سیرت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ولادت:۔۔۔۔۔۔وفات:۵۹ھ

ولادت:

کتب سیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تاریخ ولادت کا صراحتا تذکرہ نہیں ملتا البتہ یہ متحقق ہے کہ ان کی پیدائش زمانہ اسلام میں ہوئی، آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آٹھ سال کی چھوٹی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء ،ج۳، ص۳۱۰)

نام ونسب:

عائشہ، کنیت ام عبد اللہ، ام المومنین خطاب، حمیرا اور صدیقہ لقب تھا، نبی کریم ﷺ نے انھیں بنت صدیق سے خطاب کیا ہے۔ (ترمذی ،کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المومنین)

والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: عائشہ بنت ابوبکر صدیق بن ابی قحافہ بن عامر بن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لوئی اور ماں کی جانب سے اس طرح ہے: عائشہ بنت ام رومان بنت عمیر بن عامر بن دھمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔ (الطبقات الکبریٰ لحمد بن سعد ، ج ۸ج،ص۴۶)

تعلیم و تربیت :

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے نو سال کی ابتدائی زندگی اپنے والد بزرگوار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آغوش تربیت میں گزاری اور ان سے مروجہ دنیاوی علوم کے ساتھ دینی علوم اور اسلامی احکام و مسائل کا درس لیا، پھر جب کاشانہ نبوت میں داخل ہوئیں تو فیضان نبوت سے مکمل طور پر مستفیض و مستنیر ہوئیں اور ماہ کامل بن کر عالم انسانیت بالخصوص صنف لطیف کے لیے شمع راہ بن گئیں، آپ جس عمر میں حرم نبوی میں قدم رنجہ ہوئیں وہ دماغ کی تازگی ،قبول علم اور حفظ و ضبط معارف کے لیے سب سے زیادہ موزوں زمانہ تھا اور لطف یہ کہ ٓاپ کی فطرت طباع، ذہن نکتہ سنچ اور دقیقہ رس تھیں۔ ناصیہ اقبال پر ذہانت و فطانت، جودت طبع ،یمن و سعادت اور زیرکی و ہوشیاری کا نور چمک رہا تھا ،حرکات و سکنات اور ہر ہر ادا سے عظمت و رفعت نمایاں تھی، معلم و مربی بھی جلیل القدر اور عظیم المرتبت ملا تھا ،کاشانہ نبوت کے اندرونی حالات وکوائف کے جاننے کا موقع بھی خوب میسر آیا، بعض غزوات اور اسفار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی بھی حاصل ہوئی؛ اس لیے انوار علم نبوت سے اس قدر فیضیاب ہوئیں کہ مکمل طور پر نہال ہو گئیں۔ مسائل کا استخراج و استنباط کرنے اور اسرار و حکم معلوم کرنے کی صلاحیتیں ان میں علی وجہ الاتم تھیں ، نو سال کی طویل مدت رفاقت میں تزکیہ اخلاق و تکمیل انسانیت، ضرورت دین سے واقفیت، اسرارشریعت سے اگاہی، کلام الہی کی معرفت اور احکام و مسائل کے بعد زیور حسن سے آراستہ و پیراستہ ہو کر اس قدر وسعت اور گہرائی و گیرائی پیدا کر لی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی صحابہ جانب رجوع کیا کرتے تھے۔ ان کا علم و تفقہ انساب و تاریخ دانی،فصاحت وبلاغت اور خطابت مسلم تھی۔ کہا جاتا ہے کہ احکام شریعت کا ایک چوتھا علم حضرت عائشہ سے منقول ہے اور نفس حقیقت بھی یہی ہے مشاہیر ملت اور اساطین امت کے مندرجہ ذیل تاثرات و بیانات اس کی بین دلیل اور شاہد عدل ہیں:

قبیعہ بن ذوئیب:’’ کانت اعلم الناس یسئلھا اکابرالصحابہ‘‘ حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ جانکار تھی ،اکابر صحابہ ان سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص۲)

ابو موسی اشعری:’’ مااشکل علینا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حدیث قط فسألنا عائشۃ الا وجدنا عندھا منہ علم‘‘ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مشکل میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف رجوع کیا تو ان کے پاس اس کا حل مل گیا۔ (ایضا)

عروہ بن زبیر: ’’مارأیت اعلم بالطب منہا ‘‘میں نے ان سے زیادہ کسی کو طب کا جانکار نہیں دیکھا ۔ ’’مارأیت احدامن الناس اعلم بالقرآن ولا بالفریضۃ ولا بحلال وحرام ولا بشعر ولابحدیث العرب ولا النسب من عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا‘‘  میں نے کسی بھی ایسے شخص کو نہ دیکھا جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے زیادہ قرآن کا علم ہو یا فرائض کا یا حلال و حرام کا یا حدیث عرب کا یا نسب کا۔ (ایضا)

