سیرت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما

ولادت ۳قبل ہجرت۔۔ وفات :۶۸)

اسم گرامی: عبداللہ،

کنیت: ابوالعباس،

القاب: ترجمان القرآن ، حبرامت ،

والدہ کا نام: ام الفضل لبابہ اور والد گرامی حضرت عباس بن عبد المطلب جو رسول اللہ ﷺکے چچا ہیں۔ (اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ، ج ۳، ص:۱۸۲، ازعزالدین بن الاثیر ابوالحسن علی بن محمد الجزری، دار الکتب العلمیہ، بیروت ،ایڈیشن:۱۹۹۴ء )

سلسلہ نسب:

عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی القرشی الہاشمی۔ (الاستیعاب، ج ۳، ص: ۴۲۳، از : حافظ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر قرطبی، دار الاعلام، عمان، ایڈیشن: ۲۰۰۲ء )

خاندانی پس منظر:

آپ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی اورام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھانجے ہیں۔

ولادت :

ہجرت نبوی سے تین سال قبل شعب ابی طالب میں آپ کی ولادت ہوئی، جب کہ کفار مکہ نے خاندان بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا اور پورا خاندان شعب ابی طالب میں عسرت و آلام کی صبر آز مازندگی گزاررہا تھا۔ پیدائش کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں آئیں تو حضور ﷺ نے آپ کی تحنیک فرمائی اور اپنا مبارک لعاب دہن آپ کو چٹایا۔ تو سب سے پہلی چیزجوآپ کے شکم مبارک میں داخل ہوئی وہ رسول اللہ ہی کی پیر کا لعاب دہن تھا۔ اس کی برکت سے آپ کو تقوی اور علم حکمت جیسی عظیم نعمت عطا ہوئی۔ (اسد الغابہ، ج ۳، ص: ۱۸۷)

قبول اسلام:

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ سے کچھ پہلے اسلام قبول کیا مگر حضرت عبداللہ کی والدہ حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنھا ابتدائے اسلام ہی میں پیغام اسلام کو اپنا کر مسلمان ہو چکی تھیں۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۸ ھ میں قبول اسلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے ، اس وقت حضرت عبداللہ گیارہ سال کے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ کم سنی ہی میں اپنے والدین کی اتباع میں مسلمان ہو چکے تھے۔( مشاہیر حدیث ، ص: ۵۸۳ از ڈاکٹرمحمد عاصم اعظمی، رضا اکیڈی، ممبئی، ایڈ یشن (۲۰۰۵ء)

ذات رسول ﷺ سے وابستگی:

جب حضرت عبداللہ بن عباس اورچھوٹے تھے تواکثرو بیشترحضور پیر کی بارگاہ میں حاضر رہا کرتے تھے ، حضرت میمونہ بلایا تھا چوں کہ آپ کی خالہ تھیں اور آپ سے بہت محبت فرماتی تھیں ، آپ بسا اوقات انہی کے پاس بیٹھتے اور کبھی کبھی حجرہ میمونہ لیا جن میں سو بھی جایا کرتے تھے۔ جب آپ سن شعور کو پہنچے تور سول اللہ ﷺ کے دامن سے وابستہ ہو گئے ، سفر و حضر ہر جگہ حضور ﷺکے ساتھ رہتے تھے ، جب حضور وضو کا ارادہ فرماتے تو آپ پانی کا انتظام کرتے ، جب حضورﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ حضورﷺ کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ، جب حضور سفر کا ارادہ فرماتے تو آپ حضور کے ہم سفر ہوتے اور سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھتے ، یہاں تک کہ آپ حضور ﷺ کے سائے کی طرح ہو گئے تھے کہ جہاں بھی حضور جاتے آپ ساتھ ساتھ ہوتے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس خود بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو میں نے فوراً وضو کا پانی حاضر کر دیا، یہ دیکھ کر حضور خوش ہوئے ، اور جب نماز کا ارادہ فرمایا تو میری طرف اشارہ کیا کہ میں آپ کے پہلو میں کھڑا ہو جاؤں تو میں حضورﷺکے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ جب نماز مکمل ہوئی تو آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے عبد اللہ ! تمھیں کس چیز نے میرے مقابل کھڑے ہونے سے روکا ؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ میری نگاہ میں اس سے بہت بلند اور عزیز ہیں کہ میں آپ کے پہلو میں کھڑا ہو جاؤں۔ تو رسول اللہ علی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: اللہم اٰتہ الحکمۃ (اے اللہ ! تو اسے حکمت عطا فرما۔ )

ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نمازکے لیے بیدارہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے وضو کا پانی لاکر رکھ دیا، وضو کر نے کے بعد حضور ﷺ نے دریافت کیا: پانی کس نے رکھا تھا؟ حضرت میمونہ نے جواب دیا: عبد اللہ نے ، حضور خوش ہوئے اور دعافرمائی: " اللہم فقہہ فی الدینِ وعلمہ التَّاوِیلَ. ‘‘ اے اللہ ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور قرآن کی تفسیر سکھا دے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج:۲، ص:۹۱، از شیخ الاسلام قاضی شہاب الدین ابوالفضل احمدبن علی عسقلانی مصری شافعی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ایڈیش:۱۹۹۴ء )

رسول اللہ ﷺکی یہ دعا مقبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہ علم و حکمت عطا فرمایا کہ آپ بہت سے اکابر صحابہ کرام پر سبقت لے گئے۔ جس کے چند نمونے آپ انشاء اللہ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

جذبہ تحصیل علم :

رسول اللہ مﷺکے ظاہری طور پر دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ اکابر صحابہ کرام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر قرآن وحدیث کا علم حاصل کیا کرتے تھے ،تحصیل علم کا شوق اس حد کو پہنچا ہوا تھا کہ جس کے بارے میں معلوم ہوتا کہ اس کے پاس رسول اللہﷺکی کوئی حدیث ہے تو آپ خود بہ نفس نفیس اس کے پاس جاکر اس حدیث کا سماع فرماتے۔ آپ خود اپنے اشتیاق و جستجو سے علم کی داستان یوں بیان فرماتے ہیں: جب رسول اللہ علی کی وفات ہوئی تو میں نے ایک انصاری شخص سے کہا: آؤ ہم نبی کریم ﷺکے اصحاب سے علم حاصل کریں کہ وہ اس وقت بڑی تعداد میں موجود ہیں ، تو اس انصاری شخص نے کہا: اے ابن عباس اتم پر تعجب ہے، کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ علم میں تمھارے محتاج ہوں گے ؟ حضرت ابن عباس علیہ فرماتے ہیں : میں نے اس کو چھوڑ دیا اور تنہا حصول علم کے لیے متوجہ ہو گیا، جس کسی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ اس کے پاس کوئی حدیث ہے تو مشقت اٹھا کر اس کے دروازے پر جاتا، اگر وہ قیلولہ کر رہا ہوتا تومیں اس کے دروازے کے باہر چادر بچھا کر لیٹ جاتا اور ہوا مجھے پر گردو غبار اڑاتی ، جب وہ شخص باہر نکلتا تو مجھے اس حال میں دیکھ کر کہا: اے ابن عم رسول ! آپ نے کیوں زحمت کی ، آپ مجھے کسی کے ذریعے بلا بھیجتے میں خود حاضر ہو جاتا۔ میں کہتا نہیں میں اس کا زیادہ حق دار ہوں کہ آپ کے پاس آؤں اور حدیث رسول کے بارے میں آپ سے پوچھوں کچھ دنوں کے بعد اس انصاری شخص نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں اور مجھ سے احادیث دریافت کر رہے ہیں، تو اس نے کہا: یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقل مند تھا‘‘۔ (الحدیث والمحدثون ، ص:۱۳۹، ازمحمد محمد ابوزہو، دارالفکرالعربی، قاہرہ، مصر الاصابہ، ج ۴، ص:۱۹)
