سوال:
مرحوم زید کے تین لڑکے ہیں بکر،خالد،فاروق ان میں سے دو لڑکے دوسرے ملک کے باشندے ہو گئے ہیں تو کیا انہیں وراثت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو لڑکے دوسرے دیش میں بس گئے ہیں وہ یہاں کی وراثت سے محروم رہیں گے۔ لہذا جو حق فیصلہ ہو مدلل بیان کرنے کی زحمت گوارا کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب:
شریعت کا حکم یہ ہے کہ مسلمان چاہے جس ملک میں ہو خواہ اس کا باشندہ ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو اپنا حق کے وراثت ضرور پائے گا۔ ہاں اگر موانع ارث یعنی غلام ہونا یا مورث کا قاتل ہونا یا دین کا اختلاف ان میں سے کوئی پایا جائے تو حق وراثت نہیں پائے گا۔ لہذا زید کے دونوں لڑکے جو مختلف ملک کے باشندے ہو گئے ہیں اگر موانع ارث ان میں نہ پائے جائیں تو ضرور وراثت پائیں گے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ جو لڑکے دوسرے ملک میں بس گئے ہیں وہ یہاں کی وراثت سے محروم رہیں گے یہ بالکل غلط ہے کیونکہ موانع ارث کی جو چوتھی قسم "ملکوں کا اختلاف ہونا"ہے یہ غیر مسلموں کے حق میں ہے مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ لہذا زید کے تینوں لڑکے عصبہ ہوں گے اور آپس میں جائداد کو بانٹ لیں گے۔
جیسا کہ رد المحتار میں ہے: (بخلاف المسلمین) محترز قولہ فیما بین الکفار: ای اختلاف الدار لا یؤثر فی حق المسلمین کما فی عامۃ الشروح۔
[ردالمحتار،کتاب الفرائض، ج: 10،ص: 510، دار الکتب العلمیۃ بیروت]
فتاوی عالمگیری میں ہے: واختلاف الدارين ولكن هذا الحكم في حق اهل الكفر لا في حق المسلمين حتى لو مات مسلم في دار الحرب يرثه ابنه الذي في دار الاسلام ۔ ملتقطا
[فتاوی عالمگیری،کتاب الفرائض، ج:6، ص:454، الباب الخامس، دار الكتب العالميه بيروت]
بہار شریعت میں ہے:
ملکوں کا اختلاف غیر مسلموں کے حق میں ہے یعنی یہ کہ اگر ایک عیسائی مسلمانوں کے ملک میں ہے اور اس کا رشتہ دار دوسرے ملک میں ہے جو دارالحرب ہے تو اب یہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔
[بہار شریعت،ج:3،ص:1114]
اسی میں ہے:
پاکستان کے مسلمان اور وہ مسلمان جو ہندوستان ، امریکہ، یورپ یا کہیں اور رہتے ہوں، ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔
[حوالۂ سابق]واللّٰہ تعالی اعلم بالصواب
از قلم:محمد صابر رضا اشرفی علائی
رسرج اسکالر: مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments