السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام صاحب نے جمعہ میں اعلان فرمایا کہ عشر (کھیت کے پیداوار کی زکوٰۃ) کے روپیہ پیسہ کو مسجد کے رنگ پینٹ اور دوسرے کاموں میں لگانا خرچ کرنا جائز نہیں ہے کسی غریب کو دیا جائے یا اس مدرسہ میں دے دیا جائے جسمیں غریب اور یتیم بچے پڑھتے ہیں لیکن مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ عشر کے پیسوں کو مسجد میں لگاتے آئے ہیں مسجد ہی میں لگائیں گے امام صاحب تو نیا مسئلہ بتارہے ہیں ہم اس کو نہیں مانیں گے دریافت طلب بات یہ ہے کہ امام صاحب کا کہنا درست ہے یا نہیں اور مسجد میں عشر کا پیسہ لگانا جائز ہے یا نہیں جب کہ مسجد بھی عالیشان بنی ہوئی ہے نمازیوں کو کسی طرح کی کوئی دقت بھی نہیں ہوتی ہے
لھٰذا قرآن و حدیث اور کتب فقہ سے جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔ فقط والسلام
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔
امام صاحب کا اعلان شرعی اعتبار سے بالکل درست اور صحیح ہے ۔ کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ زکوة ، فطرات ، عُشر اور صدقات واجبہ کے پیسے مسجد میں نہیں لگا سکتے ۔ اور نہ اس طرح عُشر ادا ہوگا کیوں کہ عُشر کی ادائیگی کے لیے بھی زکوٰۃ کے حقدار (شرعی فقیر) کو اس کا مالک بنانا شرط ہے تو اگر عُشر کو مسجد میں خرچ کیا جائے گا تو ادائیگی عُشر کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے عشر ادا نہ ہوگا۔
*فتاوی عالمگیری میں ہے :
"ولا يجوز أن يبني بالزكوة المسجد وكذا القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه"
یعنی اور جائز نہیں ہے کہ زکوٰۃ (کے پیسے) سے مسجد ، پُل ، سقایہ ، بنوانا، سڑکیں درست کروانا ، نہریں کھدوانا ، حج اور جہاد میں خرچ کرنا اور اس اس جگہ خرچ کرنا جہاں تملیک نہ پائی جاتی ہو۔
(فتاوی عالمگیری،کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف ، جلد اول ، ص: ١٨٨/ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
مجمع الانھر میں ہے :
"و لاتدفع الزکاۃ لبناء مسجد لان التملیک شرط فیھا و لم یوجد"
یعنی مسجد کی تعمیر کے لیے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کیوں کہ زکوٰۃ (کی ادائیگی) میں تملیک شرط ہے اور وہ (یہاں) نہیں پائی جا رہی۔
(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، جلد اول ، ص : ٣٢٨، دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
"پھر دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجوں کو بطورِ اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔"
(فتاویٰ رضویہ ،جلددہم ،ص:١١٠،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا، ’’اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔‘‘
(بہارشریعت، جلد اول ، حصہ پنجم ، ص: ٨٩٠/مکتبۃ المدینہ کراچی)
ہاں ! اگر مسجد کو اخراجات کی ضرورت ہوتی اور لوگ مسجد میں دلچسپی نہ لے رہے ہوں اور مسجد کے اراکین و محلہ والے اس قدر خستہ حال ہوں کہ مسجد کے اخراجات کو پورے نہ کرسکتے ہوں تو پھر ایسی صورت میں بوجہ مجبوری عُشر کے پیسے کو حیلہ شرعی کرکے مسجد کے اخراجات میں صرف کرسکتے ہیں ۔ حیلہ کا طریقہ یوں ہوگا کہ پہلے زکوة کے حقدار جیسے فقیر مسکین کو عُشر یا اس کے پیسے دیدیے جائیں پھر وہ قبضہ کرنے کے بعد اپنی رضا و خوشی سے وہ مسجد کے لیے دیدے۔
مگر صورت مسئولہ میں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ پس اس مسجد میں عُشر کی رقم حیلہ کرکے بھی نہیں لگا سکتے اس لیے اس کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ہاں ! سوال میں مذکور مسجد جہاں پر واقع ہے وہاں ہمیشہ سے جب یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ وہاں عُشر کی رقم مسجد ہی میں لوگ لگاتے ہوئے آئے ہیں تو ایسی جگہوں میں امام صاحب کو حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تھی ، پہلے اس مسجد کے اراکین اور محلے کے اثر و رسوخ رکھنے والے ذمہ داران حضرات کو فردٙٙا فردٙٙا یا پھر ان حضرات کو کہیں جمع کرکے کتابوں کی روشنی میں سمجھا دیتا اور پھر اگر ضرورت محسوس ہوتی تو سب کے سامنے اس مسئلہ کا اعلان کرتا ۔ تو از کا نتیجہ کچھ اور نکلا ہوتا۔ لیکن افسوس ایسا ہونہ سکا ۔
ؐلہذا اس طرح کے مسائل کو حکمت و مصلحت سے حل کیا جائے کیوں کہ آج نفس پرستی کا دور ہے کوئی اپنی بے عزتی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا ، آج لوگوں میں اتنی دین داری نہیں ہے کہ احکامِ شرع کے سامنے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائے ۔ جب حالات ایسے درپیش ہوں تو ہر مبلغ و خطیب کو چاہیے کہ مصلحت سے کام لے ۔ تاکہ سانپ بھی مرجائے اور ڈنڈا بھی نہ ٹوٹے۔
اگر امام صاحب اس طرح کی حکمت عملی سے کام لیا ہوتا تو میرا تجربہ کہتا ہے کہ اس بنیادی قدیم مسئلہ کو ایک نیا مسئلہ کہہ کر اس سے رو گردانی نہیں کیا جاتا اور نہ یہ ہنگامہ برپا ہوتا ۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔
فقط واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعظم اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد واگرہ ، بھروچ ، گجرات۔
٢۴/جمادی الاولی ١۴۴۵
٩/دسمبر ٢٠٢٣ بروز سنیچر
0 Comments