سیرت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ


[ولادت:وفات:۳۳ھ]

نام : عبداللہ ، کنیت: ابن ام عبد، ابو عبد الرحمن۔ (سیر اعلام النبلاج۱ص ۴۱)

القاب: الامام الحبر،فقیہ الامۃ۔ (سیر اعلام النبلاج۳ص ۳۸۱۔۳۸۲)

دیدار مصطفی ﷺ:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیلی مرتبہ سرکار کائنات ﷺ کے رخ زیبا کا دیدار کس طرز اور کس ڈھنگ پر کیا وہ خود بیان فرماتے ہیں : میں اپنے چجائوں اور اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ خوشبو کی چیزیں خریدنے مکہ آیا تو لوگوں نے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پتہ بتایا، ہم لوگ ان کے پاس پہنچے ، وہ اس وقت چاہ زمزم پر بیٹھے تھے ، ہم ان کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ ایک صاحب باب الصفا سے داخل ہوئے ،نہایت گورا رنگ،سپیدی پر سرخی دوڑ رہی تھی ، سامنے کے دانت بڑے چمک دار تھے ، سینہ سے لے کر ناف تک باریک بالوں کی ایک دھار ی تھی، ہتھیلیوںپر گوشت تھے، داڑھی گھنی ، سفید لباس میں ملبوس ، چہرہ گویا ماہ شب چہاردہم، داہنی جانب ایک خوبصورت کم عمر لڑکا تھا اور پیچھے ایک خاتون جو اپنے آپ کو ڈھانکے ہوئے تھیں، تینوں حجر اسود کے پاس آئے اور انہوں نے علی الترتیب اسے بوسا دیا ، پھر سات مرتبہ طواف کیا، اس کے بعدرکن یمانی کے سامنے آکر ہاتھ اٹھا ئے ، تکبیر کہی اور نماز پڑھی ، ہم نے مکہ میں یہ نئی بات دیکھی۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ یہ میرے بھتیجے محمد ﷺ ہیں دوسرا لڑکا بھی میرا بھتیجا علی بن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں وہ بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کی بیوی ہیں ، اس دین کے پیروکار اس وقت پوری روئے زمین پر یہی تینوں ہیں ۔( سیر اعلام النبلاج۱ص ۴۶۳)

قبول اسلام:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبول اسلام کا واقعہ بذات خود اس طرح بیان کرتے ہیں : ایک روز میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایارہاتھا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے تمہارے پاس دودھ ہے؟ میں نے کہا : جی ہے۔ مگر میں اس وقت امین ہوں ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : کوئی ایسی بکری لائو جس کا نر سے ملاپ نہ ہوا ہو، میں نے آپ کی بارگاہ میں ایک بکر ی پیش کیاحضور ﷺ نے ا س بکری کو باندھ دیا ، اورتھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی ۔ تھن دودھ سے بھر گیا پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دود ھ پینے کو کہا توحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دودھ پیا پھر حضور ﷺ نے تھن کو حکم دیا سکڑ جا،وہ سکڑ گیا اور اپنی پہلی حالت پر لوٹ گیا پھر میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اس قرآن سے سکھائیے۔ حضور نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ارشاد فرمایا : انت غلام معلم ۔ پھر میں نے حضور سے ستر سورتیں سیکھیں اور کسی نے مجھ سے اس سلسلے میں نزاع نہیں کیا ۔(اسد الغابہ، ج۳ص ۳۸۲)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فقہ واجتہاد :یوں ہی تو عہد رسالت ﷺ میں صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین کی کل تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ (مقدمہ ابن الصلاح ومحاسن الاصلاح،ص ۴۹۶)لیکن ان میں ہر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقیہ ومجتہد تھے ، نا وہ اپنے آپ کو فتوی کا اہل سمجھتے تھے اور نہ وہ اسلامی معاشرہ میں اہم ذمہ داری کا اہل سمجھے جاتے تھے ۔ لیکن ان میں چند ہی صحابہ فقیہ ومجتہد تھے جو عہد رسالت میں فتوی دیتے تھے ۔ دیگر صحابہ ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ ان مجتہدین صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں پہنچتی ہے جیساکہ شرح فتح القدیر میں ہے: لاتبلغ عدۃ المجتھدین الفقہاء منھم اکثر من عشرین۔ (شرح فتح القدیرج۳ص ۳۳۵) صحابہ میں سے مجتہدین فقہاکی تعداد بیس سے زائد نہیں ۔ ان بیس مجتہدین صحابہ میں کچھ مجتہدین صحابہ وہ ہیں جن سے بکثرت فتاویٰ منقول ہیں ایسے کل سات صحابی ہیں ۔ (۱) ام االمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (۲)حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۳)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۴) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۶) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۷)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (الاحکام ج۵ص۹۲)

