سوال :
دعائے قنوت سے پہلے بسم اللّٰہ شریف پڑھنا کیسا ہے؟ اگر پڑھ لیا تو اس کیلئے کیا حکم ہے؟ اور وہ قیام بھی ہے اور قیام کے علاوہ کسی بھی رکن میں بسم اللّٰہ شریف پڑھنا جائز نہیں اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
قنوت سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ نہ پڑھنا ہی افضل و اولی بہتر ہے اس لیے کہ قنوت سے قبل بسم اللہ شریف کا پڑھنے کا نہ کوئی محل ہے اور نہ ہی وہاں پڑھنے کا کوئی مطلب ۔
جیساکہ حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح : باب الوتر و أحكامه ، ص: ٣٧٨/ میں ہے:
"ذكرها الجلال السيوطي في الدر المنثور بألفاظ مختلفة قوله: "أن يقول اللهم الخ" ذكر السيوطي أن دعاء القنوت من جملة الذي أنزله الله على النبي صلى الله عليه وسلم وكانا سورتين كل سورة ببسملة وفواصل إحداهما تسمى سورة الخلع وهي بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إنا نستعينك إلى قوله من يكفرك والأخرى تسمى سورة الحفد وهي بسم الله الرحمن الرحيم اللهم إياك نعبد إلى ملحق"۔
فتاویٰ رضویہ جلد سوم ،کتاب الصلوة ، باب القراة ، ص: ١٣۴/ میں ہے:
قیام کے سوا رکوع و سجود و کسی جگہ بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں کہ وہ آیت قرآنی ہے اور نماز میں قیام کے سوا اور جگہ کوئی آیت پڑھنی ممنوع ہے ۔"
ان عبارات سے واضح ہو رہا ہے کہ حالت قیام میں عام ازیں کہ وہ سورت سے قبل ہو یا سورت کے بعد اس میں بسم اللہ شریف پڑھنے سے نماز میں کوئی خلل لازم نہیں آئے گا ۔ ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ بسم اللہ شریف اس کے محل جیسے سورہ فاتحہ کی ابتدا میں یا پھر اس کے ساتھ جو سورت ملائے اس کے شروع میں پڑھے ۔ یہی انسب ہے۔ لیکن اگر کسی نے قنوت سے قبل بھی پڑھ دیا تو اس کی نماز بھی ہوجائے گی اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کوئی کراہت بھی لازم نہیں آئے گی البتہ بچنا احوط و انسب ۔
نیز فقہائے کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ:
"وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے ، دعائے قنوت کی جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک) وہ دعا پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس لیے اس کی جگہ اگر کسی نے کوئی سورہ پڑھ لی ، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی ۔ جیساکہ
فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، باب الثامن في صلاة الوتر ، ص: ١١١/ میں ہے:
’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية"۔
اور فتاوی شامی میں ہے:
(قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر ، و ذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت ، لانہ روی عن الصحابة ادعیة مختلفة لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقة القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنة ـ الآیة وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا ، وقیل یقول یا رب ثلاثا ، ذکرہ فی الذخیرۃ۔
اور حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار جلد اول ، ص: ٢٨٠/ میں ہے:
وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَةٙٙ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایة مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا…"۔
عبارات مذکورہ بالا سے مصرح ہو رہا ہے کہ اگر کسی دعائے قنوت سے قبل بسم اللہ شریف پڑھ لیا تو بغیر کسی حرح کے نماز ہوجائے گی البتہ بچنا اولی و افضل ہے۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
١/ربیع الآخر ١۴۴۵/ ہجری
١٧/ اکتوبر ٢٠٢٣عیسوی۔ بروز منگل-)
0 Comments