تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی حضرت علامہ مفتی سلطان مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کا مختصر تعارف مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ایک نظر میں

بسلسلہ عُرس مظہر ہندالولی، قدوة الکبریٰ،تاجدار ولایت، امام العلما، رئیس القرا، افتخار الشعرا، تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، حضرت علامہ مفتی سلطان مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ


یاد مظہرِ ہندالولی رضی اللہ تعالیٰ عنہ


نام ونسب:

آپ کا اسم گرامی سید اشرف ہے۔

والد ماجد کا اسم شریف سلطان سید محمد ابراہیم نور بخشی رحمتہ اللہ علیہ ہے-

سلسلہ نسب 25 واسطوں سے رسول اکرم نور مجسّم ﷺ تک پہنچتا ہے۔

القاب وآداب:

’’غوث العالم‘‘, ’’محبوب یزدانی‘‘, ’’جہانگیر‘‘ وغیرہ۔

ولادت باسعادت:

آپ کی ولادت باسعادت کی بشارت آپ کے والد ماجد (علیہما الرحمہ) کو دونوں عالم کے مالک ومختار سیدابرار واخیار روحی فداہ سرکار دوعالم ﷺ نے دی۔

آپ کے والد ماجد علیہ الرحمہ نے خواب میں جان عالمین ﷺ کی زیارت کی۔

سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اے ابراہیم! اللہ تعالیٰ تجھ کو دو فرزند عطا کرے گا, بڑے کا نام اشرف اور چھوٹے کا نام اعرف رکھنا۔ اشرف اللہ کا ولی ہوگا اور مقرب بارگاہ ایزدی ہوگا۔"

حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت سے تین ماہ قبل اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا لگارہا تھا:

"باادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں۔"

آخر سرکار دوعالم ﷺ کی بشارت اور مجذوب کی دعا پوری ہوئی اور 708ھ/1309ء - ایک دوسرے قول کے مطابق 712ھ/1313ء کو آپ کی ولادت باسعادت ایک روحانی خاندان اور علمی گھرانے میں ہوئی اور عالمانہ وصوفیانہ ماحول اور دینی وعلمی فضا میں آپ کی پرورش ہوئی, آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ خدیجہ خاتون رضی اللہ تعالی عنہا مشہور بزرگ حضرت خواجہ احد یسوی قدس سرہ کی صاحبزادی تھیں جو بڑی نیک طینت، نہایت عابدہ، زاہدہ، تقوی شعار اور صوم وصلوۃ کی پابند تھیں، اکثر نفلی روزے رکھتی تھیں اور تلاوت قرآن سے تو انہیں خاص شغف تھا، آپ کے ناناجان حضرت خواجہ احمد یسوی قدس سرہ اپنے زمانے کے جلیل القدر بزرگ تھے اور صاحب علم وفضل مشائخین میں بلند مقام رکھتے تھے۔ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے والد گرامی حضرت سلطان سید ابراہیم نور بخشی قدس سرہ اپنے وقت کے زبردست عالم و فاضل اور علم دوست انسان تھے، آپ کے علم دوستی اور شغف علمی کا حال یہ تھا کہ آپ سمنان کے سلطان اور بادشاہ تھے امور سلطنت کے گوناگوں اور کثیر مصروفیات کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھتے، سمنان کے بڑے بڑے دارالعلوم کے منتہی طلبہ کو آپ اپنی مصروفیات اور ضروریات سے کچھ وقت نکال کر درس دیا کرتے تھے جس میں وہ معقولات ومنقولات کی کتابیں آکر آپ سے پڑھتے تھے، تاریخ عالم میں کسی بھی بادشاہ کے علم دوستی کی ایسی مثال شاید کہیں ملے کہ تخت شاہی پر بیٹھ کر حکومت بھی کرے اور باضابطہ معلم کی حیثیت سے طالبان علوم نبوی کی علمی تشنگی بھی بجھاۓ۔

تکمیل تعلیم اور تخت نشینی:

حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی عمر جب چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو نہایت دھوم دھام سے آپ کی تسمیہ خوانی کی گئی اس وقت کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولا نا عماد الدین تبریزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ کو بسم اللہ پڑھائی, آپ نے نہایت ذوق وشوق سے باضابط تعلیم کا آغاز کیا اوراپنی خداداد ذہانت و فطانت سے سات سال کی قلیل عمر میں صرف ایک سال میں قرآن شریف قرآت سبعہ کے ساتھ حفظ کیا اور سندقر آت حاصل کی۔

سادات نوربخشیہ میں پانچ پشتوں سے حفظ قرآن کی روایت چلی آئی تھی اور ایک زمانہ میں سید اشرف جہانگیر سمنانی کو ستر (۷۰ ) حفاظ کی ہم نشینی کا شرف حاصل تھا۔

سات سال میں اصطلاحات علوم عر بیہ اور مقامات مفہوم عجیبیہ میں ایسی دستگاه کامل حاصل کی کہ پورے عراق میں مشہور ہو گئے۔

لطائف اشرفی میں ہے کہ: جب آپ سات سال کے تھے تو آپ نے قرآن مجید ساتوں قرأت کے ساتھ حفظ کیا اس کے بعد آپ علوم درسیہ کی تکمیل اور ادبیات کی تحصیل میں مشغول ہو گئے، چودہ سال کی عمر تک آپ نے معقولات ومنقولات میں اس درجے مہارت حاصل کر لی کہ عراق کے مدرسوں میں آپ کا چر چاہونے لگا اور ہر جگہ آپ کے علم کی وسعت کا ذکر کیا جانے لگا۔

تکمیل تعلیم کے بعد: 723ھ کو سمنان کے تخت نشیں بنائے گئے, مدت سلطنت 10 سال رہی، بعمر 25 سال سلطنت سے دست بردار ہوگئے-

آپ کے دورحکومت میں سمنان میں علم دین کی خوب خوب ترویج واشاعت ہوئی۔

آپ نے ایک عادل ، منصف حکمراں کی حیثیت سے سمنان میں حکومت کی، آپ کا دور حکومت سیاسی، معاشرتی اور مذہبی ہر لحاظ سے ایک مثالی دور حکومت تھا۔ عہد حکومت کے انمول واقعات بہت مشہور ہیں جو آپ کی سیرت و تذکرہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔

تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، حضرت علامہ مفتی سلطان مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ
تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، حضرت علامہ مفتی سلطان مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ


حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے عہد سلطنت میں علم دین کی خوب خوب ترویج و اشاعت ہوئی آپ کے والد گرامی سلطان سید ابراہیم سمنانی قدس سره نے اپنے عہد حکومت میں سمنان کی سرزمین پر کثیر مدارس اسلامیہ کی بنیاد ڈالی تھی اوران کی بذات خودسر پرستی فرماتے تھے۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ جب تخت سمناں پرجلوہ افروز ہوئے تو آپ نے اپنے عہد میں بھی اس سلسلہ تعلیم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو مزید فروغ دیا اپنے والد گرامی کی طرح ان مدارس کی سر پرستی فرمائی علماء و طلبا کے لئے وظائف مقرر کئے۔ بہت سی نادر کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ کے دور حکومت میں سمنان علوم وفنون کا ایک مرکز بن گیا۔

درس وتدریس:

حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے درس وتدریس کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیئے اور علم دین کے فروغ میں اہم کر دار ادا کیا، کثیر تعداد میں طالبان علوم نبو ی نے آپ سے اکتساب فیض کیا اوراپنی علمی تشنگی بجھائیں، حفظ وقرآت کے ساتھ دیگر علوم وفنون کی بھی آپ نے تعلیم دی، سلسلہ نوربخشیہ کے بے شمار افراد نے آپ کی بارگاہ علم وفضل میں زانوۓ ادب طے کیا اور آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا، درسگاہ کی برکت اس قدرتھی کہ جوآپ کے پاس حفظ وقرات کی تعلیم کے لئے آ تا تومحض ایک ہی سال میں حافظ قرآن اور قاری سبعہ بن جاتا، آپ نے اپنے فرزند معنوی حضرت سید عبدالرزاق نورالعین پاک کو بھی اکثر علوم وفنون کی تعلیم خود دی۔

حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے دو بار دنیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت فرمائی اور تقریبا تیس سال کی طویل مدت تک آپ سفر میں رہے اس درمیان ان گنت علماو مشائخ نے آپ سے اکتساب علم فیض کیا اور لاتعداد علما نے آپ کی شاگردی میں شمولیت پر فخر کیا، چناں چہ سیاحت دنیا کے ایام میں آپ نے مقام قزوین میں بساط درس بچھایا مسلسل پانچ سالوں تک متلاشیان علم وحکمت کو سیراب کرتے رہے۔

شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین المعروف اعلیٰحضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس سلسلے میں یوں تحریرفرماتے ہیں:

"مقام قزوین میں پانچ برس تک درس علمی دیا، جن لوگوں کو حضرت نے فارغ التحصیل کیا ان کی فہرست تواریخ سابقہ مثلاً تاریخ ابراہیمیہ میں مل سکتی ہے علم شریعت میں آپ کے شاگردوں کے صرف نام ہی درج کتاب کی جاۓ تو ایک دفتر ہو جاۓ‘‘۔

حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو درس وتدریس سے اس قدر دلچسپی تھی کہ دوران سفر بھی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتا تھا جب سفر میں حضرت سید عبدالرزاق نورالعین آپ کے ساتھ ہوتے تو جہاں موقع ملتا وہاں درسگاہ لگا لیتے اور تعلیم کا آغاز کردیتے۔

آپ کو علم سے کس قدر شغف تھا اور علم دین کی آپ کے نزدیک کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے چہیتے حضرت سید عبدالرزاق نورالعین کو کچھ مخصوص علوم کی تعلیم دینے کے لئے مولانا جمال الدین بدخشانی کو ایک سال تک سفر میں اپنے ہمراہ رکھا اور اس کے عوض میں انہیں اس قدر زرکثیر سے نوازا کہ تاریخ اسلام میں اس کی مثال بڑی مشکل سے مل سکتی ہے۔

حضرت مخدوم پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راہ سلوک کیلئے ایسی ایسی دشوار گزار گھاٹیوں کو پار کیا ہے جس کا بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

عشقِ الہٰی کی منزل کو پانے کیلئے پہلے اپنے آپ کو اس عشق کی بھٹی میں جلانا پڑتا ہے- یہ وہ حقیقت ہیکہ عالم حقیقت کی بنیاد بھی اسی قاعدہ کلیہ پر ہے-

انبیاء کرام علیھم السلام کا غیر معمولی اذیّتوں پر صبر فرمانا، طرح طرح کے ناگفتہ بہ حالات کا پیدا ہونا، ترک وطن پر مجبور ہونا, صحابہ کرام کی ابتدائی دشواریاں اور خاندان نبوّت کے افراد اطہار کا اپنے لہلہاتے باغ کو لُٹانا کسے نہیں معلوم!

"یہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہماالسلام اور ان کے جگر کے ٹکڑوں کے خون کے قطروں کا رنگ ہے جو باغ اسلام ہرا بھرا اور مجسّمہ اسلام سُر خرو نظر آرہا ہے۔"* رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین-


حضرت مخدوم پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشق الہٰی کی راہ اور طلب مولیٰ کی سبیل میں سب سے پہلا قدم بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی رکھدیا تھا اور پھر ترک سلطنت اور سفر ارادت کے واقعات نے دعوۂ محبّت کی صداقت کو عالم آشکارہ کر دیا-

بارگاہ شیخ میں جذبات خدمات کا وفور سب پر ظاہر ہوچکا تھا- جہانگیری ومقبولیت کا چمکتا تاج جبین اقدس پر رکھ دیا گیا تھا اور وہ وقت آگیا کہ جس نے عاشقانہ لباس پہن کر اس میدان محبّت کی مشکلات کو برداشت کیا تھا اس کا جامہ زیب بدن محبوبیت کے لباس سے ملبوس کیا جائے۔

چنانچہ رمضان المبارک کی ستائیسوں شب کو *"روح آباد کچھوچھہ شریف"* میں حضرت مخدوم پاک رحمتہ اللہ علیہ کو شب قدر ملی، مریدین وخلفاء اور قلندران و ارباب صفا کا اچھا خاصہ مجمع تھا آپ کے جانشین حضرت نورالعین پاک اور خلیفہ ابن خلیفہ حضرت دریتیم بن حضرت شیخ کبیر اور تمامی خلفاء و اصحاب وغیرہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اسی رات کی بیداری میں حاضر تھے کہ مطلع فجر کے وقت سب لوگوں نے سنا کہ ہاتف غیبی نے ندا دی کہ

"اشرف ہمارا محبوب ہے۔"

اس مژدۂ جانفزا کو سنتے ہی خانقاہ اشرفی میں عید کا سماں کھنچ گیا اور نیازمندان بارگاہ کی مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی- مبارک اور سلامت کے نعروں کی آواز بازگشت آسمان سے آنے لگی اور شب قدر کی برکات نے سب کوحسب مراتب مالا مال کر دیا-

حضرت مخدوم پاک علیہ الرحمہ کی عادت کریمہ تھی کہ روزانہ نماز فجر مکہ معظمہ میں ادا فر ماتے تھے اور اس طرح زمان ومکان کی کرامت روز ظاہر ہوتی تھی۔ چنانچہ اس شب قدر کی صبح کو بھی آپ مکّہ معظمہ نماز فجر ادا فرمانے تشریف لے گئے وہاں حضرت شیخ نجم الدین اصفہانی علیہ الرحمہ نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کہ *"محبوب یزدانی"* آئے, آپ کو یہ خطاب خداوندی مبارک ہو دونوں بزرگوں نے اظہار سرور کیلئے معانقہ کیا اس وقت تقریباً پانچ سو مشائخ کرام حرم شریف میں موجود تھے سب نے حضرت مخدوم پاک رحمتہ اللہ علیہ کو مبارکباد دی اور ہر ایک حضرت کی رفعت مرتبت پر خوشاں و شاداں تھا-

اس کے بعد حضرت مخدوم پاک رحمتہ اللہ علیہ جہاں بھی تشریف لے جاتے مشائخ کرام آپ کو *"محبوب یزدانی"* کہہ کر مخاطب کرتے یہاں تک کہ یہ غیبی آواز آسمان وزمین میں گونج اٹھی اور حضرت کی محبوبیت کا پرچم فرش سے عرش تک لہرانے لگا اور ہر زبان مسلم پر نام نامی کے ساتھ *"محبوب یزدانی"* کا لقب جاری ہوگیا- سبحان اللہ!


محبوب یزداں میرے شاہ اشرف پیا

ان کی نورانی تربت پہ لاکھوں سلام


دکھایا جوہر  علمی  لیاقت اس کو کہتے ہیں

ہوئی تصنیف ہرفن میں بلاغت اس کو کہتے ہیں

اٹھایا جب قلم جس علم کو چاہا کیا ظاہر

لکھے مضموں عجب نادر ذہانت اس کو کہتے ہیں


تصانیف، علمی وادبی خدمات:

حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزید صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف بزرگ تھے آپ ایک ہی وقت مصنف مؤلف، مترجم، مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر، نعت گو شاعر اور شارح تھے۔بیشتر علوم و فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔آپ نے اپنے علم و روحانیت کے ذریعے تبلیغ دین کا فریضہ بخوبی انجام دیا اور اس مقصد کے لئے تحریر و تقریر دونوں سے اہم کام کیا۔

آپ نے بہت ساری کتب تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں، لیکن اب بھی الحمد اللہ کچھ کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں۔اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں۔ اکثر کتاہیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جس طرح ایک کتاب فوائدالعقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ آپ کی تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرماۓ ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے, اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

اردو زبان کا سب سے پہلا ادیب آپ ہی کی ذات اقدس کو مانا جاتا ہے۔ اردو زبان میں سب سے پہلا رسالہ بنام "اخلاق وتصوف" آپ نے ہی تصنیف فرمایا ہے۔

قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ سب سے پہلے آپ نے ہی فرمایا ہے۔

اعلیٰحضرت اشرفی میاں قدس سرہ النورانی اپنی مشہور و معروف کتاب صحائف اشر فی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

حضرت مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی جامع لطائف اشر فی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روۓ زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کر کے وہاں کے لوگوں کے

لئے چھوڑ آتے۔ بہت سی کتابیں آپ کی عربی، فارسی، سوری اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جاۓ تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول تھا کہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علما اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف ہوۓ ہوں۔

کتاب کنز الاسرار, ذکر اسمائے الہی اور تسخیر کواکب حضرت نے تالیف فرمائیں جس کی تعلیم مجھ کوحضور سے حاصل ہوئی تھی۔ یہ عجیب کتاب آپ کی تالیفات میں سے تھی۔ آپ کی تصانیف اس قدر ہیں کہ جس کی فہرست لکھنا محال ہے۔

اسلامی ہند کی ترویج علم تاریخ میں حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے  بے مثال کارنامے اور آپ کے بالواسطہ و بلاواسطہ خلفا و مریدین کی بے بہا خدمات امتیازی شان رکھتے ہیں۔

عالم اسلام میں خانوادہ اشرفیہ کی باوقار شخصیتوں نے ہر دور میں علمی وروحانی فیضان کے ایسے ایسے انمول گوہر لٹائے ہیں۔ جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔

عالم اسلام پر خانوادہ اشرفیہ کے علمی و روحانی فیضان کی زندہ جاوید مثال ازہر ہند الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور و دیگر جامعات و خانقاہ ہیں۔

اعلیحضرت اشرفی میاں قدس سرہ نے مخدومی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور کی بنیاد ڈالی اور ارشاد فرمایا کہ : *"مدرسہ بہت ترقی کرے گا فتنہ بھی اٹھے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے۔"

اور اکثر ارشاد فرماتے"اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا"

اور آج اشرفی فیضان سے الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور ازہر ہند بنا ہوا ہے اور ہزاروں تشنگان علم ہرسال یہاں سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور دنیا کے اکثر گوشے فرزاندان اشرفیہ (مصباحی علما) کے ذریعہ مخدومی فیض سے فیضیاب ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت مخدومی فیضان سے مالامال ہوتے رہینگے۔

خانوادہ اشرفیہ کا ہر فرد مخدومی مشن کو فروغ دینے اور علمی وروحانی وراثت کا فیض لٹانے میں پیش پیش ہے۔

جس کی کچھ جھلکیاں پیش ہیں:

جامع اشرف:

روضہ مخدوم پاک کے قریب اہلسنت وجماعت کاعظیم الشان ادارہ اپنی ہمہ جہت خوبیوں سے عالم اسلام میں علمی وروحانی فیضان لٹارہا ہے۔

مخدوم اشرف مشن:

پنڈوہ شریف ویسٹ بنگال میں اہلسنت وجماعت کا ایک عظیم و منفرد علمی و روحانی ادارہ۔ جہاں الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور کے نصاب کے مطابق دینی اور عصری تعلیم دی جاتی ہے۔

اس ادارہ کو سیدی ومرشدی نبیرہ ہم شبیہ غوث الثقلین حضور اشرف الاولیا ابوالفتح حضرت سید مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے مخدومی مشن کے فروغ کے لئے اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے۔

مخدوم اشرف مشن کے بارے میں بانی مخدوم اشرف مشن حضور اشرف الاولیا کی پیشینگوئی:

"یہ ادار ہ ایک منفر دالمثال ادارہ ہو گا اس ادارے کے اثر سے اسکول و کالج بھی چلیں گے، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہاں طلبہ کو عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیاجاۓ گا تا کہ یہاں کے فارغین ہر میدان میں اپنے علم و ہنر کے ذریعے دین کی خدمات انجام دے سکیں، طبی سہولتوں کا بھی انتظام ہو گا، گاؤں گاؤں مریضوں کےلئے طبی خدمات فراہم کی جائیں گی، رفاہ عام اورغریوں کی امداد کے لئے بیت المال بھی قائم ہو گا، ریسرچ سنٹر بھی قائم ہو گا، علما آ پس میں بیٹھ کر تحقیق وجستو اور علمی گفتگوبھی کر یں گے، جو یہاں سے پڑھ کر نکلے گا جہاں جہاں جاۓ گا کامیاب رہے گا مخد وی فیضان اس کے ساتھ ر ہے گا‘‘۔

حضور اشرف الاولیا علیہ الرحمہ کی دعاؤں کا اثر, حضور غوث العالم قدس سرہ کا علمی وروحانی فیض اور جانشین حضور اشرف الاولیا پیر طریقت حضرت سیدجلال الدین اشرف اشرفی جیلانی مدظلہ النورانی کےعمل پیم، جہدمسلسل اور عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہےکہ آج عالم اسلام میں مخدوم اشرف مشن گہوارہ علم و عرفاں اور چمنستان حکمت و معرفت بن گیا ہے۔

اسی طرح وابستگان سلسلہ اشرفیہ کے ہزاروں ادارے و خانقاہیں عالم اسلام میں علمی وروحانی فیض لٹاکر مخدومی مشن کو عام کررہی ہیں۔

بیعت وخلافت:

حضرت قدوة الکبریٰ، تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، سلطان سید مخدوم اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ راہ خدا میں سمنان کی سلطنت ترک کرنے کے بعد حضرت خضرعلیہ السلام کی رہنمائی میں عازم ہندوستان ہوئے۔ یہاں مخدوم العالم شیخ عمر علاء الحق والدین گنج نبات لاہوری ثم پنڈوی قدس سرہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ سمنان سے پنڈوہ شریف بنگال ہندوستان کا سفر 2؍ سال میں مکمل ہوا۔ اس سفر کے دوران حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ سے مقام اوچ میں ملاقات ہوئی۔ وہاں چند ایّام آپ نے قیام فرمایا پھر انھوں نے بے شمار فیوض وبرکات سے نوازتے ہوئے پنڈوہ شریف پہنچنے کی وصیت فرمائی۔ وہاں سے پنڈوہ شریف پہنچے، یہاں حضرت مخدوم العالم شیخ علاء الحق والدین چشتی پنڈوی گنج نبات لاہوری قدس سرہ نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔

تبلیغ دین وسفرحرمین طیبین:

بلاد شرقیہ سے واپسی کے بعد غوث العالم حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے دوسری بار سفر پنڈوہ شریف اختیار فرمایا اور چار سال تک اپنے پیر و مرشد کے فیوض و برکات حاصل کرتے رہے، پنڈوہ شریف سےواپسی کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کا دوبارہ قصد کیا۔

 اسی سفر میں آپ اپنی خالہ زاد بہن سے ملاقات کے لیے جیلان تشریف لے گئے اور اپنے بھانجے *نورالعین حضرت سید عبدالرزاق جیلانی* ابن حضرت سید عبدالغفور جیلانی کو اپنی فرزندگی میں قبول فرمایا۔

حضرت غوث العالم, محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کو اپنے پیر ومرشد کی طرف سے جون پور کی ولایت سپرد ہوئی, لہذا آپ پنڈوہ شریف سے جون پور کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد بلاد شرقیہ و ممالک اسلامیہ کی سیر فرمائی۔ جزیرۃ العرب، مصر، شام، عراق، اور ترکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں کا سفر فرمایا اور وہاں کے مشہور علما، مشائخین اور اولیا اللہ سے ملاقاتیں کیں اور فیوض و برکات حاصل کیے۔

