نیند سے کب وضو ٹوٹتا ہے اور کب نہیں بتفصیل بتائیں

سوال:

نیند سے کب وضو ٹوٹتا ہے اور کب نہیں بتفصیل بتائیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب:

بہار شریعت میں ہے:

نیند سے وضو ٹوٹنا.

سو جانے سے وضو جاتا رہتا ہے بشرطیکہ دونوں سرین خوب نہ جمے ہوں اور نہ ایسی ہیئت ت پر سویا ہو جو غافل ہو کر نیند آنے کو مانع ہو مثلاً اکڑوں بیٹھ کر سویا یا چت یا پٹ یا کروٹ پر لیٹ کر یا ایک کہنی پر تکیہ لگا کر یا بیٹھ کر سویا مگر ایک کروٹ کو جھکا ہوا کہ ایک یا دونوں سرین اٹھے ہوئے ہیں یا ننگی پیٹھ پر سوار ہے اور جانور ڈھال میں اتر رہا ہے یا دو زانو بیٹھا اور پیٹ رانو پر رکھا کہ دونو سرین جمے نہ رہے یا چار زانو ہے اور سر رانوں پر یا پنڈلیوں پر ہے یا جس طرح عورتیں سجدہ کرتی ہیں اسی ہیأت پر سوگیا ان سب صورتوں میں وضو جاتا رہا۔

نیند سے وضو نہ ٹوٹنا:

دونوں سرین زمین یا کرسی یا بنچ پر ہیں اور دونوں پاؤں ایک طرف پھیلے ہوئے یا دونوں سرین پر بیٹھا ہے اور گھٹنے کھڑے ہیں اور ہاتھ ہنڈلیوں پر محیط ہوں خواہ زمیں پر ہوں،دو زانو سیدھا بیٹھا ہو یا چار زانو ہالتی مارے یا زین پر سوار ہو یا ننگی پیٹھ پر سوار ہے مگر جانور چڑھائی پر چڑھ رہا ہے یا راستہ ہموار ہے یا کھڑے کھڑے سو گیا یا رکوع کی صورت پر یا مردوں کے سجدہ مسنونہ کی شکل پر تو ان سب صورتوں میں وضو نہیں جائے گا۔ (فتاوی رضویہ،ج۔1،ص۔365،مرکز اہل سنت برکات رضاو بہار شریعت،ج۔1،ص،307)

حدیث شریف میں ہے: "لا یجب الوضو علی من نام جالساً أو قائماً أو ساجداً حتی یضع جَنْبَہُ فانہ اذا وضع جنبہ استرخت مفاصلہ۔" (السنن الکبریٰ،ج۔1،ص۔121،حدیث۔609)

ھدایہ میں ہے: "والنوم مضطجعاً أو متکئاً أو مستنداً الی شئ لو ازیل لسقط لان الاضطجاع سبب لاسترخاء المفاصل فلا یعری عن خروج شئ عادۃ و الثابت عادۃ کالمتیقن۔"(ھدایۃ اولین،کتاب الطھارۃ، ص۔25، مجلس برکات)

فتاوی عالمگیری میں ہے: "(ومنھا النوم)ینقضہ النوم مضطجعاً فی الصلاۃ و فی غیرھا بلا خلاف بین الفقھاء و کذا النوم متورّکا بان نام علی احد و رکیہ ھکذا فی البدائع و کذا النوم مستلقیا علی قفاہ ھکذا فی البحر الرائق و لو نام قاعداً واضعاً ألیتیہ علی عقبیہ شبہ المنکب لا وضوء علیہ و ھو الاصح کذا فی محیط السرخسی  و لو نام مستنداً الی ما لو أزیل عنہ لسقط ان کانت مقعدتہ زائلۃ عن الارض نقض بالاجماع و ان کانت غیر زائلۃ فالصحیح أن لا ینقض ھکذا فی التبیین و لا ینقض نوم القائم و القاعد و لو فی السرج أو المحمل و لا الراکع ولا الساجد مطلقاً ان کان فی الصلاۃ و ان کان خارجھا فکذالک  الا فی السجود فانہ یشترط ان یکون علی الھیئۃ المسنونۃ لہ بان یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیا عضدیہ عن جنبیہ و ان سجد علی غیر ھذہ الھیئۃ انتقض وضوءہ کذا فی البحرالرائق۔" (فتاوی عالمگیری،کتاب الطھارۃ،ج۔1،ص۔12،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

واللہ تعالیٰ اعلم

از قلم: محمد صابر رضا اشرفی علائی

رسرچ اسکالر: مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال

Post a Comment

0 Comments