سوال :
آج کل خون کی کمی کی صورت میں جسموں میں خون چڑھاتے ہیں تو ضرورت کی بنیاد پر کوئی آدمی کسی کو اپنا خون دے سکتاہے یانہیں؟اگر دے سکتاہے تو اس میں کافر ومسلم کی کوئی قید ہے یا نہیں؟ برائے مہر بانی حوالےجات کے ساتھ تفصیلی جواب دیکر مشکور فرمائیں
الجواب :
بقدر ضرورت ایک کا خون دوسرے کو دینا یاچڑھاناجائز ہے کیونکہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیر اسکی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو اور اسکے سواء کوئی اور طریقہ بھی نہ ہو ایسی صورت حال میں خون بطور عطیہ دینا جائز ہے اس میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے جیساکہ ارشادباری تعالی ہے
ومن احیاھافکانمااحیاالناس جمیعا ۔ترجمہ : اور جس نے ایک انسان کو بچالیا اس نے گویا تمام انسانوں کو بچالیا (سورہ المائدہ ،آیت ،۳۲)
الاشباہ والنظائر میں ہے
الضرورات تبیح المحظورات (الاشباہ والنظائر ، ج:۱،ص:۹۴)
مسلم شریف کتاب الفتن میں ہے
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قتل کرنا حرام ہے نہ یہ کہ ایک تھوڑی مقدار میں کسی ضرورت مند کو خون دے دینا جس سے نہ جسم کو نقصان پہنچتاہے اور نہ موت واقع ہوتی ہے
اور مجلس شرعئ کے فیصلےمیں ہے
مریض کو حاجت وضرورت کی حالت میں خون اگر بلا عوض نہیں ملتا تو بعوض خریدنا جائز ہے مگر بایع کیلئے خون کا ثمن طیب نہیں مسلم کو مسلم یا غیر مسلم کسی سے بھی خونلینا یا خرید نا جائزہے (ج:۱، ص:۱۹۶ )
فتاوی عالمگیری میں ہے
یجوز للعلیل شرب الدم والبول وأکل المیتۃ للتدأوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان شفاءہ فیہ ولم یجد من المباح مایقوم مقامہ فیہ
(کتاب الکرھیۃ الباب الثمن ،ج، ۵، ۳۵۵)
اسی میں ہے
ولابأس بأن یسعط الرجل یلبن المراۃ ویشر بہ للدواء وفی شرب لبن المراۃ للبالغ من غیر ضرورۃ اختلاف المتأخرین (حوالہ سابق )
پھر اسی میں ہے
والذی رعف فلایرقأ دمہ فأراد ان یکتب بدمہ علی جبھۃ شیأ من القرآن قال ابو بکرالاسکاف : یجوز وکذا لوکتب علی جلد میتۃ اذا کان فیہ شفاء کذافی خزائن المفتیین ( حوالہ سابق ، ص : ۳۵۶)واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ : محسن رضا اشرفی علائی
رسرچ: اسکالر مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments