مسئلہ:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کے متعلق ، کتابی یعنی ایسا یہود و نصارٰی جو عیسیٰ علیہ السلام یا عزیر علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں ، ان کا ذبیحہ کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث اور فقہ کی معتبر کتابوں کے حوالوں کے ساتھ جواب عنایت فرما کر عند اللّٰہ مأجور ہوں !
الجواب بعون الملک الوہاب
کتابی یعنی یہود و نصارٰی کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے ، اگرچہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا مانتے ہوں
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے{ٱلۡیَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّیِّبَـٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡكِتَـٰبَ حِلࣱّ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلࣱّ لَّهُمۡ } [سُورَةُ المَائـِدَةِ:٥]ترجمہ کنزالایمان : آج تمھارے لیے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے ۔ خزائن العرفان میں کھانے کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں (یعنی ان کے ذبیحے)
علامہ ابن عابدین شامی الدر المختار کے حاشیہ میں حامديہ نامی ایک کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں،(وفي الحامدية: وهل يشترط في اليهودي أن يكون إسرائيليا وفي النصراني أن لا يعتقد أن المسيح إله؟ مقتضى إطلاق الهداية وغيرها عدمه، وبه أفتى الجد في الإسرائيلي )[ الدر المختار على الدر المختار . كتاب الذبائح]
ترجمہ : حامدیہ میں ہے ، کیا یہودی و نصارٰی کا ذبیحہ حلال ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ یہودی ، اسرائیلی ہو اور نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے کا اعتقاد نہ رکھے ؟ جواب: ہدایہ اور دیگر کتابوں کا اطلاق یہی چاہتا ہے کہ ان کا ذبیحہ حلال ہونے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے کا اعتقاد نہ رکھنا شرط نہیں ۔
علامہ شامی ، شمس الأَئِمہ کی کتاب المبسوط کی عبارت پیش کر کے اس موقف پر مہر لگاتے ہوئے اپنی بحث کو ختم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں(في مبسوط شمس الأئمة: وتحل ذبيحة النصارى مطلقا سواء قال ثالث ثلاثة أو لا، ومقتضى الدلائل الجواز كما ذكره التمرتاشي في فتاواه، والأولى أن لا يأكل ذبيحتهم)[الدر المختار على الدر المختار . كتاب الذبائح]
ترجمہ : مطلق طور پر نصارٰی کا ذبیحہ حلال ہے چاہے وہ ایک خدا کا دعویٰ کرے یا تین خدا کا دعویٰ کرے ، دلائل جواز کا اقتضیٰ کرتی ہے جیسا کہ تمرتاشی نے اپنے فتاویٰ میں ذکر کیا ہے ، اور بہتر یہ ہے کہ ان ذبیحہ نہ کھایا جائے ۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی خان ذبح کی شرائط کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں (ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی ہو)[بہار شریعت حصہ پانزدہم ذبح کا بیان/ جلد سوم صفحہ 313 ۔ مطبع : دعوت اسلامی]
مزید لکھتے ہیں (مشرک اور مرتد کا ذبیحہ حرام و مردار ہے ) یاد رہے کہ یہاں مشرک سے مراد وہ مشرک نہیں جو یہودی یا نصارٰی ہے ، بلکہ وہ مشرک مراد ہے جو کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتےہیں ۔ مثلاً مجوسی اور ہنادکہ وغیرہ ، جیسا کہ شامی کی عبارت سے یہ بات واضح ہے ۔ لہذا یہودی و نصرانی جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اگرچہ غیر اللہ کو خدا ماننے کے سبب مشرک ہیں ، ان کا ذبیحہ حلال ہے ۔
علامہ صدر الشریعہ مزید لکھتےہیں ( کتابی کا ذبیحہ اس وقت حلال سمجھا جائے گا جب مسلمان کے سامنے ذبح کیا ہو اور یہ معلوم ہو کہ اللہ عزوجل کا نام لے کر ذبح کیا) علامہ صاحب کا یہ جملہ بھی تقویٰ پر محمول ہے وجوب پر نہیں ، کیونکہ آپ خود آگے لکھتے ھیں ( اگر مسلمان کے سامنے اس نے ذبح نہیں کیا اور معلوم نہیں کہ کیا پڑھ کر ذبح کیا جب بھی حلال ہے )
ہاں اگر بذریعۂ سِماع یا کوئی اور ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ غیر الله کے نام سے ذبح کیا گیا ہے تو بالاتفاق حرام ہے
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ: مفتی توحید الرحمٰن علائی جامعی
0 Comments