حضرت ابو رافع جو حضور پانی لے کے آزاد کردہ غلام تھے ، انھیں رسول اللہ مینی میلی لیہ کی خدمت کا کافی موقع میسر آیا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس بھی تھا ان کے پاس کا تب لے کر جاتے اور پوچھتے کہ حضور ﷺنے فلاں فلاں دن کیا عمل کیا ؟ حضرت ابورافع نے بیان کرتے اور کاتب لکھتا جاتا۔ (الاصابہ ،ج:۰۴ ،ص:۲۹)
تحصیل علم کی اس لگن نے حضرت ابن عباس بالوں کو حجرامت بند یا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کو آپ کی وسعت علم کی وجہ سے ’’البحر‘‘ (علم کا سمندر) کہا کرتے تھے۔ (اسد الغاب?، ج : ۳،ص:۷۸۱) حضرت عثمان غنی بی اے کی شہادت تک آپ علمی و دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے دور خلافت میں آپ کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا، آپ نے بڑی دیانت و فراست کے ساتھ فرائض منصبی انجام دیے، مگر حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی شہادت کے بعد آپ اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیراورعبدالملک بن مروان کے درمیان شورش ہوئی تو آپ اور حضرت محمد بن حنفیہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ مکرمہ چلے گئے، حضرت ابن زبیر نے ان دونوں سے بیعت کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کر دیا اورفرمایا تمھیں تمھارا معاملہ مبارک ہو، ہم نہ تمھارا ساتھ دیں گے نہ کسی اور کا۔ حضرت ابن زبیر نے غضبناک ہو کر کہا: میری بیعت کر لو ورنہ میں تم دونوں کو جلا دوں گا۔ وہ دونوں پھر بھی نہ مانے ، اس انکار نے ابن زبیر کو ان دونوں کا دشمن بنا دیا ، مکہ میں رہائش دشوار ہو گئی تو اپنے حامیوں کی حفاظت میں مکہ مکرمہ سے طائف چلے گئے۔ وصال پر ملال اور مزار پاک: طائف پہنچنے کے بعد حضرت ابن عباس بیمارہوگئے اورسات روز بیمار رہنے کے بعد طائف میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا: بخدا آج اس امت کے بڑے عالم کا انتقال ہو گیا۔ (اسد الغابہ، ج ۳، ص:۱۹۰)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن حنفیہ نے فرمایا: آج اس امت کے عالم ربانی کا انتقال ہو گیا۔ (الاستیعاب، ج ۳)
آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں :۔ (۱)۵ ۶ھ(۲) ۶۶ھ (۳) ۷۰ھ (۴)۷۳ھ (۵) ۸۲ھ۔ اس آخری قول کو اکثر تذکرہ نگاروں نے اختیار کیا ہے اور اسی کو ترجیح دی ہے۔ (الاصابہ، ج ۴، ص:۴۹ اسد الغابہ، ج ۳، ص:۱۹۰)
آپ کا مزار پاک طائف میں زیارت گاہ خلائق ہے۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں: میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازے میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک سفید پرندہ آیا اور حضرت ابن عباس کے کفن میں داخل ہو گیا۔ اور پھر اسے نکلتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ حضرت ابن عباس کا علم تھا۔ جب ان کو قبر میں رکھا گیا تولوگوں نے ان کو آیت کریمہ:یایتھا النفس المطمئنۃ، ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ ، فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی۔(سور? الفجر، آیت: ۷۲-۰۳) پڑھتے ہوئے سنا۔ (الاصابہ، ج ۴، ص:۹۴)

