حیض و نفاس کی حالت میں قرآن کو پڑھنے ، سننے ، چھونے ، چومنے اور دیکھنے اور اذان کا جواب دینے ودگر کلمہ و وظائف وغیرہ پڑھنے کا کیا حکم ہے

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب قبلہ!

کچھ روز قبل فیس بک پر آپ کا ایک فتوی پڑھا تھاجس میں لکھا تھا کہ "عورتیں حیض و نفاس کی حالت میں موئے مبارک کی زیارت کرسکتی ہے البتہ اگر ممکن ہوتو بہتر یہی ہے کہ پاک ہوکر زیارت کریں"۔ تو مفتی صاحب قبلہ ! اب اس کے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات آرہے ہیں ۔ ذرا ان میں سے ہر ایک سوال کا جواب مجھے الگ الگ کرکے عنایت فرمائیں آپ کا بڑا کرم ہوگا ۔

مفتی صاحب قبلہ !

میرا پہلا(١)سوال :

یہ ہے کہ کیا عورتیں اپنے انھیں مخصوص ایام میں درود پاک ، کھانے پینے کی مسنون دعائیں ، کلمہ شریف ، قرآن شریف و دگر اوراد و وظائف وغیرہ بھی پڑھ سکتی ہیں ، اور نیز اذان کا جواب دے سکتی ہیں ؟ 

دوسرا (٢) سوال :

 یہ ہے کہ جو عورتیں کسی مدرسہ میں پڑھاتی ہیں تو کیا وہ عورتیں حیض یا نفاس کی حالت میں اپنے کلاس کی بچیوں کو عم پارہ یا قرآن شریف پڑھا سکتی ہیں؟

اور تیسرا (٣) سوال:

 یہ ہے کہ اگر نہیں پڑھا سکتی ہیں تو کیا وہ عورتیں کم از کم قرآن شریف کو سن سکتی ہیں اگر سن لیا تو کیا اس پر سجدہ تلاوت لازم ہوگا یا نہیں؟

اور چوتھا (۴) سوال:

یہ کہ اگر سن بھی نہیں سکتی تو کیا قرآن کریم کو دیکھ اور چھو اور چوم سکتی ہیں؟

اسی طرح پانچواں (۵) سوال:

یہ ہے کہ ان مخصوص ایام میں عورتیں قرآن پاک کو چھو اور چوم سکتی ہیں یا نہیں؟

پلیز مفتی صاحب ! ہر سوال کا جواب الگ الگ کرکے تفصیل میں عنایت فرمائیں ۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔ فقط والسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم اجعل النور والصواب

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

ابوالعلائی صاحب ! سب سے پہلے آپ اس بات کو اپنے ذہن میں محفوظ فرمالیں کہ جو عورت حیض کی یا نفاس کی حالت میں ہو تو اُسے اُس حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور اس کو چھونا دونوں حرام ہے۔

البتہ وہ آیات جو دعاوں اور و ذکر و اذکار پر مشتمل ہیں اُن آیات کو تلاوت کی نیت کئے بغیر دعا اور ذکر و وظیفہ کی نیت سے فقط پڑھ سکتی ہیں  لیکن چھو اور چوم نہیں سکتی اور ہاں پڑھنے سے قبل وضو کرلینا افضل و اولی ہے۔

اس مختصر سی وضاحت کے مطابق صورت مسئولہ کا تفصیلی جواب

(١) یہ ہےکہ عورتیں اپنے مخصوص ایام یعنی حیض و نفاس کی حالت میں درود پاک ، اذان کا جواب ، مسنون دعائیں ، کلمہ شریف دگر اوراد و وظائف اور ذکر و اذکار وغیرہ جو قرآنی آیات پر مشتمل نہ ہوں بلکہ اس کے علاوہ ہوں تو اُسے مطلقاً پڑھ سکتی ہیں ، لیکن جو دعا و وظائف وغیرہ قرآنی آیات پر مشتمل ہوں تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ دعا و وظائف ایسی قرآنی آیات پر مشتمل ہیں کہ جن میں ذکر و ثنا اور مناجات و دعا کا معنیٰ پایا جاتا ہے تو ایسی دعائیں اور اور اذکار و وظائف تلاوت کی نیت سے نہیں بلکہ ذکر و دعا کی نیت سے پڑھ سکتی ہیں۔

ہاں ساتھ ہی یہاں پر اس بات کا بھی خیال رہے کہ قرآنی آیات پر مشتمل وہ وظائف ، جو لفظِ ’’قل‘‘ سے شروع ہوتے ہیں ، تو انھیں مذکورہ شرائط کے ساتھ لفظِ ’’قل‘‘ چھوڑ کر پڑھنے کی اجازت ہے۔