یہاں پر اس بات کی وضاحت وصراحت کرنا مناسب ہے کہ عہد صحابہ میں جب کھبی اور جہاں کہیں نت نئے مسائل پیش ہوئے اکثر وبیشتر ان ہی سات اکابر مجتہدین صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی نہ کسی کے پاس جاکر مسئلہ کا حکم اسکا حل اور جواب پوچھا جاتا تھا اور جن سے کبھی مسئلہ معلوم کیا جاتا وہ اپنی مجتہدانہ صلاحیت وبصیرت سے کبھی فورا جواب دے کر سائل کو مطمئن کرتے اور عمل کا راستہ وپتہ بتاتے جیساکہ کسی نے میراث کا ایک نہایت پیچیدہ ودقیقہ مسئلہ دوران خطبہ ہی حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت اس کا حل بتا دیا وہ جواب آج تک مسئلہ منبریہ کے نام سے جانا جاتاہے اور کبھی بعد میں سائل کوجواب دیتے جیساکہ سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہر اور میراث مفوضہ کے مسئلہ کا جواب ایک مہینے کے بعددیا تھا۔(سنن ابی دائود ج۱ص۲۸۸)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مجتہدین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی فطرت میں کیسا عظیم اجتہادی ملکہ ودیعت کیا گیا تھا اور بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضری ، صحبت وخدمت نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایسا جلا ونور بخشاتھا کہ مشکل سے مشکل مسئلہ کو حل کرنا آسان تھا ان اکابر مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجتہدانہ صلاحیت اور فقیہانہ بصیرت مزاج شریعت سے مناسبت اور اس میں رسوخ و پیچیدگی نے انہیں مرجع خلائق بنا یا تھا۔

مذکورہ بالا مجتہدین صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے ہر مجتہد نے جن مسائل کو حل کیا یہ انفرادی اجتہادی مسائل کا ذخیرہ ہر مجتہد کے انداز فکر ونظر کا شاہد اس کی اجتہادی آرا ونظریات کا جامع اور اس کی اصابت رائے کا شاہکار ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے فقہی واجتہادی مقام ومرتبہ کا اندازہ اس روایت سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے ۔ علامہ خطیب بغدادی نے بسند متصل علی بن المدینی کا بیان ان الفاظ میں کیا ہے: لم یکن من اصحاب النبی ﷺ احد لہ اصحاب یقومون لہ بقولہ فی الفقہ الا ثلاثۃ ، عبد اللہ بن مسعود وزیدبن ثابت وابن عباس وکان لکل واحد منھم اصحاب یقومون لقولہ ویفتون الناس۔ (سیر اعلام النبلا ج۲ص۴۳۸)

حضور اکرم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے شاگر د فقہ میں ان کے اقوال جمے رہتے اور عمل کرتے اور اس کے فقہی مذہب کو اختیار کرتے مگر تین صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم (۱)حضرت عبد اللہ بن مسعود (۲)حضرت زید بن ثابت(۳)حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے شاگر ان کے قول کو اختیار کرتے اور لوگوں کو ان کے مطابق فتوی دیتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے بلند ترین فقیہ تھے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مجہد اعظم وخلیفہ راشد سے فقہی مسائل میں سو سے زیادہ مسئلوں میں اختلاف رکھتے تھے۔ چناں چہ ابن حزم فرماتے ہیں:اما اختلافھما فلو تقصی یبلغ ازید من مائۃ مسئلۃ ۔ (الاحکام فی اصو ل الاحکام ج۶ص۶۱) حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مابین اختلافی مسائل کو اگر شمار کیاجائے تو ان کی تعداد سو سے زائد ہوگی ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ تادم حیات مرجع  الفتاوی والخلائق رہے، فقہ واجتہاد میں آپ کی شان یہ تھی کہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی موجودگی میںہم لوگوں سے مسئلہ مت پوچھا کرو جیساکہ ابوعمرو شیبانی کا بیان ہے: ان ابا موسیٰ استفتی فی شیٔ من الفرائض فغلط وخالفہ ابن مسعود فقال ابو موسیٰ : لاتسئلونی عن شیٔ مادام ھذا الحبر بین اظھرکم۔(سیر اعلام النبلاج۱ص۴۹۲۔۴۹۳) 

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں علم فرائض ایک استفتا پیش کیا گیا اس میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطا کرگئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مسئلہ کی تصحیح کی اور اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : جب تک یہ بڑے عالم تمہارے درمیان ہیں مجھ سے سوال مت کرنا۔

ایک فقیہ اور مجتہد کے لیے علم قرآن اور علم حدیث پر کما حقہ درک حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان علوم پر مکمل دسترس اورعبور حاصل تھا ۔ علم قراء ت میں آپ کی مہارت اور اس میں گہرائی اور گیرائی کی سند توخود نبی کریم ﷺ اپنی زبان فیض ترجمان سے دی تھی جیساکہ عبداللہ بن عمر کا بیان ہے: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول استقرئو ا القرآن من اربعۃ من ابن مسعود وسالم مولی ابی حذیفۃ وابی بن کعب ومعاذ بن جبل ۔ (مسلم شریف ج ۲ص ۲۹۳)

میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن چار آدمیوںسے سیکھو عبد اللہ بن مسعود ،سالم مولی ابی حذیفہ ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ۔

خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے : والذی لا الہ غیرہ مامن کتاب اللہ سورۃ الا انااعلم حیث نزلت وما من آیۃ الا انا اعلم فیما نزلت ولو اعلم احداھو اعلم بکتاب اللہ منی تبلغہ العلم لرکبت الیہ۔ (مسلم شریف ج۲ص ۲۹۳)