اسی سفر کے دوران آپ کے مشہور مرید وخلیفہ اور ’’جامع لطائف اشرفی‘‘مرجع علما وفضلا, منبع فیوض وبرکات حضرت حاجی نظام الدین یمنی علیہ الرحمہ داخل سلسلہ ہوئے اور آخری دم تک حضرت مخدوم قدس سرہ کے سفر وحضر میں ساتھ رہے۔

مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی قدس سرہ نے اندورن ملک جون پور، ظفرآباد، محمد پور گہنہ، کرمینی، بھڈوڈ، اجودھیا، سدھور، جائس، لکھنو، کنتور، رودولی، بہارشریف، گل برگہ، دہلی، اجمیر شریف، پاک پٹن شریف، سراندیپ اور گجرات وغیرہا بے شمار جگہوں کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ آپ تبلیغ کے لیے جہاں بھی جاتے وہاں نہ صرف مسلموں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیتے تھے۔

آپ نے ہزاروں غیر مسلموں کو مشرف باسلام کیاتھا۔ ۸۰۵ھ مطابق۱۴۰۳ء کو جون پور سے واپسی کے بعد آپ کچھوچھہ مقدسہ ہی میں رہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو سوسال سے زائد عمر عطافرمائی تھی۔ عمر کابیشترحصہ آپ نے اسلام کی نشرواشاعت کے لیے پوری دنیا کا سفر کرتے ہوئے گذاردیا۔

حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد حضرت علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ ﷲ علیہ کے حکم پر تبلیغ دین کے لئے روانہ ہوگئے آپ نے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی تبلیغ کے سلسلے میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں اور بہت ہی خطرناک جادوگروں سے مقابلے ہوئے، لیکن کوئی بھی آپ کے سامنے نہ ٹھہرسکا آپ نے اس سلسلے میں تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا۔

خانقاہ روح آباد کچھوچھہ مقدسہ کا قیام:

حضرت قدوة الکبریٰ، تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، سلطان سید مخدوم اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ فرمان شیخ کے مطابق اپنی آخری آرام گاہ کی تلاش میں موضع بھڈونڈ میں ایک باغ میں فروکش ہوئے۔ اس اطراف کے آدمی حاضر ہوکر شرف ملازمت سے مشرف ہوئے۔

سب سے پہلے ملک الامراء محمود رئیس موضع مذکور شرف ملازمت سے مشرف ہوئے, حضرت محبوب یزدانی نے ان کے حال پر کمال عنایت مبذول فرمائی۔ جب قیلولہ کا وقت آیا، درخت بڑ کے نیچے حضرت نے آرام فرمایا، بعد زوال شمس جب آپ بیدار ہوئے حاضرین نے دیکھا کہ درخت کی جو شاخ پورب سے سایہ فگن تھی اب بعد زوال آفتاب وہی شاخ پچھم کو پھر گئی اور حضرت پہ سایہ کئے ہوئے تھی. اللہ اکبر!

تھوڑی دیر بعد ملک الامراء محمود کو ہمراہ لیکر حلقہ تالاب کے اندر سیر کرنے کیلئے تشریف لے گئے. فرمایا میرے مرشد نے اسی جگہ کیلئے مجھ کو حکم دیا تھا. اس حلقہ کے اندر کون سی جگہ اچھی ہے۔

ملک محمود نے عرض کیا کہ حلقۂ تالاب کے وسط میں ایک جوگی رہتا ہے اس کی جگہ نہایت پر فضا ہے لیکن وہ استدراج سے خالی نہیں. اگر خدام والا اس کا مقابلہ کر سکیں تو اس سے بڑھکر دوسری جگہ نہیں.

فرمایا : قُل جَاءَ الحَق الخ۔ ترجمہ: کہو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا. تحقیق کہ باطل مٹنے والا تھا۔

ملک محمود حضرت کو وہاں لے گئے، جب نظر مبارک اس مقام پر پڑی فرمایا ہماری جگہ یہی ہے جس کو حضرت مخدومی نے فرمایا تھا۔ بے دینوں کے گروہ کا اٹھانا سہل ہے۔آپ نے ایک خادم سے فرمایا کہ جوگی سے کہدو کہ یہاں سے نکل جائے. اس کے جواب میں جوگی نے کہلا بھیجا کہ : *میرا نکلنا آسان نہیں ہے پانچ سو جوگی میرے چیلے ہیں. اگر کوئی اپنے قوّت ولایت سے سب کو نکال دے تو ممکن ہو سکتا ہے ورنہ میرا نکلنا مشکل ہے.

حضرت محبوب یزدانی (قدس سرہ النورانی) نے جمال الدین راؤت سے جو کہ اسی دن مرید ہوئے تھے فرمایا کہ : "جاؤ! جو کچھ جادو اور سحر وہ کرے اس کو رد کرو اور جو کرامات چاہے دکھلاؤ".

حضرت جمال الدین تھوڑی دیر تامّل کرکے خاموش ہوگئے. حضرت نے ارشاد فرمایا : آگے آؤ۔ حضرت پان کھارہے تھے اسی پان میں سے تھوڑا سا اپنے دست اقدس سے ان کے منہ میں ڈال دیا. پان کھاتے ہی حضرت جمال الدین اشرفی کچھار کے شیر بن گئے. شیر دلیر کی طرح قدم آگے بڑھایا.

