گو خاک کی آغوش میں وہ مہر مبیں ہے
ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل سوگوار ہے
آہ۔۔۔۔ چچا جان !۔۔۔۔مولانا مطیع الرحمن اشرفی بھی مرحوم ہوگئے، کس زبان سے کہوں اور کس قلم سے لکھوں کہ چچا جان مرحوم ہوگئے ۔شفقت کا سایہ اٹھ گیا،خلوص اور پیار و محبت کا ایک جہان ویران ہوگیا ،وہ دل آویز مسکراہٹ کہیں گم ہوگئی اور زعفران زار قہقہوں سے ہم محروم ہوگئے۔وہ شیریں گفتگو اور میٹھے بول اب کہاں سننے کو ملیں گے اور ان کی پر رونق مجلس کہاں ملے گی۔ہائے آج تو الفاظ بھی بے وفا سے ہورہے ہیں ، قلم بھی چند قدموں پہ ہی ہانپنے لگ رہا،انگلیاں بھی روٹھی روٹھی سی لگ رہی ہیں ۔مولیٰ! تو احکم الحاکمین ہے ۔ ہم تو تیرے نادار و ناتواں گنہگار بندے ہیں ،الٰہی! ابتلاءو آزمائش کی گھڑی سے ہماری حفاظت فرما!کیسے اپنے دل کو سمجھاﺅں اور اسے دلاسا دوں کہ جانے والا کون تھا ؟ کیسا تھا؟ وہ بچوں میں بچہ تھا جس کی معصومیت قابل گوارا تھی،وہ جوانوں میں جوان بھی تھا جس کی چستی اور پھرتی لائق رشک تھی ،وہ بزرگوں میں بزرگ بھی تھاجس کا وقار اور سنجیدگی قابلِ تقلیدتھی۔ وہ علم میں نمایاں ، اخلاق میں اعلیٰ اور فیاضی و سادگی میں بے مثال تھا۔
![]() |
مولانا مطیع الرحمن اشرفی کا انتقال واقعی تکلیف دہ ہے |
مدرسے میں عرس رضوی کی چھٹی تھی ،سب کچھ معمول پر تھا ، یونیورسٹی کے امتحان دے کر تھکے ماندہ مدرسہ پہنچا ،تو کچھ ضروری کاموں میں پھر مصروف ہو گیا،پھر دیر رات سونا ہوا ،ایک گھنٹہ سوئے ہی نہیں تھے ،کہ وقت سحر ہو گیا ، نماز پڑھ کے پھر سونا ہوا مدرسے میں چھٹی کا ماحول تھا ،صبح سات سے لے کر 10 بجے تک موبائل کی گھنٹی بجتی رہی، ان میں کئی کال تھا جب دیکھا تو اچانک سے بدن میں کپکی پیت اگئی ،کیونکہ یہ فون معمول کے خلاف تھا ،والد گرامی سے ہر رات بات ہوتی ہیں، گھر سے صبح اور دوپہر کے وقت کبھی کال نہیں آتا ۔ اچانک والد صاحب کے ٣ کال دیکھ کر کے گھبرا گیا، کال بیک کرنے پر والد صاحب نے ایسی خبر سنائی جس کا مجھے یقین نہیں ہوا ،تھوڑی دیر میں ہی محب گرامی مولانا شہود کا بھی کال آیا ،اب کیا تھا ۔۔۔۔۔! یقین کرو یا نہ کرو جو ہونے کا ہے وہ تو ہو کے رہے گا ، پھر بھی تھوڑی دیر کے لیے تو یقین کرنا ہی دشوار تھا، لیکن جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی تو یقین جانیے میرے پاﺅں تلے سے زمین کھسک گئی ،دل بے چین ہو اٹھا ، آنکھیں بے قابو ہوگئیں ، گزشتہ 15 برسوں کا ایک ایک لمحہ جو ان کے ساتھ گزرا یا ان کی جو کرم فرمائیاں مجھ پر رہیں ایک ایک کرکے ذہن کی اسکرین پر رقص کرنے لگیں ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، کبھی دل کہتا کہ ہوسکتا ہے یہ خبر غلط ہو مگر مرضی مولا از ہمہ اولی ۔
تجربے سے علم ہوا کہ اپنے کسی بے حد قریب دوست و بزرگ یا رشتہ دار پر لکھنا بہت مشکل ہوتاہے،اس لیے کہ ان کی یادوں ، باتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر سامنے آموجود ہوتا ہے۔کن کن موجوں کو سمیٹوں اور کسے نظر انداز کروں۔اور ایسے موقعے پر یوں بھی لکھنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ لکھتے وقت ایک جذباتی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو قلم کو روکے لیتی ہے۔تاہم ان ہی ملی جلی کیفیات کے ساتھ استاد گرامی مولانا مطیع الرحمن کی یادوں کو سمیٹنے کی حتی الامکان کوشش کر رہا ہوں ۔ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
رات کے ایک بج رہے ہیں ہر طرف سناٹا ہے قلم کی سرسراہٹ میں تیزی آرہی ہے لیکن لکھتے ہوئے کثرت شدت غم کی وجہ سے قلم ہاتھوں میں لرز رہا ہے ماضی کی یادیں دل پگھل رہا ہے ، محبت کی حرارت اور جدائی کی تڑپ میں دل رو رہا ہے
"سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی"مولانا مطیع الرحمن میرے استاد ہی نہیں بلکہ سرپرست بھی تھے ہمیشہ شفقت پیدری کی طرح برتاؤ کرتے ،اکثر مجھے کہا کرتے تھے تم کو علاقے کے بڑے" عالم "بننا ہے ہم نے تو اپنا دور کھو دیا، مگر تم کو خاندان کا نام اونچا کرنا ہے،میری تقریر سے بہت متاثر ہوتے تھے ،میرے والد صاحب کو ہمیشہ میری کامیابی کی دعائیں دیتے ،جب سے عصری تعلیم کی طرف رواں دواں ہوا تو ان کی خوشیوں میں چار چاند لگ گئی، تو مجھے "ڈاکٹر صاحب " اور "پروفیسر صاحب " کہتے تھے ،جیتے جی یہ مقام اپ دیکھ نہیں پائے انشاءاللہ العزیز میں آپ آپکے جملہ کی لاج رکھوں گا ۔
واضح رہے ۔۔۔۔۔۔! کہ مرحوم مولانا کے مزاج کا بھی اپنا ایک الگ رنگ تھا ، بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، انتہائی مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل تھے ، انھیں کبھی میں نے غمگین اور اداس نہیں دیکھا۔دبی زبان میں کبھی کبھی اپنی پریشانیوں کا ذکر ضرور کرتے لیکن دوسرے ہی لمحے اس قدر شگفتہ نظر آتے گویا ان سے زیادہ خوش یا خوش حال کوئی نہیں۔ان کے مزاج سے ہر کوئی لطف اندوز ہوتا بلکہ جس کا خاکہ اڑایا جاتا وہ بھی مزے لیتا ،مرحوم مولانا کے مزاج میں لطیف طنز کی آمیزش بھی ہوتی لیکن یہ طنز بھی برائے مزاح ہی ہوتا اور سب سے خوبی کی بات یہ ہوتی کہ ان کے طنز و مزاح میں کسی کی دل شکنی اور دل آزاری نہیں ہوتی۔
استاد گرامی نے اپنی پوری زندگی کے دین کی خدمت ، قوم کی فلاح وبہبود اور تعمیر و ترقی میں گزاری۔ دارالعلوم اصلاح المسلمین کہ اپ قدیم استاد ہیں بے شمار طلباء اپ سے فیض اٹھائے ،علاقے کے درجنوں علمائے دین اپ ہی کے شاگرد ہیں ان میں سے ایک ناچیز بھی بھی ہے ، اپ کی شفقت بڑی نگاہ ،اور طریقہ درس نہایت ہی دلفریب ہوا کرتے تھے ،درسی خدمات کے ساتھ ساتھ اپ نے کئی گاؤں میں امامت کی فریضہ بھی انجام دیں یہاں تک اخر وقت تک دیتے رہے ۔اپ ایک قادر الکلام ،اور مستند مدرس تھے ،کسی بھی مسئلے کو بغیر غور و فکر کے عوام کے سامنے پیش نہیں کرتے جب بھی کوئی قدم اٹھاتے تو سوچ سمجھ کر ۔
علاقے کے عوام و خواص اپ کی دینی خدمات کو بھلا نہیں سکتے ۔
اللہ تعالی اپ کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور غریق رحمت عطاء فرمائے آمین ثم آمین
محمد فیروز عالم علاںٔی
0 Comments