مسروق: ’’رأیت مشیخۃ من اصحاب رسولﷺالاکابر یسئلونھا عن الفرائض‘‘میں نے کہا اصحاب کرام کو علم فرائض کے بارے میں ان سے مسئلہ پوچھتے ہوئے دیکھا ۔(الاستیاب ج:۴ صفحہ۴۳۷)

عطا بن ابی رباح: ’’کانت عائشۃ افقہ الناس واعلم الناس واحسن الناس رایا فی العامۃ‘‘عامۃالناس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ فقیہ اور صاحب رائے کوئی نہیں تھا۔ (ایضا)

عروہ ابن زبیر :’’مارأیت احدا اعلم بفقہ ولابطب ولابشعرمن عائشۃ‘‘ میری نظر میں حضرت عائشہ سے زیادہ فقہ، طب یا شعرکا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ (ایضا)

    امام زہری: لوجمع علم عائشہ الی علم جمیع ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلم جمیع النساء لکان علم عائشۃ افضل‘‘ اگر تمام امہات المومنین اور تمام عورتوں کا علم یکجا کر دیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم سب سے افضل والا ہوگا۔ (ایضا)

علمی سوالات اور ان کا حل:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا مسئلے کے ہر ہر پہلو پرغور کرتی اور جب تک کامل تشفی نہ ہو جاتی سرکار سے مسلسل سوالات کرتی رہتی۔

(۱)ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من حوسب عذب‘‘جس کا حساب ہوا اس پر عذاب ہوگا، عرض کی اللہ تعالی فرماتا ہے:’’فسوف یحاسب حسابا یسیرا‘‘ یعنی حساب آسان اور سہل لیا جائے گا سرکارنے فرمایا یہ اعمال کی پیشی ہے ۔ہاں جس کے اعمال میں نقد ہوا وہ ہلاک و برباد ہی ہوا۔( مدارج النبوۃ اردو جلد 2 صفحہ 809)

(۲)ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر حق تعالی کی رحمت اور اس کے فضل سے۔ سیدہ عائشہ نے عرض کیا: کیا آپ بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے مگر خدا کی رحمت سے؟ فرمایا :ہاں میں بھی داخل نہ ہوں گا مگر یہ کہ مجھے اللہ تعالی نے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے (ایضا صفحہ 810)

(۳)ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ آیت پڑھی: ’’والارض جمیعا فبضتہ یوم القیامۃ والسمٰوٰت مطویٰت‘‘ یعنی قدرت الٰہی سے قیامت کے دن ساری زمینیں سمیٹ دی جائیں گی اور آسمانوں کو لپیٹ دیا جائے گا اور پوچھا جب آسمان و زمین کچھ بھی نہ ہوگا تو لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صراط پر۔ (ایضا)

(۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید فرما رہے تھے ۔ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا کہ اگر ہمارے دو پڑوسی ہوں تو ان میں سے کون ہمارے سوغات و تحائف کا مستحق ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے دروازہ سے قریب ہو۔ (بخاری شریف ج۲ ص ۸۹۰ ، باب حق الجود فی قرب الابعاب۔۔ ابودائود ،کتاب الادب ج۲ص۷۰۱)

(۵) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو برہنہ، عریاں اور غیر مختون اٹھایا جائے گا تو حضرت عائشہ نے فورا ہی عرض کیا یا رسول اللہ! کیا مرد و زن ایک دوسرے کی جانب دیکھیں گے بھی؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ وہ وقت بڑا ہی نازک ہوگا لوگوں کی شدت رنج و علم اور گھبراہٹ کا یہ حال ہوگا کہ کسی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کا ہوش و حواس اور یارا بھی نہ ہوگا۔ (بخاری شریف ، ج۲ص۹۶۶، باب کیف الحشر)

(۶) ابو قعیس حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رضائی باپ ہیں، حکم حجاب نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کا بھائی افلح نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آنے کی اجازت چاہی،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جب تک اس بارے میں سرکار سے اجازت نہ لے لوں میں اجازت نہیں دے سکتی؛ اس لیے کہ ابو قعیس کی بیوی نے مجھے دودھ پلایا ہے ابو قعیس نے نہیں۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوقعیس کے بھائی افلح نے میرے پاس آنے کی اجازت چاہی ہے ،میں نے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لوں تب تک اجازت نہیں دے سکتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے چچا کو اجازت دینے سے تمہیں کون سی چیز مانع ہے ؟تیرا ہاتھ گردآلود ہو۔ (بخاری شریف ج۲ ص ۷۰۷، باب ان تبدوا شیئا او تخفوہ۔۔)

ذاتی واقفیت کی بنا پر مسائل کی تردید:

اللہ تعالی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فہم و ذکاوت اور قوت حفظ کی دولت و نعمت سے سرفراز کیا تھا جس کی بنا پر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا اور قول و فعل کو محفوظ کر لیا تھا بالخصوص ان اعمال و افعال اور عادات و اطوار کو جن کے واقف کار صرف ازواج مطہرات تھیں، چنانچہ کچھ ایسے مسائل ہیں کہ کسی صحابی نے اپنے اجتہاد یا کسی روایت کی بنیاد پر فتوی دیا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ذاتی واقفیت کی بنیاد پر انہیں رد کر دیا ۔ان میں سے چند مسائل مندرجہ ذیل ہیں:

بیوی کا بوسہ لینے سے وضو کا ٹوٹنے کا مسئلہ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فتوی دیا تھا کہ بیوی کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب حضرت عائشہ کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت روزہ میں ہمارا بوسہ لیتے پھر وضو نہیں کرتے ۔ (عین الصحابہ ، باب الطہارۃ)

کیا عورت کے لیے غسل جنابت میں چوٹی کا کھولنا ضروری ہے؟

:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما عورتوں کو غسل جنابت میں چوٹیاں کھولنے کا حکم دیتے تھے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے فرمایا حیرت ابن عمر پر کہ وہ عورتوں کو غسل جنابت کے وقت سر کھولنے کا حکم دیتے ہیں وہ سر منڈا دینے کا حکم کیوں نہیں دیتے !میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے ۔میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی تھی کہ میں اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالتی تھی اور نسائی کا لفظ ہے’’ اور میں بال نہیں کھولتی تھی ‘‘(مسلم شریف ،ج۱ص۱۵۰ ، نسائی ج۱ص۷۱ ،باب ترک المرأۃ نقض رأسھا عند الاغتسال)

حالت جنابت میں صبح کرنے سے روزہ کے فساد کا مسئلہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے وعظ میں کہا کرتے تھے کہ جو حالت جنابت میں صبح کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا جب یہ خبر حضرت عائشہ اور حضرت سلمہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر روزہ بھی رہتے ۔ (مسلم شریف ج۱ ص ۳۵۳، صحۃ صوم من طلع علیہ الفجر وھو جنب)

کیا ہدی کا جانور بھیجنے سے آدمی محرم ہو جاتا ہے؟: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ یہ فتوی دیتے تھے کہ ہدی کا جانور بھیجنے کے بعد ادمی محرم ہو جاتا ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کا قلادہ باندھتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھیج دیتے اور ان باتوں سے اجتناب نہیں کرتے جن سے محرم اجتناب کرتا ہے۔ (نسائی ج۲ص۶ ،باب فتل القلائد)

فقہ وافتااور قیاس:

قرآن و حدیث میں کامل مہارت کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ کو فقہ و افتا اور قیاس میں بھی انفرادی حیثیت اورید طولیٰ حاصل تھا۔ فقہاے صحابہ ان کی جانب رجوع کرتے تھے ۔ایک خلق کثیر نے ان سے فقپ سیکھا۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ص۲۵)

ان کا شمار مجتہدین میں ہوتا تھا ۔وہ فقہ وافتا کے اس عظیم مقام پر فائزتھیں جہاں قیاس و اجتہاد کے جملہ شرائط پائے جاتے ہیں۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس ،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ ان کا نام بلا تکلف لیا جاتا ہے، ان کا اصول استنباط یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے کسی مسئلے کو قران میں تلاش کرتیں اگر اس میں ناپاتیں توحدیث کی طرف رجوع کرتیں پھراجتہاد سے کام لیتیں۔ چنانچہ متعہ کی حرمت کے بارے میں انہوں نے اس آیت ’’والذین ھم لفروجھم حٰفظون،الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین‘‘ سے استدلال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال بالرفیق الاعلی کے بعد منصب افتا و ارشاد پر فائز ہو کر مرجعیت عامہ حاصل کرلیں، خلافت صدیقی کے علاوہ خلافت فاروقی و عثمانی میں بھی مستقل مفتی رہیں بلکہ اپنی حیات مستعار کی آخری سانس تک اس منصب جلیل پر فائز و ممتاز رہیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ص۳۲۳)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں دمشق سے قاصد مدینہ آکر حضرت امیرمعاویہ کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مسائل دریافت کرکے لے جاتے ،خلافت عثمانی کے اختتام تک اکابر صحابہ تقریبا دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور اس وقت علمی قیادت اصاغر صحابہ حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالی عنہم کے ہاتھ میں تھی۔ ان درخشندہ ستاروں کے درمیان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حیثیت بدرمنیراورماہ کامل کی تھی۔ ان ستاروں میں سے ہر ایک ان کے علم کا محتاج تھا ۔اکثر مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرجعیت کا یہ حال تھا کہ تمام ممالک اسلامیہ سے جوق در جوق لوگ آپ سے مسائل دریافت کرنے کے لیے آتے، آپ پردے کی آڑ سے ان کے سوالات و شبہات کا تسلی بخش جواب دے کر ان کو مطمئن کرتیں، اگر خاص قسم کے سوال میں کسی کو جھجک محسوس ہوتی تو آپ فرماتیں:میں تمہاری ماں ہوں اورماں سےشرمایا نہیں جاتا۔(مسند احمد ج۶ص۹۷)