نیز یہ دھیان رہے کہ وہ آیات جن میں ذکر و ثنا اور دعا و مناجات کا مفہوم موجود نہیں ، ان آیات کو اس حالت میں بطورِ وظیفہ بغیر نیتِ تلاوت کے پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔ البتہ جس صورت میں پڑھنے کی اجازت ہے اس صورت میں مستحب اور بہتر یہی ہے کہ وہ ان دعاوں اور وظائف کو پڑھنے کے وقت وضو یا پھر از کم از کلی کرلیا کریں۔

چناں چہ شرح وقایہ جلد اول ، ص: ١١٦/ میں ہے کہ :

"و سائر الادعیة و الاذکار لاباس بها"۔

یعنی (حائضہ ونفساء عورتوں کے لیے) تمام قسم کی دعائیں اور اذکار پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے”

*فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، کتاب الطھارۃ ، الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضة ، ص: ٣٨/ میں ہے:

"ویجوز للجنب و الحائض الدعوات و جواب الاذان و نحو ذلک” یعنی جنبی اورحائضہ کے لیے دعائیں پڑھنا اور اذان کا جواب دینا اور اس جیسے اذکار پڑھنا جائز ہے.”اور ایامِ حیض میں خواتین کے لیے ممنوعہ امور کی وضاحت علامہ محمد بن علی حصفکی رحمۃ اللہ علیہ نے در مختار جلد اول ، ص: ٢٩٠ تا ٢٩۴/ میں ان الفاظ میں کی ہے:

"حيض يمنع صلاة و صوما و تقضيه و دخول مسجد و الطواف و قربان ما تحت اِزار و قرأة قرآن و مسه الا بغلافه. و کذا ولا بأس بقرأة أدعية و مسها و حملها و ذکر الله تعالٰی، و تسبيح و أکل و شرب بعد مضمضة و غسل يد ولا يکره مس قرآن بکم"۔

یعنی دورانِ حیض نماز ، روزہ ، روزہ کی قضا ، مسجد میں داخل ہونا ، طواف کعبہ ، جنسی قربت ، تلاوتِ قرآن اور غلاف کے بغیر قرآنِ مجید کو چھونا ممنوع ہے۔ البتہ کلی کرنے اور ہاتھ دھونے کے بعد دعائیں پڑھنے ، انہیں چھونے ، ان کو اٹھانے ، اللہ کا ذکر کرنے ، تسبیح پڑھنے اور کھانے پینے کی ممانعت نہیں ہے۔ آستین کے ساتھ قرآن چھونا بھی منع نہیں ہے۔

(٢) اب رہی بات کہ جو عورتیں کسی مدرسہ میں پڑھاتی ہیں تو کیا وہ عورتیں  اپنے مخصوص ایام میں بچیوں کو قرآن پڑھا سکتی ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دورانِ حیض و نفاس عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت منع  تو ہے لیکن تعلیمی ضرورت کی وجہ سے مدرسوں میں پڑھانے والی عورتوں کے لیے ایک آیت کی مقدار سے کم پڑھ کر سانس چھوڑ دینے کی حد تک فقہاءِ کرام نے جواز کا حکم دیا ہے؛ لہٰذا وہ عورتیں یا وہ بچیاں جو کسی مدرسہ میں پڑھاتی ہیں تو وہ عورتیں حیض و نفاس کی حالت میں اس شرط پر قرآن کی آیات کو پڑھا سکتی ہیں کہ آیت کا ایک ایک کلمہ اور لفظ الگ الگ کرکے پڑھائیں یعنی ان معلمات کے لیے حکم یہ ہے کہ  ہجے کرکے پڑھانا چاہیں تو پڑھا سکتی ہیں ، مثلا: الحمد ۔۔۔۔ للہ ۔۔۔۔ رب ۔۔۔ العالمین اس طرح سے پڑھا سکتی ہیں ، لیکن مکمل آیت کا پڑھانا جائز نہیں۔

جیساکہ فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، ص: ٣٨/ میں ہے:

"واذا حاضت المعلمة فينبغی لها ان تعلم الصبيان كلمة كلمة وتقطع بين الكلمتين ، ولايكره لها التهجی بالقرآن كذا فِي المحيط”. (الفصل الرابع فی احكام الحيض والنفاس والاستحاضة،الاحكام التی يشترك فيها الحيض والنفاس ثمانية"۔

درمختار مع ردالمحتار جلد اول ، ص: ٢٩٣/ میں ہے:

’’(وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبورکما قدمه المصنف فاو قرأت الفاتحة علی وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التی فيها الدعاء و لم ترد القرأة. یعنی حیض و نفاس والی معلمات وطالبات کے لیے ایک ایک لفظ کر کے تعلیم دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ کہ قرآن کی طرح تورات ، انجیل ، زبور (کے پڑھنے) سے (بھی منع کیا جائے گا) جیساکہ مصنف نے ذکر کیا ہے۔ سو اگر کسی نے سورہ فاتحہ بطور دسو اگر کسی نے سورہ فاتحہ بطور دعا پڑھی یا قرآن کی دگر آیاتِ دعائیہ پڑھیں اور ارادہ قرات کا نہ تھا تو اس میں حرج نہیں۔

پس مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات خوب ثابت ہوچکی کہ خواتین حیض و نفاس کے ایام میں تلاوت کی نیت سے قرآنِ مجید نہیں پڑھ سکتیں۔ ہاں اگر کوئی معلمہ ہے تو وہ ہجے کرکے پڑھا سکتی ہے۔ مثلاً عَلَّمَ الْقُرْاٰن دو الفاظ ہیں‘ عَلَّمَ کو الگ ادا کرے گی اور الْقُرْاٰن کو الگ۔ دونوں ملا کر اس طرح سے عَلَّمَ الْقُرْاٰن نہیں پڑھ سکتی۔

(٣) اب رہا سوال یہ اگر نہیں پڑھا سکتی ہیں تو کیا وہ عورتیں کم از کم قرآن شریف کو سن سکتی ہیں اگر سن لیا تو کیا اس پر سجدہ تلاوت لازم ہوگا یا نہیں؟ تو محترم اس کا جواب یہ ہے کہ حیض و نفاس کی حالت میں عورت قرآن مجید کی تلاوت سن سکتی ہے ، اس میں کوئی حرج و ممانعت نہیں ۔ ہاں صرف قرآن مجید پڑھنے یا اس کو بِلاحائل چھونے کی ممانعت ہے جیساکہ ماقبل میں بیان کیا گیا۔ سُننے کی کہیں ممانعت نہیں ہے۔ نیز حیض و نفاس کی حالت میں اگر عورت نے آیتِ سجدہ سُنی تو اس پر سجدہ تلاوت لازم نہیں ہوگا اس لیے کہ آیتِ سجدہ پڑھنے یا سُننے والے پر سجدہ تلاوت اُس وقت لازم ہوتا ہے جب کہ وہ وجوبِ نماز کا اھل ہو یعنی اس وقت اس پر نماز واجب ہو اور حائضہ و نفسا  عورت وجوبِ نماز کی اھلیت ہی نہیں رکھتی یعنی ان عورتوں پر نہ ان ایام میں نماز فرض ہوتی ہے اور نہ ہی بعد میں قضا لازم ہوتی ہے۔ فلھذا ان ایام میں اگر عورت نے آیت سجدہ سنی تو اس پر سجدہ تلاوت لازم نہ ہوگا  جیساکہ

فتاویٰ تاتارخانیہ ، جلد دوم ، ص: ۴٦٦/ میں ہے:

وکل من لا یجب علیہ الصلاۃ و لا قضاؤھا کالحائض والنفساء والکافر والصبی والمجنون فلاسجود علیھم وکذالک الحکم فی حق السامع ، من کان اھلا لوجوب الصلوۃ علیہ یلزمہ السّجدۃ بالسماع ومن لا یکون اھلا لا یلزمہ"۔ یعنی جس شخص پر نہ نماز فرض ہو اور نہ اس کی قضاء فرض ہو اس پر سجدہ تلاوت بھی واجب نہیں جیسے حیض و نفاس والی عورت ، کافر ، نابالغ بچہ ، پاگل ۔ اور یہی حکم سننے والے کے حق میں ہے کہ جو وجوبِ نماز کا اھل ہوگا اُس پر آیتِ سجدہ سُننے سے سجدہ تلاوت واجب ہوگا اور جو اس کااہل نہیں اُس پر آیتِ سجدہ سننے سے سجدۂ تلاوت بھی واجب نہیں ہوگا۔

(۴) اب رہ گئی بات یہ کہ کیا حیض و نفاس والی عورتیں قرآن کو دیکھ سکتی ہیں یا نہیں؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیکھ سکتی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں  ۔

چناں چہ درمختار مع شامی جلد اول ، ص: ١٢٢/ میں ہے کہ:(ولایکرہ النظر الیہ) ای القرآن (لجنب و حائض ونفساء) لان الجنابة لاتحل العین (ک) مالا تکرہ (ادعیة) ای تحریما والا فالوضوء لمطلق الذکر مندوب وترکہ خلاف الاولی وھو مرجع الکراھة التنزیھیة"۔

