سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ دو آدمی مشترک طور پر اگر ایک شخص کی طرف سے جو فوت ہو چکا ہے قربانی کریں تو جائز ہے یا نہیں؟ اس میں بظاہر یہ قباحت ہے کہ ایک حصہ والے جانور میں دو کی اور سات حصہ والے میں آٹھر کی شرکت لازم آتی ہے۔ اگر دو کی جائز ہے تو پھر اس سے زائد مقدار کی بھی جائز ہونا چاہئے۔ جس کی طرف سے قربانی ہو، اس کی وحدت ضروری ہے یا کرنے والے اور رقم لگانے والے کی؟
الجواب:
اس واجب قربانی کے ایک حصہ میں دو شخص کی شرکت جائز نہیں۔ یہ قربانی تو ایصال ثواب کے لئے ہے۔ اس میں اگر ہزار آدمی شریک ہو کر ہزار آدمی کی طرف سے قربانی کریں تو بلا شبہ جائز ہے۔ سرکار مصطفی علیہ التحیۃ والثنا نے اپنی امت کی جانب سے قربانی فرمائی۔ ہدایہ اخیرین کتاب الاضحیہ میں ہے لان التضحية عن الغير عرفت قربة الاترى ان النبي عليه الصلوة والسلام ضحى عن امته على ما روينا. غیر کی طرف سے قربانی بطور ایصال ثواب معروف و مشہور ہے۔ کیوں نہیں دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کیا۔ جیسا کہ ہمارے پاس روایت آئی۔
اسی میں ہے۔ القربة قد يقع عن الميت كالتصدق. کبھی کبھی میت کی طرف سے قربت مثل صدقہ واقع ہوتی ہے۔ اسی میں ہے۔ اذا اشترى سبعة بقرة ليضحوا بها فمات احدهم قبل النحر وقالت الورثة اذبحوها عنه وعنكم اجزاهم. سات آدمی نے قربانی کرنے کے لئے ایک گائے خریدی۔ قربانی سے پہلے ہی ایک شخص مر گیا۔ وارثوں نے کہا۔ مرحوم کی طرف سے اور تم لوگ اپنی طرف سے ذبح کر ڈالو تو سارے حصہ دار کوکافی ہے۔ واللہ تعالی اعلم.
0 Comments