اگر صحابہ کرام کے درمیان کسی مسئلے میں نزاع ہوتا تو فیصلے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم بناتے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کے درمیان یہ اختلاف ہوا کہ جنازہ کے ساتھ چلنے میں ثواب ہے یا نہیں؟ حضرت ابوہریرہ ثواب کی قائل تھے اور کہتے تھے کہ جو جنازے کے ساتھ چلے اس کے لیے ایک قیراط ہے اور حضرت ابن عمر کا کہنا تھا کہ جانا مباح ہے مگر ثواب نہیں ہے؛ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف نماز جنازہ پڑھ کے آ جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ نہیں جاتے۔ جب حضرت عائشہ تک محاکمہ پہنچا تو انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے۔ (بخاری شریف ج۱ص ۱۷۷)

ہم عصر صحابہ پر تنقید:

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا :اللہ تعالی عبدالرحمن پر رحم فرمائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس کا۔(مسند احمد ج۶ص۳۴۳)
ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرہ کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ عمرہ کیا جن میں سے ایک عمرہ رجب کے مہینے میں کیا تھا ،حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بلند اواز سے کہا خالہ جان کیا اپ نہیں سنتی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا وہ کیا کہہ رہے ہیں بتایا گیا وہ کہہ رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار بار عمرہ کیا جن میں سے ایک عمرہ رجب میں تھا یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا خدا ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں میں شریک نہ تھی رجب میں اپ نے کوئی عمرہ ہی نہیں کیا۔ (صحیح بخاری ،کتاب العمرۃ ج۱ص ۲۳۸)
ابو سلمہ کہتے ہیں: میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا اور عرض کیا ام المومنین !جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ غسل شرعی کے لیے خروج ماء شرط ہے حضرت عائشہ نے فرمایا :جابر غلط کہتے ہیں غسل خروج ماء کے بغیر بھی واجب ہو جاتا ہے اگر خروج ماء کے بغیر رجم  واجب ہو جاتا ہے تو غسل کیوں نہیں ہو سکتا ۔ (عین الصحابہ بحوالۂ مشاہیر حدیث ص ۹۸)
ابو القاسم بن محمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو معلوم ہوا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اگر عورت سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے میں آپ کے سامنے لیٹے ہوتی تھی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے لگتے تھے ہاتھ سے میرے پاؤں کو ہلاتے تھے میں اپنے پاؤں سکڑ لیا کرتی تھی اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوبارہ پاؤں پھیلا دیتی۔ (ایضا)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں فتنہ کے پیش نظر عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا، بہت سے لوگوں نے اس فیصلے پر چہ می گوئیاں کیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: آج عورتوں کا جو حال ہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ان کا یہی حال ہوتا تو وہ ہرگز ہرگز انہیں مسجد میں نہ آنے دیتے۔ ( بخاری شریف ج ۱ص ۱۲۰ ، باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس )

علم طب :