یعنی جنبی و حیض و نفاس والی عورت کے لیے قرآن مجید کو دیکھنے میں کوئی کراہت نہیں کیوں کہ جنابت و ناپاکی آنکھ میں سرایت نہیں کرتی جیساکہ دعاوں کا پڑھنا مکروہ تحریمی نہیں ہے۔ البتہ مطلق ذکر کے لیے وضو کرلینا مستحب ہے اور وضو نہ کرنا خلاف اولی اور مکروہ تنزیہی ہے۔ اس مذکورہ عبارت سے امس و شمس کی طرح یہ بات ثابت ہوچکی کہ حیض و نفاس کی حالت قرآن کی طرف یا قرآن کی لکھی ہوئی آیات کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہے۔

(۵) اب رہا آخری اور پانچواں سوال یہ کہ حیض و نفاس والی عورتیں قرآن کو چھو اور چوم سکتی ہیں یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بلا غلاف کے براہ راست قرآن کو نہیں چھو سکتی اسی طرح بلا واسطہ چوم بھی نہیں سکتی

ہاں لیکن اگر کسی ایسے کپڑے یا کسی اور چیز سے قرآن کو چھو اور چوم سکتی ہیں جو قرآن سے متصل (جُڑی ہوئی) نہ ہو‘ مثلاً غلاف ، تھیلا ، کوئی کپڑا یا مصحف کی اکھڑی ہوئی جلد وغیرہ۔

قرآن شریف سورہ واقعہ ، آیت نمبر ٧٩/ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرون* یعنی قرآن پاک کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

تنویر الابصار مع در مختار ، جلد اول، کتاب الطھارة ، ص: ۵٣۵/ میں ہے:

"(وقراة القرآن) بقصدہ (ومسہ) ولومکتوبا بالفارسیة فی الاصح"۔ یعنی حیض و نفاس کی حالت میں قصدا قرآن کی قرات کرنا حرام ہے یوں ہی اسے چھونا بھی حرام ہے اصح قول کے مطابق خواہ وہ قرآن (عربی کے علاوہ) فارسی زبان میں ہی کیوں نہ لکھا گیا ہو۔

نھر الفائق ، جلد اول ، کتاب الطھارة ، ص: ١٣۵ / میں ہے:

"ویمنع ایضا حل مسہ ای القرآن ولومکتوبا بالفارسیة اجماعا ھوالصحیح۔۔۔۔ قید بالمس لان النظر الیہ غیر ممنوع"۔ یعنی حیض و نفاس کی حالت میں اسی طرح قرآن کو چھونے سے بھی منع کیا جائے گا اگرچہ وہ قرآن عربی کے علاوہ فارسی زبان ہی میں کیوں نہ لکھا گیا ہو ۔ یہ اجماعی مسئلہ ہے اور یہک صحیح ہے یہاں ماتن نے "مس" کی قید اس لیے لگائی ہے کہ قرآن کی طرف فقط دیکھنا ممنوع نہیں۔

نے در مختار جلد اول ، ص: ٢٩٠/ میں ہے:

"ولا يکره مس قرآن بکم"۔

یعنی قرآن کو آستین کے ساتھ چھونے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

اور حاشية ردالمحتار على الدر المختار جلد اول ، ص: ٢٩٣/ میں ہے:

(ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب ، بخلاف المصحف؛ فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما فی البحر، ای  والصحيح المنع کما نذکرہ ومثل القرآن سائر الکتب السماویة کما قدمناہ عن القھستانی وغیرہ"

اوربہار شریعت ، جلد اول ، ص: ٣٧٩/ میں ہے:طحیض و نفاس والی عورت کو قرآن مجید پڑھنا دیکھ کر یا زبانی اور اس کا چھونا اگرچہ اس کی جلد یا چولی یا حاشیہ کو ہاتھ یا انگلی کی نوک یا بدن کا کوئی حصہ لگے یہ سب حرام ہیں"۔

ان عبارتوں یہ مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہوچکا کہ حیض و نفاس والی عورتیں قرآن مقدس یا اس کی کسی آیت یا اس سے ملی ہوئی جلد غلاف وغیرہ کو نہ چھو سکتی ہیں اور نہ چوم سکتی ہیں ہاں ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر یا رومال لےکر قرآن کو چھو سکتی ہیں بلا واسطہ نہیں چھو سکتیں اسی طرح اگر اگر قرآن پر ایسا غلاف چڑھاگیا ہو جو قرآن شریف کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتو چوم سکتی ہیں ورنہ نہیں ۔

فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔

کتبہ:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،

٢٨/ربیع الاول ١۴۴۵/ ہجری

١۴/اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بشب شنبہ ، بوقت ٣٠۔١٢بجے۔

Post a Comment

0 Comments