سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم: ایک مطالعہ

کتاب کانام : سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم.

مصنف :ڈاکٹر تسلیم عارف

سن اشاعت : سن 2018 ء

صفحات: حصۂ اول 95/ حصۂ دوم 105

ناشر : انجلا پبلی کیشنز ،٢٤ /گروپ پرگنہ ،انٹالی ،کولکاتا۔ ٧٠٠٠١٤

مبصر : محمد فروز عالم علائی

متعلم: ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی ،بارہ سات کولکاتا 700119.

Mob 8910465097

ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وسعتِ بیان اور ہمہ گیری کی جو دولت عطا کی اس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور معاصر تحریکات کو متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ زندگی کا ہر پہلو موضوع سخن بن گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقّی پسند تحریک کے عروج اور فروغ میں کئی دیگر ممتاز ادیبوں کے ساتھ سیّد سجّاد ظہیر کا کردار کلیدی رہا ہے۔ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز و اعزاز تھا۔ اسی خاندانی وقار اور اعلی اخلاقی رنگ و آہنگ نے سجاد ظہیر کے جوہر عظمت کو کچھ اس طرح سے صیقل کیا کہ انہوں نے پوری ادبی دنیا میں ایک فکری انقلاب برپا کر دیا، اور نتیجتا اُردو ادب میں ایک نئے عہد کی شروعات ہوئی ۔ ترقّی پسند تحریک کے زیر اثر ادب کے بہت سے اصناف متاثر ہوئے اور نئی بلندیوں و وسعتوں سے ہم کنار ہوتے ہوئے ادب نے خوب تنوع پایا۔ سجاد ظہیر نے درجنوں افسانے، ناول، ڈرامے ، مضامین اور کہانیاں لکھیں جو کتابی شکل میں شائع بھی ہوئیں ۔ان میں سے کچھ نگارشات درج ذیل ہیں: "انگارے‘‘ (1935ء) ’’بیمار‘‘ (ڈرامہ،1935ء) ’’نقوش زنداں‘‘(جیل سے رضیہ سجاد ظہیر کے نام لکھے گئے خطوط، 1942ء) ’’ اردو ہندی ہندوستانی‘‘ (1947ء)’’ذکرحافظ‘‘ (1956ء) ’’ روشنائی‘‘ ( ترقی پسند مصنفین کے تعلق سے تحریر، 1959ء) ’’لندن کی ایک رات‘‘ ناول، 1960ء) ’’پگھلا نیلم‘‘ (1964ء) ’’مضامین سجاد ظہیر‘‘ (1979ء)۔ ان کے علاوہ ’’اوتھیلو‘‘ (شیکسپیئر 1949ء) ’’کینڈڈ‘‘ (ولٹیر1957ء) ’’گورا‘‘ (ٹیگور، 1962ء) ’’پیغمبر‘‘ (خلیل جبران) وغیرہ تراجم ہیں۔ سجاد ظہیر کے احوال کا معروضی مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ایک عظیم انقلابی رومانوی شاعر تھے; ان کی نثری شاعری" پگھلا نیلم“، آخری شعری مجموعہ ہے۔

"سجاد ظہیر کی شعری جہات اور  پگھلا نیلم": ایک مطالعہ
"سجاد ظہیر کی شعری جہات اور  پگھلا نیلم": ایک مطالعہ

سجاد ظہیر کی شاعری نے روایتی لفظیات اور تشبیہات و استعارات کو نئی معنویت عطا کی جس سے شاعری اپنے عہد کی حقیقتوں کا استعارہ بن گئی ۔ اگرچہ ان کی شاعری میں قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہے پھر بھی اس میں شاعرانہ عنصر وافر مقدار میں موجود ہے۔ "پگھلا نیلم " کی نظموں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان میں شاعرانہ ہنرمندی ، تخیلات، تخلیقیت، اور زور بیاں وغیرہ جیسے فن شاعری کے جملہ لوازمات بدرجہ اتم موجود تھے ۔ نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔۔:

ہونٹوں سے کم ،

گرم مہکتی سانسوں سے،

نم آنکھوں سے ،

تم نے پوچھا :

"کیا ہم سے محبت کرتے ہو ؟ " بس ایک حرف منہ سے" نکلا: ہاں !"

کتنا معمولی ، چھوٹا سا ، یہ نامکمل لفظ ہے !

کیسے دکھلائے تم کو

اس پوشیدہ، خوابیدہ

وادی کو

جس میں

نور کی بارش ہوتی ہے ،

جھرنے بہتے ہیں نغموں کے ،

اور لمبے قداور پیر چنار کے ،

اپنے جھلمل ،سبز، خشک سایوں کو

پھیلاتے ہیں

جیسے خود جینے کے رستے !

یہ سب دولت، دل کو

تمہیں تو دی ہے !

زیر تبصرہ کتاب "سجاد ظہیر کی شعری جہات اور پگھلا نیلم " استاد گرامی ڈاکٹر تسلیم عارف کے عالی, عالمی اور ادبی ذوق کا عمدہ نمونہ ہے ۔ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سجاد ظہیر کی شعریات سے ڈاکٹر تسلیم عارف کو خاص شغف ہے۔ اس کتاب میں سجاد ظہیر کی شعری مہارتوں اور ان کی سوانح حیات کے تئیں مستند ادیبوں کے تاثرات شامل ہیں۔

بلا شبہ شہر کولکاتا علم و فن کا گہوارہ اور تہذیب و تمدن کا مرکز ہے۔ یہ ٹیگور، نذرل اور وحشت کی سرزمین ہے۔ یہ بنگلہ، ہندی, اردو اور انگریزی ادبیات کا مسکن آرزو ہے۔ یہاں مختلف زبان اور تہذیب کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں کی گلیاں مختلف رنگ و نسل کے افراد سے آباد رہتی ہیں۔ یہاں ”کثرت میں وحدت“ کا نور چہار سو بکھرا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر تسلیم عارف اسی سر زمین کے ایک باوقار فرزند، ایک شریف النفس شہسوارِ ادب اور فکر وفن کے ایک جانباز مجاہد ہیں۔۔۔۔۔تھکے بغیر اور رکے بنا اپنی منزل کی جستجو میں رہنے والے۔۔۔قرطاس وقلم سے وابستگی اور اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے حوالے سے وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں, بلکہ اپنے خلوص اور محبت کو شانِ بے نیازی کے ساتھ شہر شہر , نگر نگر اور بستی بستی بانٹنے والے وہ ایک ایسے من موہن شخص ہیں جو علم و ادب اور فکر وفن کی مزید اونچائیوں کو چھونے کے لئے ہر لمحہ تازہ دم اور سرگرداں نظر آتے ہیں۔مجھے ناز ہے کہ میں نے آج ایک ایسے قلم کار اور ادیب پر قلم اُٹھایا ہے جو اولاً تو ایک بلند کردار انسان ہے اور ثانیاً: وہ مستقل مزاجی کے ساتھ برسوں سے مصروفِ تصنیف و تدریس ہے, اور اردو کے بکھرے گیسوؤں کو نکھارنے و سنوارنے کا کام کر رہا ہے۔ فکر وعمل کے اس تسلسل کو ہم اُن کی زندگی میں مستقلاً کارفرما دیکھتے ہیں اور یہی امر ہمارے اِس مضمون کا محرک بنا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے استاد گرامی پر قلم اُٹھاکر میں اس وقت وہ آسودگی محسوس کررہا ہوں جو کسی بھی تبصرہ نگارکو مطلوب ہوتی ہے ۔اِس مضمون کی تخلیق نے طبعیت میں جو خوش گواری پیدا کی ہے اُس سے لگتا ہے کہ جیسے میرے اپنے اندر کے تبصرہ نگارکو سکون و قرار میسر آگیا ہے۔

"سجاد ظہیر کی شعری جہات اور ''پگھلا نیلم", دراصل ڈاکٹر تسلیم عارف کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے ۔ یہ کتاب اس سبب سے کافی وقیع ہے کہ اس میں جہاں سجاد ظہیر کے سوانحی خاکے پر تحقیق و تنقید سے کام لیا گیا ہے وہیں ان کی نظموں کا اصل متن بھی پیش کیا گیا ہے۔ ترتیب کی بات کی جائے تو یہ کتاب نہایت سلیقے سے مرتب کی گئی ہے ۔ تفصیل یہ ہے کہ کتاب بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلے حصے کا تعلق سجاد ظہیر کی حیات و شخصیت سے ہے۔ دوسرے حصے کا تعلق ان کی شاعری سے ہے، جب کہ تیسرے حصے میں''پگھلا نیلم" کی نظمیں شامل کی گئی ہیں۔

پیش لفظ "حرفے چند" جو پروفیسر فضل امام رضوی نے لکھا ہے, مصنف کی محنت، لگن اور جستجو کو درشاتا ہے ۔ پروفیسر فضل امام رضوی ڈاکٹر تسلیم عارف کے بارے میں لکھتے ہیں:

" پگھلا نیلم " سجاد ظہیر کا شعری سرمایہ ہے جس پر بہت سے ناقدین نے اظہار خیال کیا ہے لیکن میں اسے بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ تسلیم عارف نے جس صلابت فکر ( Solidarity of Thought) سے اپنے قلم کی گردش سے بکھیرا ہے ،ایسا بہت کم کم ہی کہیں ملتا ہے۔"

اس کے بعد "چند باتیں" پروفیسر علی احمد فاطمی نے تحریر کی ہیں۔ پروفیسر فاطمی نے نثری نظم کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی انسان دوستی ، روشن خیالی اور وسعت و حقیقت کو اجاگر کیا ہے اور ساتھ ہی مصنف ڈاکٹر تسلیم عارف کے تحقیقی انداز اور بلند خیالی پر روشنی ڈالی ہے۔ بعدہ " ڈاکٹر تسلیم عارف کا تحقیقی شعور" کے حوالے سے کولکاتا کے مشہور و معروف ادیب و نقاد پروفیسر دبیراحمد نے اپنے خامہ سیال کا جلوہ بکھیرا ہے۔ پروفیسر دبیر احمد نے ڈاکٹر تسلیم عارف کے تحقیقی شعور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

" تسلیم عارف ایک شریف النفس ،کم گو ،خاموش طبع کے ساتھ ساتھ ایثار و وفا کے پیکر، ادب کے سنجیدہ قاری ہیں جن کے لہجے میں متانت ہے۔ مطالعے کے شائق ، ادب کا ستھرا ذوق رکھنے والے معلم ، غرض کہ دلنواز اور با معنی شخصیت کے مالک ہیں۔"

مقدمہ میں مصنف موصوف نے سجاد ظہیر کی زندگی کا ایک خاکہ پیش کیا ہے جو واقعی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے، مزید یہ کہ اس میں اظہار تشکر بھی مربوط ہے۔ کتاب کے پہلے حصہ میں مصنف نے بڑی جاں فشانی اور سلیقے سے سجاد ظہیر کی حیات و خدمات کی عکاسی کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ سجاد ظہیر بیک وقت صحافی ،شاعر ،ادیب ،مفکر ،مکتوب نگار،فکشن نگار، مترجم ،گنگا جمنا تہذیب کے علمبردار،صالح فکر اور بلند نگاہ جیسی خصوصیات کے حامل ہیں اور وہ ان میدانوں میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ مصنف کی ایک عبارت ملاحظہ فرمائیں :

"سجاد ظہیر ہر روپ میں ایک مکمل انسان تھے ،ان کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں ایک نیک اور سعادت مند اولاد ، باوفا شوہر، مشفق باپ اور بہترین رہنما کے طور پر نظر آتے ہیں۔"

مزید لکھتے ہیں:

"سجاد ظہیر بیسویں صدی کے ایک کثیر الجہات اور کیثر الصفات ادیب، سیاسی ،سماجی شخصیت کا نام ہے ان کی زندگی ہشت پہلو تھی"۔

مصنف کے تحقیقی شور کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زیر تبصرہ کتاب میں درجنوں کتب و مضامین و رسائل بطور حوالہ پیش کیے گیے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں :

مضمون : بنے بھائی ، از ط ۔ انصاری مشمو لہ ؛ آجکل ،دہلی ، دسمبر ،1973 ص : 28 ۔ شخصیات اور واقعات جنہوں نے مجھے متاثر کیا ، مرتب :جنید احمد, مکتبہ جامعہ ,دہلی 1991 ۔سجاد ظہیر حیات اور ادبی خدمات : قمر رئیس، ستا ہتیہ اکیڈمی نیو دہلی ،2005 ص : 12۔ سجاد ظہیر: سخصیت کا  خاکہ ،از اعجاز حسین ،' آجکل ' ،دہلی دسمبر 1973 ،ص : 13 ۔ سجاد ظہیر : ایک تاریخ ایک تحریک،از،علی احمد فاطمی ،الہ آباد 2002، ص :14۔

کتاب کا دوسرا حصہ سجاد ظہیر کی شاعری سے متعلق ہے۔ اس میں مصنف نے سجاد ظہیر کی نثری نظموں کے تجزیے پیش کیے ہیں ۔ دراصل یہ تجزیہ آرائی ہی اس کتاب کی جان ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

" دریا " بظاہر ایک مختصر سی نظم ہے لیکن معنوی اعتبار سے گہرائی و گیرائی میں وہ دریا سے کم نہیں ہے ۔ عنوان کے انتخاب کے معاملے میں سجاد ظہیر پوری دیانت داری سے کام لیتے ہیں۔ساتھ ہی عنوان اور مواد میں مماثلت رکھنے کے فن پر عبور رکھتے ہیں"۔

اور عبارت ملاحظہ کریں :

"جس وقت سجاد ظہیر نظم لکھ رہے تھے ، ان کا ذہن تاجر آباد اور مشاہدات کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکا تھا ۔ان کے شعری تخیل میں دانشوری بھی آ گئی تھی۔ 'پرانا باغ ' ،' کالا پھول' ،'دریا ماسکو میں تین'،' انتظار'،'تالے' اس مجموعہ کی نمائندہ نظمیں ہیں ، جس میں سجاد ظہیر کا رنگ و آہنگ شباب پر نظر آتا ہے۔"

مصنف کے ان تجزیوں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے" پگھلا نیلم " کی ان نظموں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔کتاب کی گہرائی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سجاد ظہیر کی شاعری ہماری زبان و ادب کی ایک متاع گم گشتہ ہے۔ ان کی شاعری ایک زمانے تک دفینہ بنا کر رکھی گئی مگر اب نئی نسل اور عہد کو ان کی ضرورت آن پڑی ہے ،لہذا فکر مند افراد نے ان کا تعارف، ان کے کلام و فکر کا تجزیہ ،نقطہ نظر کی تفسیر اور اسلوب نگارش کی تشریح کرنا شروع کردیا ہے ۔ گو سجاد کی شاعری ابھی جامعات اور دیگر تحقیقی اداروں کا موضوع سخن نہیں بنی ہے تاہم انفرادی طور پر ان کے تئیں حیرت انگیز کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کے محقق ڈاکٹر تسلیم عارف ہیں۔ آخری حصے میں' پگھلا نیلم ' کے اصلی متون پیش کیے گیے ہیں ۔کتاب ظاہری و باطنی خوبیوں سے مرصع ہے۔ ٹائٹل بڑا خوش نما ہے ،کاغذ بھی سفید اور اعلی کوالٹی کا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کتاب عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے۔ مصنف کے اسلوب میں سلاست اور روانی بھی خوب ہے ،قاری کو دوران مطالعہ اکتاہٹ کا بالکل احساس نہیں ہوتا ، مجموعی طور پر یہ کتاب سجاد ظہیر کی شخصیت اور ان کی شاعری کو سمجھنے کے لئے ایک مکمل کتاب ہے اور یہ آنے والے محققین اور ریسرچ اسکالروں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں استاد گرامی کو ان کی اس شاہکار تخلیق پر۔ اللہ تعالی استاد گرامی کو سلامت رکھے اور عمر خضر سے نوازے۔ آمین ثم آمین ۔

Post a Comment

0 Comments