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا علم طب اور مریضوں کے علاج و معالجہ میں بھی بہت ماہر تھیں، حضرت عروہ بن زبیر نے ایک دن حیران ہو کر حضرت عائشہ سے عرض کیا اے اماں جان! مجھے آپ کے فقہ پر حیرت و استجاب نہیں ہے اس لیے کہ ٓاپ کو شمع رشد و ہدایت کی زوجیت و صحبت کا شرف حاصل ہے جس سے پورے عالم کو علم و آگہی اور دین و دانش کا نور حاصل ہوا اور نہ ہی مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ ٓاپ کو اشعار ووقائع اور ایام عرب کا علم ہے اس لیے کہ ٓاپ اس صدیق اکبر کی نور نظر ہیں جو اشعار عرب کے بہت ماہر تھے البتہ آپ کے طب جاننے پر ضرور حیرت ہے کہ آپ کو یہ طبی معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی۔ (سیر اعلام النبلاء ج۳ص۳۲۶)
ایک مرتبہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اے خالہ! آپ نے طب کہاں سے سیکھا تو آپ نے فرمایا میں بیمار پڑتی تھی تو میرے لیے کوئی دوا تجویز کی جاتی تھی یا کوئی دوسرا بیمار پڑتا اور اس کے لیے دوا تجویز کی جاتی یا بعض لوگوں کو بعض کے لیے دوا تجویز کرتے ہوئے سنتی تو میں اسے یاد کر لیتی۔ (ایضا۳۲۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کے آخری دور میں جب اچھی طرح کھڑے نہیں ہو پاتے تو عرب کے گوشے گوشے سے وفد آ کر دوا تجویز کرتا اور میں تجویز کردہ دواؤں سے ان کا علاج کرتی۔ (ایضا ۳۲۶)

شاعری:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شعرگوئی میں مکمل دست رس تھا۔ بوقت ضرورت وہ شعرمیں گفتگو کرتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ان کے یہ دو اشعار مروی ہیں :
لو سمعوا فی مصر او صاف خدہ
بما بذلوا فی سوم یسوف من نقد 
لواحی زلیخا لو رأین جبینہ
لاثرن بالقطع القلوب علی الایدی     [مدارج النبوۃ]
ترجمہ:اگر مصر کے لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عارض منور کے بارے میں سن لیتے تو یوسف علیہ السلام کی خریداری میں ایک روپیہ خرچ نہ کرتے۔ زلیخا پر ملامت کرنے والیاں اگر اپ کے جبین اقدس کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے دلوں کو کاٹ لیتیں۔

آیت تیمم کا نزول:

قرآن پاک کی یہ ٓایت تیمم ’’فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم ان اللہ کان عفوا غفورا‘‘ان کی برکت سے نازل ہوئی۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت لشکر اسلام رات کو ایک بے آب و گیا ہ میدان میں فروکش ہوا وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہار گم ہو گیا ،اس کی تلاش میں مسلمانوں کو وہاں ٹھہرنا پڑا، کسی کے پاس پانی نہ تھا، سرکار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرما تھے، حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکو زجر وتوبیخ بھی کی کہ تیری وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو یہاں رکنا پڑا ہے، نہیں دیکھتی کہ کسی کے پاس پانی نہیں ہے ،وہ نماز کے لیے وضو یا غسل کیسے کریں گے؟  تو اللہ تعالی نے آیت تیمم نازل فرمائی اور سب نے تیمم کر کے نماز ادا کی ۔اسید بن حفیر نے کہا اے آل بکر یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے بلکہ ہم نے اس طرح کی برکتوں کا بارہا مشاہدہ کیا ہے اور مسلمانوں کو بہت سے آسانیاں فراہم ہوئی ہیں پھر اونٹ کو اٹھایا گیا تو اس کے نیچے ہار ملا۔ (مؤطا امام محمد ص۷۷، سیر اعلام النبلاء ج۳ ص۳۲۲)

وفات:

59 ہجری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ایک روایت کے مطابق ان کی تاریخ وفات 58 ہجری ہے۔(تذکرۃ الحفاظ،ج۱ص۲۶)
استیعاب میں ہے: 58 ہجری رمضان شریف کی سترویں رات منگل کو ان کا انتقال ہوا۔انہوں نے رات کو تدفین کی وصیت کی تھی وصیت کے مطابق بعد نماز وتر جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور پانچ لوگوں نے قبر میں اتارا، عبداللہ، عروہ یہ دونوں زبیر کے بیٹے ہیں قاسم بن محمد، عبداللہ ابن محمد ابن ابوبکر، عبداللہ ابن عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ تعالی عنہم ۔ (الاستیعاب ج۴ص۴۳۸، اسد الغابہ ج۷ص۱۸۹)
جس رات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا اس رات ان کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کے لیے لوگ اس کثرت سے آئے تھے کہ معلوم ہو رہا تھا کہ جنت البقیع عید گاہ بن چکا ہے اورقندیلوں کی روشنی سے بقیع جگمگا اٹھی تھی۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ سال پانچ مہینے رہیں ۔’’استیاب‘‘ میں ہے کہ نوسال رہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ (الاستیعاب ج۴ص۴۳۵)

Post a Comment

0 Comments