری کے وقت بیچنے کا پختہ ارادہ نہ ہو بلکہ بعد میں بیچنے کا ارادہ پیدا ہوا تو اس زمین کی قیمت پر زکاة نہیں ہے، ہاں! روپیوں کے بدلے بیچنے پر ان روپیوں پر زکاة واجب ہوگی۔

مذکورہ در مختار مع شامی ہی میں ہے:

"وَلَوْ نَوَى التِّجَارَةَ بَعْدَ الْعَقْدِ أَوْ اشْتَرَى شَيْئًا لِلْقِنْيَةِ نَاوِيًا أَنَّهُ إنْ وَجَدَ رِبْحًا بَاعَهُ لَا زَكَاةَ عَلَيْهِ” اور اگر عقد کے بعد تجارت کی نیت کی یا سامان کے طور پر کوئی چیز خریدی اس نیت سے کہ اگر نفع پائے گا تو بیچ دے گا تو اس پر ز کات نہیں ہے۔

بہر حال سوال میں مذکور زمین کو اگر فی الواقع خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت تھی تو اس زمین کی مارکیٹ ویلو کے حساب سے قیمت پر زکات ادا کرنی ہوگی ۔اور اگر زمین خریدتے وقت تجارت کی نیت نہ تھی بلکہ کھیتی کرنے، باغ لگانے یا گھر بنوانے کی نیت تھی بعد میں بیچنے کی نیت کرلی تو اس زمین پر زکاة واجب نہ ہوگی۔ اس کا اصل مدار نیت پر ہے اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت سے خریدا تو یہ مال تجارت شمار ہوگی۔

فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

Post a Comment

0 Comments