اسی اثنا میں حضرت نے فرمایا کہ: *"اس خاندان مشہورہ سے جوگی کیا مقابلہ کرے گا لیکن ہم کو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے."*

جب جمال الدین راوت کا مقابلہ جوگی سے ہوا تو جوگی نے اپنی قوت سحر اور استدراج سے چیونٹیوں کا سیلاب چھوڑ دیا. جب جمال الدین کی طرف وہ چیونٹیاں چلیں تو حضرت جمال الدین نے جلال بھری نگاہ چیونٹیوں کی طرف ڈالی، نگاہ کرنا تھاکہ چیونٹیاں میدان سے غائب ہوگئیں. ایک لحظہ کے بعد جوگی نے شیروں کا لشکر چھوڑا حضرت جمال نے فرمایا : *"یہ شیر نیسان شیر یزداں کا کیا مقابلہ کرینگے".*

آخر وہ شیر بھی غائب ہوگئے. پھر جوگی نے اپنے سونٹے کو ہوا میں اڑایا. حضرت جمال الدین نے حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کے عصائے مبارک کو منگوایا اور ہوا پر چھوڑ دیا. حضرت کے عصائے مبارک نے جوگی کے سونٹے کو مار مار کر زمین پر گرا دیا.

جب جوگی نے یہ کرامت دیکھی عاجزی کرنے لگا اور کہنے لگا کہ مجھ کو حضرت کے پاس لے چلو کہ شرف ایمان سے مشرف ہوؤں. حضرت جمال الدین علیہ الرحمہ جوگی کا ہاتھ پکڑے ہوئے لائے اور قدم مبارک پر لاکر ڈال دیا. آپ نے تلقین کرکے شرف اسلام سے مشرف کیا اور اس کے چیلے پانچ سو جوگی بھی مسلمان ہوگئے اور اپنے مذہب کی کتابیں لاکر حضرت کے سامنے جلادئے. 

جب جوگی شرف اسلام سے مشرف ہوئے، حضرت محبوب یزدانی نے اپنے اصحاب سے فرمایا قلندران ہمراہی سے کہوکہ اپنا خیمہ مع اسباب یہاں لاکر اقامت کریں.

حضرت نے اپنے اصحاب کیلئے ایک ایک جگہ حجرہ بنانے کی اجازت عطا فرمائی. ملک الامراء ملک محمود نے تھوڑے دن میں تیّار کروادیا. تمام سادات نواحی آکر شرف بیعت سے مشرف ہوئے. 

جب دوچار برس وہاں قیام ہوا. حضرت نے اس کا نام *روح آباد* رکھا. ایک مقام پر خانقاہ عالی سے باہر امارات تیّار کی، اس کا نام *کثرت آباد* رکھا، حجرہ خاص جہاں حضور قیام فرماتے تھے اس کا نام *وحدت آباد* رکھا. 

کسی وقت مع اصحاب مشرق کی جانب لب تالاب تشریف لے جاکر بیٹھتے تھے اور اسرار و معرفت بیان فرماتے تھے اس مقام کا نام *دارالامان* رکھا. اور ایک جگہ لب تالاب گوشہ شمال کی طرف بھی کبھی کبھی جلوس فرماتے تھے اس کا نام روح افزا رکھا.

اور بار بار اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ:

"اس مقام پر ایسی رونق ہوگی کہ اس جوار میں بے نظیر ہوگا اور اولیائے روزگار اور اکابر دیار یہاں آئینگے اور مردان رجال الغیب اور اوتاد و اخیار اور دیگر اولیاء ہمیشہ یہاں آکر فیض حاصل کریں گے. سب لوگ خبردار رہیں اور اس فیض سے محرومی حاصل نہ کریں."

کرامات محبوب یزدانی:

حضرت قدوة الکبریٰ، تاجدار ولایت، امام العلما، رئیس القرا، افتخار الشعرا، تارک السلطنت، غوث العالم، محبوب یزدانی، محدث، مفسّر، حافظ وقاری، سلطان مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی کرامات اورخوارق عادات اس قدر ہیں کہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے مگر حصول برکت کیلئے بعض کرامتوں کا ذکر کیا جاتا ہے-

ایک بت کا حسین عورت بن جانا:

حضرت محبوب یزدانی رحمتہ اللہ علیہ جب احمد آباد گجرات میں تشریف رکھتے تھے، آپ کے اصحاب ہمراہی تفریحاً سیر کو چلے گئے، ایک باغ میں گذر ہوا اسمیں حسین معشوقوں کا مجمع تھا، اس جماعت میں ایک فقیر نہایت حسین مہ جبین دیکھا گیا، حضرت کے ہمراہی اس فقیر کو دیکھنے لگے-

ایک شخص نے کہا ذرا بت خانے کے اندر جاکر دیکھو جو نگار خانہ چین سے ایک ایک حسین تصویر پتھر کی تراش کر بنائی گئی ہیں- سب لوگ بت خانہ میں دیکھنے گئے- مولانا گلخنی بھی اس جماعت میں تھے، جب بت خانہ میں گئے ایک عورت کی تصویر حسین مہ جبین پتھر کی تراشی ہوئی نظر آئی دیکھتے ہی ہزار جان سے عاشق ہوگئے، بت کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ اٹھ چل-

ہر چند یاران صحبت نے نصیحت کی لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا-

حضرت عشق نے جب اپنا اثر دکھایا، صبر وقرار، ہوش وحواس سب کے سب کنارہ کش کر دیا- چند روز بے آب و دانہ اس بت نازنین کا ہاتھ پکڑے ہوئے کھڑے رہے، جب اس حالت کو عرصہ گذر گیا حضرت محبوب یزدانی رضی اللہ عنہ کے خدمت میں ان کی حالت عرض کی گئی-

آپ نے فرمایا : "میں خود جاؤں گا اور اس کو دیکھونگا"-

جب تشریف لے گئے بہت سے لوگ حضرت کے ہمراہ چلے، جب آپ کی نظر مبارک مولانا گلخنی پر پڑی عجیب حالت بے خودی میں دیکھا کہ کسی آدمی پر ایسی مصیبت وصدمہ عشق نہ ہو- ان کا حال دیکھ کر آپ پر رقّت طاری ہوگئی آپ نے فرمایا : *"کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس صورت سنگین میں روح سما جاتی اور زندہ ہو جاتی"۔*

زبان مبارک سے یہ فرما نا تھا کہ اس مورت میں جان آگئی اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی،