مجتہدانہ شان اور فقہی کارنامے :

حضرت سعید بن جبیر بنتی ہے حضرت ابن عباس یا جنا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : حضرت عمر بن خطاب ریلی نے مجھے اصحاب بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے تو بعض لوگوں کو میرا کبار صحابہ کی صف میں بیٹھنا ناگوار گزرا تو انھوں نے کہا : آپ اس نو خیز جو ان کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جب کہ ہمارے بیٹے بھی اسی کی طرح ہیں؟ تو حضرت عمر نے فرمایا: ان کا مرتبہ تم نہیں جانتے ہو۔ پھر ایک دن حضرت عمر نے مجھے بلایا اور ان کے ساتھ بٹھایا، میرا خیال تھا کہ مجھے اس دن اس لیے بلایا تھا کہ ان لوگوں کو میرے بارے میں کچھ بتائیں ، تو آپ نے فرمایا: تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشاد "اذا جاء نصر اللہ والفتح ‘‘کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ تو بعض نے کہا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمیں فتح و نصرت ملے تو ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور استغفار کریں، اور بعض لوگ خاموش رہے۔ حضرت عمر نے مجھ سے فرمایا: اے ابن عباس کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: تو کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ان کو خبر دی اور فرمایا "اذا جاء نصر اللہ والفتح ‘‘، یعنی یہ تمھاری وفات کی علامت ہے تو تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور استغفار کرو، بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس آیت کریمہ کے بارے میں میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم کہ رہے ہو۔ (بخاری شریف، ج:۲، ص:۷۴۳، مجلس برکات ، جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی )
حضرت عبد اللہ بن ابوزید فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس علی نجنا سے کوئی سوال کیا جاتا تو اگر اس کا جواب قرآن میں ہو تا تو آپ اس کے مطابق جواب دیتے ، اگر قرآن میں نہ ہوتا اور رسول اللہ عالی لینے کی احادث میں ہوتا تو آپ اس کے مطابق جواب دیتے ، اگر احادیث نبویہ میں نہ ہوتا اور حضرت ابو بکر و عمر با انجنا کے اقوال میں ہو تا تو آپ اس کے مطابق جواب دیتے اور ان میں بھی نہ ہوتا تو اپنی رائے اور اجتہاد سے جواب دیتے۔ (الاصابہ، ج:۲، ص: ۳۹)
حضرت ابن عباس خود فرماتے ہیں:’’ہم اہل بیت شجر نبوت ملائکہ کی آمد ورفت کی جگہ ، اہل بیت رسالت، اہل بیت رحمت اور معدن علم ہیں۔ ‘‘ (اسد الغابہ، ج: ص:۱۸۷)
حضرت لیث بن ابوسلیم کہتے ہیں : میں نے حضرت طاؤس سے کہا: آپ نے اس نوجوان یعنی حضرت عبداللہ بن عباس کی صحبت اختیار کی اور اکابر صحابہ کرام کو چھوڑ دیا ؟ تو انھوں نے فرمایا: میں نے سترصحابہ کرام کو دیکھا کہ جب ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا تو وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (ایضا، ص: ۱۸۸)
حضرت امیرالمؤمنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب مشکل معاملات پیش ہوتےتوآپ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاتے اور فرماتے: میرے پاس مشکل مسائل آئے ہیں اور مشکل معاملات کو حل کرنا آپ کا کام ہے۔ پھرحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو فرماتے حضرت عمر بنی اسی لیے اس کے مطابق حکم نافذ فرماتے۔ حالاں کہ حضرت عمر خود بہت بڑے فقیہ، مجتہد اور صاحب علم وفضل تھے۔ (الحدیث والمحدثون ، ص :۱۴۰)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقہ، حدیث ، تفسیر، حساب ، فرائض اور ایام عرب ( اہل عرب کی جنگوں ) میں مہارت تامہ رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آپ اپنی مجلس میں ایک دن صرف فقہی مسائل بیان فرماتے ، ایک دن صرف قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے ، ایک دن صرف غزوات رسول ﷺ کا ذکر فرماتے اور ایک دن صرف ایام عرب کے بارے میں گفتگو فرماتے۔ آپ کی بارگاہ میں جو بھی عالم بیٹھتاوہ آپ کا معتقد ہو جاتا اور جو کچھ بھی آپ سے پوچھتا تو اس کے متعلق آپ کے پاس علم پاتا۔ (مصدر سابق، ص:۱۴۰)
حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس کی مجلس سے بڑھ کر ہر بھلائی کو جمع کرنے والی کوئی مجلس نہ دیکھی جس میں حلال و حرام ، عربوں کی جنگوں، انساب عرب اور اشعار عرب کا تذکرہ ہو تا تھا۔ (الاستیعاب، ج ۳،ص:۴۲۴)
آپ کے تعلق سے ایک واقعہ کتابوں میں ملتا ہے کہ جب حضرت علی کے بعض اصحاب ان سے الگ ہو گئے اور حضرت امیر معاویہ ہی لی لی لیلی کے ساتھ نزاع کے سلسلے میں ان کی مدد چھوڑ دی تو حضرت ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اے امیرالمومنین! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان سے گفتگو کروں۔ حضرت علی نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہیں وہ تمھیں تکلیف نہ پہنچا دیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا: ہرگز نہیں ان شاء اللہ
