سوال:
یہ ہے کہ ایک پرانی مسجد ہے جس کو بناتے وقت ہی کمیٹی والوں نے یہ نیت کی تھی کہ اوپر مسجد ہوگی اور مسجد کے نیچے ایک تل گھر ہوگا جس میں مسجد کے سامان ، برتن وغیرہ رکھے جائیں گے ۔ اسی طریقے پر ایک مسجد بنالی گئی اور پھر اسی مسجد کے نچلے حصہ میں جو تل گھر بناتھا اسے مسجد کے سامان ، برتن وغیرہ کے لیے استعمال کرتے تھے مگر اب کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اس تل گھر کو مسجد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے اس لیے کہ مسجد تحت الثری تک مسجد ہی ہوا کرتی ہے۔ لہذا آپ صحیح جواب عنایت فرمائیں کہ کیا اس تل گھر کو مسجد کے سامان کے لیے استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب
اولٙٙا یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ مسجد میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص کی جائے وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ" (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان کی فضا تک سب مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے ، لہذا مسجد شرعی کے تمام حصوں خواہ نچلا حصہ ہو یا اوپر والا حصہ اسے مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے۔
البتہ اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے ہی یہ نیت کرلی گئی تھی کہ مسجد کے نیچے والے حصے میں کوئی ایسی چیز بنائی جائے جو مسجد کے مصالح کے لیے ہو تو ایسی صورت میں شرعا اس بات کی گنجائش ہے کہ مسجد کے نیچے کوئی ایسا گھر یا مکان یا دکان ہو جو مسجد کے اخراجات یا دگر مصالح کے لیے کام آئے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جس جگہ پر مسجد ہے اگر اُس جگہ مسجد بننے سے پہلے ہی مسجد کی کمیٹی نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ مسجد کے نیچے ایک ذیلی مکان (تل گھر) ہوگا جس میں مسجد کے سامان ، برتن وغیرہ رکھے جائیں گے تو ایسی صورت مین اس ذیلی مکان (تل گھر) کو کمیٹی والے مسجد کے مصالح یا دگر اخراجات کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔
اسی طرح وہ جگہ جہاں پر وہ مسجد ہے اگر وہ جگہ کسی کی وقف کی ہوئی ہے تو اگر واقف کی نیت مسجد تعمیر ہونے سے قبل ہی یہ تھی کہ نیچے ایک ذیلی مکان(تل گھر) ہوگا اور اس کے اوپر مسجد ہوگی تو ایسی صورت میں بھی جائز ہے کہ مسجد کے نچلے حصے میں جو ذیلی مکان (تل گھر) ہے اسے مسجد کمیٹی ، مسجد کی ضروریات کے لیے استعمال کریں ۔
اور اگر زمین مسجد ہی کے لیے وقف کردی ہو اور وقف کرنے کے بعد مسجد تعمیر ہونے سے قبل ہی یہ نیت کی کہ نیچے امام مسجد کا مکمل گھر یا تل گھر ہوگا تو واقف کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ جس جگہ کو حد بندی کرکے مسجد کے لیے وقف کردی ہو وہاں کسی اور چیز کی تعمیر کرنا جائز نہیں ہوتا۔
تاہم اس صورت میں اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے واقف نے اگر مسجد کے نیچے مسجد کے اخراجات کے لیے ایک تل گھر بنادیا تو چوں کہ یہ ذیلی مکان بھی مسجد کے مصالح میں داخل ہے، اس لیے اس صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد شمار ہوگی، اور مسجد کا ذیلی مکان جس کو تل گھر کہا جاتا ہے اسے مسجد کے اخراجات ومصالح کے لیے استعمال کرسکتے ہیں
"البحر الرائق .جلد پنجم ، کتاب الوقف ، فصل فی احکام المسجد ، ص: ٢٧١/ میں ہے:
"حاصله : ان شرط كونه مسجدا ان يكون سفله وعلوه مسجدا ؛ لينقطع حق العبد عنه ؛ لقوله وتعالى : وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ(الجن : ١٨) بخلاف ما اذا كان السرداب او العلو موقوفا لمصالح المسجد ، فانه يجوز ؛ اذ لا ملك فيه لاحد ، بل هو من تتميم مصالح المسجد ، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس ، هذا هو ظاهر المذهب ، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية ، وبما ذكرناه علم انه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الامام ، فانه لا يضر في كونه مسجداً ؛ لانه من المصالح ، فان قلت : لو جعل مسجدا ثم اراد ان يبني فوقه بيتا للامام او غيره، هل له ذلك ؟ قلت : قال في التتارخانية : اذا بنى مسجدا ، وبنى غرفةً وهو في يده ، فله ذلك ، وان كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ، ثم جاء بعد ذلك يبني ، لا يتركه. وفي جامع الفتوى : اذا قال : عنيت ذلك ، فانه لا يصدق". اھ
ردالمحتار ، جلد رابع ، کتاب الوقف ، ص: ٣۵٧میں ہے:
"(واذا جعل تحته سردابا لمصالحه) ای المسجد (جاز) كمسجد القدس ، (ولو جعل لغيرها او) جعل (فوقه بيتا وجعل باب المسجد الى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا(قوله : واذا جعل تحته سردابا) جمعه سراديب ، بيت يتخذ تحت الارض ؛ لغرض تبريد الماء وغيره ، كذا فی الفتح، وشرط فی المصباح : ان يكون ضيقا ، نهر ، (قوله: او جعل فوقه بيتا الخ) ظاهره انه لا فرق بين ان يكون البيت للمسجد او لا ، الا انه يؤخذ من التعليل ان محل عدم كونه مسجدا فيما اذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد ، وبه صرح في الاسعاف فقال : و اذا كان السرداب او العلو لمصالح المسجد او كانا وقفا عليه صار مسجدا۔ اهـ. شرنبلالية"۔
اسی میں ہے:
"لوبنی فوقہ بیتا للامام لا یضر ؛ لانہ من المصالح اما لوتمت المسجدیة ثم اراد البناء منع ولوقال عنیت ذلک لم یصدق"۔
اور حضور صدرالشریعہ علی الرحمہ بہار شریعت ، جلد دوم ، حصہ دہم ، ص: ۵٦٠/ میں فرماتے ہیں:
"مسجد کی چھت پر امام کے لیے بالاخانہ بنانا چاہتا ہے اگر قبل تمام مسجدیت ہو تو بنا سکتا ہے اور مسجد ہو جانے کے بعد نہیں بنا سکتا"۔
ان ساری عبارتوں سے یہ بات واضح ہو چکی کہ اگر ابتدائے بنا کے وقت ہی مسجد کے نیچے ضروریات مسجد کے لیے ذیلی مکان(تل گھر)بنانے کا قصد کر لیا گیا تھا اور پھر وہ گھر بنا بھی لیا گیا تو اب اسے استعمال میں لانا درست ہے۔ فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب و علمہ اتم واحکم ۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــبه:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
٢۵/ربیع الاول ١۴۴۵/ ہجری
١١/ اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز بدھ ۔
0 Comments