جتنے لوگ اس مجمع میں حاضر تھے سب نے شور"سبحان اللہ سبحان اللہ"بلند کیا

اورکہا کہ مُردوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جِلادیتے تھے، حضرت کی یہ کرامت اعجاز عیسوی کی مظہر ہے-

حضرت محبوب یزدانی رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا گلخنی کا نکاح اس بت نازنین سے کر دیا اور ولایت گجرات ان کے سپرد کرکے وہیں ٹھہرا دیا- اس بت سنگین سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی اس کے ہاتھ کی چھنگلیاں میں ایک گرہ پتھر کی پیدائشی ہوتی تھی- یہ علامت نسل مادری بچوں میں ہوتی تھی-


بلّی کا حق وباطل میں فرق کرنا:

حضرت محبوب یزدانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ فضائل و کمالات شیخ نجم الدین کبریٰ رحمتہ اللہ علیہ فرما رہے تھے کہ ان کی نگاہ تصرف سے کتّا ولی ہو گیا تھا۔

حضرت کے خلیفہ قاضی رفیع الدین کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ آیا اس زمانہ میں بھی کوئی ایسا ولی ہوگا کہ جس کی تاثیر نذر سے جانور ولی ہو جائیں۔ حضرت محبوب یزدانی علیہ الرحمہ کے قلب مبارک پر ان کا خطرہ ظاہر ہو گیا, ہنس کر فرمایا کہ شاید عالم میں کوئی ہو۔

حضرت محبوب یزدانی کے مرید کمال جوگی کے یہاں ایک بلی تھی، کبھی کبھی حضرت محبوب یزدانی کی نظر اس پر پڑجاتی تھی, فرمایا کہ کمال جوگی کی بلّی کہاں ہے میرے سامنے لاؤ۔ جس وقت اس بلّی کو حضرت کے سامنے لایاگیا حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کچھ اسرار ومعرفت بیان فرما رہے تھے، کہتے کہتے ایک حالت پرجوش طاری ہوگیا اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا, حاضرین پر ایک ہیبت چھاگئی۔ معلوم ہوتاتھا کہ حضور کے قلب مبارک سے روح پرواز کیا چاہتی ہے۔

کمال جوگی کی بلّی کان لگاکر حضرت کے کلمات معرفت کو سُن رہی تھی، یہانتک کہ اس کی یہ حالت ہوگئی کہ زمین سے قدِ آدم اچھل گئی اور از خود رفتہ ہوگئی، ایک پہر تک بیہوش پڑی رہی جب ہوش میں آئی حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کے قدموں پر بوسہ دینے لگی اور آپ کے گرد طواف کرنے لگی۔ اس کے بعد حضور محبوب یزدانی کچھ کلام معرفت بیان فرماتے تو حضور کی مجلس میں آکر بیٹھتی اور سنتی۔

اس بلّی کا یہ عالم ہوگیا کہ جب کوئی مہمان خانقاہ عالی میں آتے تو ان کی تعداد کے موافق آواز دیتی باورچی اسی قدر مہمانوں کا کھانا پکاتا اور بی بی گربہ کو باقاعدہ دسترخوان بچھاکر ہر قسم کا کھانا پیش کیا جاتا۔ کبھی حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ اگر کسی اصحاب کو بلانا چاہتے تو بلّی سے فرمادیتے، وہ ان کے مکان پر جاکر آواز دیتی۔ وہ سمجھ جاتے کہ حضرت نے بلایا ہے۔

ایک دن حضور محبوب یزدانی کی خانقاہ میں جماعت درویشان مسافر آئی۔ بلی نے بعادتِ معمولہ تعداد درویشان کے موافق آواز دی, مگر کھانا بھیجنے کے وقت ایک شخص زیادہ نکلا۔ حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ نے بلّی کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ آج بلّی نے کیونکر خطا کی اور ایک مہمان زیادہ کی خبر نہیں کی۔ بلّی فوراً باہر گئی اور ان مہمانوں کی جماعت میں پہونچی، ہر شخص کو سونگھتی تھی اور چھوڑ دیتی تھی، ایک شخص اس جماعت کا سر حلقہ تھا، جب اس کو سونگھا تو اس کے زانوں پر جا بیٹھی اور پیشاب کر دیا۔

حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ نے جب معائنہ فرمایا تو ارشاد فرمایا کہ : "غریب بلّی کا کچھ قصور نہیں، یہ مرد بیگانہ تھا".

وہ درویش کھڑا ہوا اور حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کے قدموں پہ گر پڑا, اور عرض کرنے لگا کہ بارہ برس سے میں مذہب دہریہ رکھتا ہوں اور مسلمانوں کے لباس میں رہتا ہوں اور بزرگوں کی خانقاہوں میں پھرتا ہوں، اس نیّت سے کہ کوئی میرا نفاق ظاہر کرے تو میں اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو جاؤں۔

آج حضرت کی بلّی نے مجھ کو پہچان لیا، اب میں توبہ کرتا ہوں اور مسلمان ہو جاتا ہوں۔

سبحان اللہ! کیا فضل وکمال حق تعالیٰ نے حضرت محبوب یزدانی کو عطا فرمایا تھا جس کی تاثیر نظر سے بلّی میں یہ کمال پیدا ہوگیا تھا کہ وہ حق و باطل میں فرق کر دیتی تھی۔

حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ نے اس دہریہ کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا، اس کے بعد اس کو ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول رکھا. جب تصفیہ باطن میں کامل ہوگئے تو تاج خلافت دیکر بندگان خدا کی ہدایت کے واسطے شہر استنبول بھیج دیا۔

حضرت قدوة الکبریٰ غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان مخدوم سید اوحدالدین اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی مستقل عادت تھی کہ محرّم الحرام کے عشرے میں عاشورہ کرتے تھے-