قسم ہے اس ذات جس کے سوا کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی ہر سورت کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور کتاب کی ہر آیت کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ کس چیز کے معتلق نازل ہوئی اوراگر مجھے یہ علم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا ہے اور اونٹوں پر سفر کرکے جانا ممکن ہے تو ضرور میں اس کے پاس اونٹوں پر سوار ہوکر جائوں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر جلیل القدر مجتہد اور عظیم الشان فقیہ تھے کہ آپ جیسا فقیہ کو فہ میں کوئی نہیں آیا، چناں چہ امام شعبی علیہ الرحمہ کوفہ کے بڑے بڑے فقہا و مجتہدین کے اجتہادی پہلو کا مطالعہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ما دخل بالکوفۃ احد من الصحابۃ انفع علما ولا افقہ صاحبا من عبد اللہ۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ عالم وفقیہ شخص کوفہ میں نہیں آیا۔ (تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعود ص۶۳) یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ نے آپ کی تعلیمات وفرمودات کو محفوظ رکھا اور اسے تحریر کی خوب صورت موتیوں میں پیش کیا، چناں چہ علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں: لم یکن احد لہ اصحاب معروفون حددوا فتیاہ ومذاہبہ فی الفقیہ غیر ابن مسعود۔ (مقدمہ المحقق بدائع الصنائع ج1 ص 28)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے علاوہ کسی کے ایسے مشہور تلامذہ نہ ہوئے جنہوں نے اپنے استاذ کے فتاوی اور مذاہب فقہ کو تحریر کیا۔ یہی تحریرات و فرمودات واسطہ بواسطہ جب امام الائمہ، کاشف الغمہ سراج الامہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچیں تو امام الائمہ نے ان پر فقہ حنفی کی بنیاد رکھی اور مستقل مذہب حنفی کی داغ بیل ڈالی اور اسلامی تعلیمات کو عالم اسلام کے کونے کونے تک پہنچانے کی سعی بلیغ اور عمدہ کوشش کی چنانچہ صاحب در مختار نے فقہائے کرام کا مشہور و معروف عمدہ و نفیس مقولہ نقل کیا ہے: الفقہ زرعہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وسقاہ علقمۃ وحصدہ ابراھیم النخعی وداسہ حماد وطحنہ ابوحنیفۃ وعجنہ ابویوسف وخبزہ محمد فسائر الناس یاکلون من خبز(در مختار مع رد المحتار جلد 1 صفحہ 141۔۔۔ 142)
فقہ کا کھیت حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بویا، حضرت علقمہ نے اسے سینچا ابراہیم نخعی نے اسے کاٹا، حماد نے اس کو گاہا، ابو حنیفہ نے اس کو پیسا، امام ابو یوسف نے اس کو گوندھا، امام محمد نے روٹی پکائی باقی سب اسے کھا رہے ہیں یعنی حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اجتہاد و استنباط احکام کے طریقے کو فروغ بخشا اور حضرت علقمہ نے اس کی تائید و ترویج کی ابراہیم نخعی نے اس کے فوائد متفرقہ جمع کیے، حماد نے اس کی توضیح و تنقیح کی، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے اصول و فروع کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تدوین کا مہتم بالشان کارنامہ انجام دیاابو یوسف نے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کردہ قواعد و اصول کی روشنی میں مزید فروع و احکام کا استنباط کیا پھر امام محمد نے فقہ کو استنباط و تنقیح، تہذیب و تحریر کی اس منزل تک پہنچا دیا کہ اب مزید کسی چیز کی حاجت نہ رہی(رد المحتار ج1ص 141...142)
حضرت عبداللہ کے اجتہاد و قیاس کی چند مثالیں: آپ کے اتنے فتاوی ہیں کہ اگر ان کو ترتیب دیا جائے اور ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم اور مبسوط کتاب تیار ہو جائے گی۔
قیا س: قیاس اصول فقہ کا چوتھا رکن ہے جو درحقیقت قرآن، حدیث اور اجماع کی ایک شاخ اور اس کا ایک حصہ ہے لیکن توسیع فقہ اور نئے نئے مسائل کی بند گروہوں کو کھولنے کے اعتبار سے وہ خاص اہمیت رکھتا ہے یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام جزئیات صراحتا مذکور نہیں ہیں اس لیے علت مشترکہ کا قاعدہ بنا کر جزئیات غیر منصوصہ کو احکام منصوصہ پر قیاس کرنا فقیہ یا مجتہد کا سب سے اہم فرض ہے۔ چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے عملا قیاس شرعی سے کام لے کر ائندہ نسلوں کے لیے وسیع شاہراہ قائم کر دی اور ضمنا بہت سے ایسے قائدے مقرر کر دیے جو آج اصول فقہ حنفی کی بنیادیں ہیں۔
        حج یا عمرہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی احرام باندھ لے اور دشمن کے حائل ہو جانے سے حج یا عمرہ کے ارکان کو پورا نہ کر سکے تو صرف قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے اور ائندہ جب کبھی موقع آئے اپنے ارادے کو پورا کرے جیسا کہ خود نبی کریمصلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔ لیکن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ مجبوری کو علت مشترکہ قرار دے کر مریض یا دوسرے مجبور اشخاص و افراد کے لیے بھی یہی حکم جاری فرماتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ میں عمرہ کے لیے احرام باندھ چکا تھا کہ اتفاقا سانپ نے ڈس لیا اور اب جانے کی طاقت نہ رہی تو فرمایا تم صرف قربانی بھیج کر احرام کھول دو اور جب ممکن ہو عمرہ ادا کرو۔(مؤطا امام محمد)
