سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیلہ مسئلہ سے متعلق کہ التحیات سے پہلے بسم اللہ پڑھنا کیسا ہے؟ اگر کسی سے ایسا ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب،
اللھم ھدایةالحق والصواب
التحیات سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اس لیے کہ یہ ایک قرآن کی آیت ہے لہذا قیام کے علاوہ کسی رکن میں بسم اللہ شریف کا پڑھنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح کا ایک سوال اعلی حضرت امام اھل سنت حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے ہوا تو آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا ۔
"قیام کے سوا رکوع و سجود و قعود کسی جگہ بسم اللہ شریف پڑھنا جائز نہیں کہ وہ آیت قرآنی ہے اور نماز میں قیام کے سوا اور جگہ کوئی آیت پڑھنی ممنوع ہے" اھ (فتاوی رضویہ جلد سوم ص : ١٣۴ تا ١٣۵ ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی ،)
فلھذا اگر کوئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ بسم اللہ شریف کا محل نہیں ہے تب بھی بسم اللہ شریف پڑھے گا تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی ایسی نماز کو لوٹانا واجب ہوگا ۔ اور اگر بھول کر بسم اللہ شریف پڑھ لیا تو سجدہ سہو واجب ہے -
جیسا کہ فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، ص: ١٢٧/ میں ہے:
ولو قرأ فی القعود إن قرأ قبل التشہد فی القعدتین فعلیہ السہو لترک واجب الابتداء بالتشہد أول الجلوس" اھ، یعنی قعدہ میں بیٹھتے ہی تشہد پڑھنا واجب ہے لہٰذا اگر تشہد شروع کرنے سے پہلے کچھ اور پڑھ لیا تو تاخیر واجب کی وجہ سے سجدۂ سہو کرنا واجب ہوگا"
اور ایسا ہی طحطاوی ص:۲۵۰ میں بھی ہے، پس معلوم ہوا کہ التحیات سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھنے سے نماز مکروہ تحریمی ہوگی -
ھذا ما ظھرلی والعلم بالحق عند اللہ وھو سبحانہ تعالی و علمہ اتم واحکم ۔
کتبـــــہ
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی غفرلہ القوی
خادم التدریس و الافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ، واگرہ ، بھروچ ، گجرات۔
١٩/ صفر المظفر ١۴۴۵
١٦/ ستمبر ٢٠٢٣ بروز سنیچر
0 Comments