آپ نے اپنے ظاہری حیات مقدسہ کے آخری سال ہر عزیز وبڑے چھوٹے کو نسبت سے اشتغال کا حکم دیا اور اس سال کا عشرہ اصحاب نے تلاوت قرآن میں بسر کیا-

جب عاشورے کا دن آیا تو آپ کے حال میں کسی قدر تغیّر نمایاں ہوا- اسی روز رحلت کرنے کے درپے تھے کہ حضرت شیخ نجم الدین اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ جو شیخ حرم تھے عالم سیر میں آئے اور فرمایا:

"نہیں نہیں فرزند اشرف چند روز انتظار کرو ایک مصلحت ہے اس کی تکمیل باقی رہ گئی ہے-"

 بیماری کے آثار کم ہوگئے گردونواح کے بزرگ حاضر ہوئے اور عیادت کے شرائط بجا لاۓ- حضرت قطب عالم بطریق سیر آۓ اور شیخ الاسلام رومی بھی تشریف لاۓ- حضرت مخدوم زادے نے بسلسلۂ عیادت کہاکہ: *"بھائی اشرف! حضرت مخدومی کے اسرار اور آثار کے جامع اور یادگار ہیں ان کی حیات اور زیادہ ہوگی-" آپ نے فرمایا کہ: 

"بعد ازیں مخدوم زادے کو بقا اور صحت ارزانی ہو کہ ہمارے اور محبوب کے درمیان ہلکا سا پردہ رہ گیا ہے، کیا (مخدوم زادے) نہیں چاہتے کہ دوست دوست کے ساتھ مل جائے-"

ان کلمات کے سنتے ہی اہل مجلس پر کیفیت طاری ہو گی ہر مصاحب وجدو رقت کے عالم میں پہنچ گیا- تاریخ پندرہ محرّم الحرام سنہ سات سو اٹھانوے ہجری کو اخیار اور ابرار آۓ ان حضرات نے عرض کیا کہ اے دور وجود کے نقطے اور پرکار مقصود کے مرکز! اگر اکابر کی رحلت میں چند روز ہل وعقد کی خاطر تاخیر ہوجاۓ تو کیا ہوگا اور وہ اسی سفلی خاک دان میں رہیں تو بہتر ہی ہے-

حق تعالیٰ نے مقصود کی کنجی آپ کے ہاتھ میں دی ہے اگر چاہیں تو رہیں چاہیں تو منتقل ہوجائیں- آپ نے فرمایا کہ اے اخیار و ابرار! بارہ سال کا عرصہ گزرا کہ آسمان اور زمین کے خزانوں کی کنجی مجھے سونپی گئی ہے کہ تم تصرف میں لاؤ لیکن میں نے بخیال ادب تصرف نہیں کیا، زندگی کی لگام میرے سپرد کی گئی ہے اگر چاہوں تو رہوں لیکن میں کب تک اس خاکدان سفلی میں رہوں گا، مجھے یہ پسند نہیں ہے اب میں گلزار علوی کی جانب پرواز چاھتا ہوں-

اس درمیان اس قدر مخلوق توبہ، انابت اور خلافت سے سرفراز ہوئی کہ اس کی تفصیل خدا ہی کو معلوم ہے-

محرّم الحرام کی ٢٨ تاریخ کو نیلی پوش صبح نے خورشید کا شفق رنگ آنسو ٹپکاتے ہوئے آنکھ کھولی، غلاف مخالفت سے ماتم آمیز و تعزیت انگیز تلوار نکالی، غموں کے ذراّت اطراف میں بکھر گئے-

زوال آفتاب کے قریب سبھی اصحاب کو قریب بلایا اور سب کو نوازشات سے نوازا اور چاروں خلعتیں جو بزرگان دین سے آپ کو ملی تھی حضرت نورالعین پاک پر نچھاور کردیں اور تبرّکات خاندانی عطا فرماکر اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور فاتحہ پڑھی پھر فرمایا:

نورالعین میرے فرزند برحق اور خلیفہ مطلق ہیں، جو شخص ان کے حلقے سے سرتابی کرےگا پھل نہیں پائے گا اور جو ان کے حلقے میں داخل ہوگا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب رہے گا۔

پھر حضرت نورالعین پاک کے صاحبزادوں کو طلب فرمایا اور انہیں بھی تبرّکات سے نوازا اور دعا دی- اس کے بعد فرمایا :

"جو ہمارے فرزندوں کا دوست ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو ہمارے فرزندوں کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارا دشمن ہے وہ جملہ خاندان چشت اور دودمان اہل بہشت کا دشمن ہوگا-

جب آپ تمام عنایات اصحاب اور فرزندوں کے حق میں ارزانی فرماچکے تو حضرت نورالعین پاک کو ظہر کی نماز کی امامت کیلئے آگے کیا اور خود نے اور تمام موجود لوگوں نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی جب نماز پوری ہوچکی تو پہلے خود آپ نے ان کی تواضع کی پھر تمام اصحاب نے ترتیب سے اپنے سَر جُھکائے-

نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز ہوئے اور شیخ سعدی کے ایک شعر پر آپ کو کیفیت طاری ہوگئی اور وجد کی کیفیت میں خالق حقیقی کے دربار اقدس میں پہنچ گئے-

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

آپ کا مزار پُر انوار کچھوچھہ شریف ضلع امبیڈکر نگر یوپی میں مرجع خلائق ہے اور ہمارے دلوں کا چین و سکون اسی در سے منسلک ہے-

خصوصی التجا:

آج یوم عُرس محبوب یزدانی قدس سرہ کے پُرنور موقعہ پر حسب استطاعت خوب خوب ایصال ثواب پیش کریں اور دارین کی نعمتوں سے فیضیاب ہوں-

اللہ رب العزت ان کے مزار اقدس پہ رحمت و نور کی بارشیں نازل فرماۓ اور ہم غلامان اشرف کو محبوب یزدانی کے فیوض وبرکات سے مالا مال فرماۓ۔ 

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

اسیر اشرف الاولیاء

محمد ساجد حسین اشرفی

Post a Comment

0 Comments