علم فرائض کا ایک قاعدہ ہے کہ میت سے جس کو زیادہ قرابت ہوگی اسی کو وراثت میں ترجیح دی جائے گی مثلا حقیقی بھائی کو علاتی یا اخیافی بھائی پر صرف اس لیے ترجیح حاصل ہے کہ اول الذکر کو ماں باپ دونوں طرف سے قرابت ہے برخلاف مؤخر الذکر کے کہ ان دونوں میں صرف ایک حیثیت سے قرابت پائی جاتی ہے۔ 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اس قاعدے کو دیگر قرابت داروں میں بھی پیش نظر رکھتے ہیں مثلا ایک میت نے زید اور بکر دو چچا زاد بھائی چھوڑے اور زید کو اس رشتے کے علاوہ میت کے اخیافی بھائی ہونے کی بھی نسبت حاصل ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اس صورت میں دو دو جہت قرابت کی علت مرجحہ نکال کر زید کو بکر پر ترجیح دیتے ہیں لیکن جمہور علمائے اہل سنت عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ (التوضیح والتلویح)
مذکورہ مسائل قیاسی کے علاوہ فقہ اسلامی کی بہت سی پیچیدہ گرہیں اور مشکل مسائل صرف عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے ناخن اجتہاد سے حل ہوئے۔ آپ استنباط و تفریع پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے اور نصوص شرعیہ میں ناسخ ومنسوخ ، موقت ومبد کی تفریق کر کے صحیح استنباط حکم کی راہ پیدا کر لیتے تھے ۔ایک دفعہ آپ کی بارگاہ میں ایک استفتا آیا کہ ایک حاملہ عورت جس کا شوہر مر جائے اس کی عدت کیا ہے؟ قرآن مجید میں عدت کے متعلق مختلف احکام ہیں ۔سورہ بقرہ میں یہ حکم مذکور ہے: 
والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا (البقرۃ آیت: ۲۳۴)
اور تم میںجو مرے اور بیویاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو اے حمل والیو! تم پر مواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملے میں موافق شرع کریں اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن ۔ (سورۃ الطلاق، آیت ۴)
  حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے۔
  ان آیتوں کی بنیاد پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال تھا کہ جس میں زیادہ مدت صرف ہو اس کی عدت قرار دیا جائے تاکہ دونوں آیات کا توافق ہو جائے لیکن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے وضع حمل عدت قرار دی اور فرمایا میں اس کے لیے مباہلہ کر سکتا ہوں کہ سورہ نساء سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ (التوضیح ص۶۲)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس یہ استفتا آیا کہ ایک عورت کا نکاح ہوا لیکن اس وقت نکاح میں مہر کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا یہاں تک کہ اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو کیا اب وہ عورت مہرو وراثت کی مستحق ہوگی یا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فی الفور جواب نہ دیا مستفتی کے ضد اور اصرار کے باوجود ایک مہینہ تک خاموش رہے لیکن جب زیادہ مجبور ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ وہ عورت مہر مثل اور وراثت دونوں کی مستحق ہے اور اس عورت پر عدت بھی ہے پھر ازراہ احتیاط ارشاد فرمایا: اگر یہ صحیح ہے تو خدا کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ۔خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں۔ اس وقت حاضرین میں دو صحابی رضی اللہ تعالی عنہما موجود تھے۔ انہوں نے اٹھ کر کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق کے حق میں بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ اس توافق سے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو غیر معمولی مسرت حاصل ہوئی۔ ( ابو داؤد شریف صفحہ 288 کتاب النکاح)
سبحان اللہ! کس قدر گہرائی وہ گیرائی اور علم میں پختگی تھی کہ جب ایک اجنبی مسئلہ پر اجتہاد کیا تو عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق کیا ۔ایسی جیتی وہ جاگتی مثالوں کے بعد بھی اگر کوئی قیاس و اجتہاد کا انکار کرے اور اس کو خواہشات نفسانی سے تعبیر کرے تو سوائے اس بات کے کہ وہ شریعت اسلامیہ سے ناواقف اور نابلد ہے اور بس
مذکورہ تمام باتوں سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر فقیہ و مجتہد تھے اور امت محمدیہ کے لیے انمول تحفہ اور فقہ حنفی کے لیے عظیم سرمایہ تھے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے قدم مبارک کے صدقے فقہ اسلامی کا وافر حصہ عطا فرمائے۔
 وفات:
32 ہجری میں آپ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ ( اسد الغابہ جلد ۳  صفحہ ۳۸۷)

Post a Comment

0 Comments