حديث : عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ : اهْدِيَتْ لَهُ شَاةٌ، فَجَعَلَهَا فِي الْقِدْرِ فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا أَبَا رَافِعٍ؟ فَقَالَ : شَاةً أُهْدِيَتْ لَنَا يَارَسُوْلَ اللَّهِ فَطَبَخْتُهَا فِي الْقِدْرِ، فَقَالَ : نَاوِلْنِي الذِرَاعَ يَا أَبَا رَافِعٍ ، فَنَاوَلْتُهُ الذِرَاعَ، ثُمَّ قَالَ: نَاوِلنِي الذَّرَاعَ الْآخَرَ، فَناوَلْتُهُ الذِرَاعَ الْآخَرَ، ثُمَّ قَالَ : نَاوِلنِى الذِرَاعَ الْآخَرَ فَقَالَ : يَارَسُولَ اللَّهِ انمَالِلشَّاةِ ذِرَاعَانِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ أَمَا إِنَّكَ لَوْمسكَتَّ لَنَاوَلْتَنِي ذِرَاعًا مَا سَكَتُ . (إلى آخر الحديث) (مسند احمد جلد٧ص ۵۳۸ حدیث ٢٦٦٥٤، کنز العمال حدیث:(۳۱۸۱۶)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابو رافع ﷺ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ان کے پاس ہدیہ کی ایک بکری آئی۔ انہوں نے اس کا گوشت تیار کر کے ہانڈی میں ڈالا اور پکایا۔ رسول اللہ تشریف لائے تو پوچھا: ابورافع کیا ہے ہانڈی میں؟ انہوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ ہمارے پاس ہدیہ میں ایک بکری آئی تھی، میں نے اس کا گوشت تیار کر کے پکایا۔ رسول اللہ نے فرمایا: ابو رافع ! مجھے اس کا دست دو۔ میں نے دست پیش کیا۔ (آپ نے تناول فرمایا ) پھر فرمایا: دوسرا دست لاؤ! میں نے وہ بھی پیش کیا۔ پھر فرمایا اور دست لاؤ ؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! بکری کے دو ہی دست ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابو رافع ) اگر تو خاموش رہتا تو جب تک میں دست مانگتا رہتا تو دست پیش کرنا رہتا۔
مسلمانو!
کیا یہ حدیثیں اس بات کی شہادت کے لئے کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک حضور سرکار مدینہ ، راحتِ قلب وسینہ سید نا محمد مصطفے ﷺ کو کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ آپ کو شہنشاہ کونین اور کائنات کے خزانوں کا خازن وقاسم بنایا۔ جو شہنشاہ کونین ہو ،خدا کی نعمتوں کو بندوں میں تقسیم کرنے والا ہو، رب کے خزانوں کی کنجیاں جس کے ہاتھ میں ہوں، جس کی حکومت بحرو بر پر چلتی ہو، جسے رب تعالیٰ نے اپنا خلیفہ اعظم و محبوب بنایا، جس کے بغیر اللہ تک پہنچنا ناممکن ہے، کیا وہ بندہ عاجز و مجبور ہوگا ؟ وہ کسی بھی چیز کا مالک و مختار نہ ہو گا؟
حضور نبی کریم ﷺ کی حدیثیں تو یہ کہتی ہیں نبی اپنی قبر مبارک میں اسی طرح باحیات ہیں جس طرح دنیا میں جسم کے ساتھ باحیات تھے۔ آپ اللہ کے با اختیار نبی ہیں، شہنشاہ بحرو برو مالک کو نین ہیں، کائنات میں جیسا چاہیں تصرف فرمائیں، اللہ نے سب کچھ آپ کے اختیار میں دے دیا ہے۔ لیکن دیو بندیوں ، وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ۔( تقویہ الایمان / ۲۸ راشد کمیٹی دیوبند)۔
مولوی اسمعیل دہلوی نے یہ بھی لکھا: ”اولیاء و انبیاء، امام و امام زادے پیرو شہید یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہیں اور عاجز بندے اور ہمارے بھائی ۔ مگر ان کو اللہ نے بڑائی دی وہ بڑے بھائی ہوئے ۔ ( تقویۃ الایمان (۲۲ مصنفہ مولوی اسمعیل دہلوی راشد کمپنی دیو بند )
للہ ! انصاف سے بتائیے کہ احادیث کریمہ کے مطابق نبی کریم ﷺ کو شہنشاہ کونین، زمین کا مالک، بے مثل و مثال قدرت و تصرف کا مالک، اللہ کا محبوب و مختار، مخلوق کا ماوی و ملجا اور فریادرس مانا جائے یا وہابیوں کے پیشوا اسماعیل دہلوی کے مطابق انہیں اللہ کا عاجز، بے اختیار اور معاذ اللہ چہار سے زیادہ ذلیل بنده؟ - ( تقویه الایمان ص ۱۳) اب فیصلہ آپ کے ایمانی ضمیر کے حوالے کرتا ہوں۔
0 Comments