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں کے پاس گئے تو انھیں عبادت وریاضت میں محنت و مشقت کرتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے آپ کو دیکھ کر کہا: خوش آمدید، اے ابن عباس ! کیسے آنا ہوا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں آپ لوگوں سے بات کرنے کے لیے آیا ہوں ، تو ان میں سے بعض نے کہا: ان سے بات مت کرو۔ اور بعض نے کہا: آپ فرمائیے ، ہم آپ کی بات سنیں گے۔ تو آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ کہ تمھیں رسول اللہ ﷺکے چازاد بھائی، ان کی بیٹی کے شوہر اور ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والے (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کون سی بات بری لگی ؟ تو انھوں نے کہا: ہمیں ان کی تین باتیں بری لگیں۔ آپ نے فرمایا: کون سی تین باتیں؟ ان لوگوں نے کہا: پہلی بات یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے دین میں لوگوں کو حاکم بنا دیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی لیکن ان سے مال غنیمت حاصل نہ کیا اور نہ ہی کسی کو قیدی بنایا، اور تیسری بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نام کے آگے سے امیرالمومنین کا لقب ہٹا دیا حالاں کہ مسلمانوں نے ان کی بیعت کی اور ان کو اپنا امیر بنایا۔ آپ نے فرمایا: بھلا بتاؤ تواگر میں تمھیں قرآن مجید کی آیات سناؤں اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کروں جن کا تم انکار نہیں کرتے تو کیا تم لوگ اپنے موقف سے رجوع کرلوگے ؟ ان سب نے جواب دیا:ہاں۔
آپ نے فرمایا رہا تمھارا یہ کہنا کہ انھوں نے اللہ کے دین میں لوگوں کو حاکم بنا دیا ہے تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: یایھا الذین اٰمنوا لاتقتلوا الصید وانتم حرم ومن قتلہ منکم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم یحکم بہ ذا عدل منکم۔
ترجمہ: اے ایمان والو اشکار نہ مارو جب تم احرام میں ہو اور تم میں جو اسے قصد اقتل کرے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ ویسا ہی جانور مویشی سے دے، تم میں کے دو ثقہ آدمی اس کا حکم کریں۔ (کنز الایمان، سورہ مائدہ : آیت ۹۵)
پھرآپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، مسلمانوں کے خون اور ان کی جان کی حفاظت اوران کی باہمی درستگی کے سلسلے میں ان کو حاکم بنانا بہتر ہے یا اس خرگوش کے سلسلے میں جس کی قیمت ربع درہم (درہم کا چوتھائی حصہ ) ہے؟ تو ان لوگوں نے جواب دیا: مسلمانوں کے خون کی حفاظت اور ان کی باہمی درستگی کے سلسلے میں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا آپ لوگ اپنے اس خیال سے باز آئے ؟ تو انھوں نے جواب دیا: ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا : رہا تمھارا یہ کہنا کہ حضرت علی نے جنگ کی لیکن کسی کو قیدی نہیں بنایا جیسے رسول اللہ بنایا کرتے تھے۔ تو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنی ماں حضرت عائشہ راہ جالے کو قیدی بناؤ اور انھیں حلال کرو جیسے قیدیوں کو حلال سمجھا جاتا ہے؟ اگرتم ہاں کہوگے تو کافرہوجاؤ گے ، اور اگر کہو گے کہ وہ تمھاری ماں نہیں ہے تو بھی کافر ہو جاؤ گے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم وازواجہ امھتھم
ترجمہ : یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔ (کنز الایمان ، سورہ احزاب، آیت:۶)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے لیے جو چاہو اختیار کرو۔ پھر فرمایا: کیا تم اپنے اس خیال سے بھی باز آگئے؟ تو ان لوگوں نے کہا: ہاں۔
پھر فرمایا: رہا تمھارا یہ کہنا کہ حضرت علی نے اپنے نام کے آگے سے امیر المؤمنین کا لقب ہٹادیا تو رسول اللہﷺ نے صلح حدیبیہ کے دن صلح نامہ میں لکھوایا تھا: ’’ھذا ما قاضی علیہ رسول اللہ ﷺ‘‘ تو کفار نے کہا تھا کہ اگر ہم اس بات پر ایمان لاتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ سے نہ روکتے اور نہ ہی آپ سے جنگ کرتے۔ اس کے بجائے آپ محمد بن عبد اللہ ‘‘ لکھوائیے۔ تورسول اللہ ﷺنے وہی لکھوایا۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا: کیا تم لوگ اس خیال سے بھی بازآگئے ؟ تو ان لوگوں نے کہا: ہاں ، ہم باز آ گئے۔ اس ملاقات اورحکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ ان میں سے ہیں ہزار لوگ واپس حضرت علی کی فوج میں شامل ہو گئے اور چارہزار لوگ اپنے موقف پر اڑے رہے۔ (صور من حیاۃ الصحابہ ، ص: ۱۷۶۔۱۷۹)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر ایک جامعہ کی حیثیت رکھتا تھا، دور دراز سے لوگ آپ کی بارگاہ میں آتے،یہاں تک کہ آپ کے گھر کے ارد گرد کے راستے تنگ ہو جاتے۔ آپ کی بارگاہ میں لوگ حروف و آیات قرآن ، تفسیر و توضیح قرآن ، حرام و حلال، جائزوناجائز، فرائض ومیراث ، ایام عرب اوراشعارعرب کا علم حاصل کرنے کے لیے حاضرہوا کرتے تھے۔ آپ ان سب علوم کے عالم تھے اوران میں کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ (مصدر سابق، ص: ۱۸۱-۱۸۲)
حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس جب بصرہ کے گورنر تھے تو رمضان المبارک میں لوگوں کو تفسیر قرآن سنایا کرتے تھے، مہینہ ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مجلس میں بیٹھنے والے فقیہ بن جایا کرتے تھے۔ (الاصابہ، ج:۲، ص:۹۴)
حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ : حضرت ابن عباس چند چیزوں میں لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے:۔ (۱) ماسبق کا علم (۲) اس چیز کی سمجھ جس میں رائے اور اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے (۳) حلم (۴) نسب (۵) تفسیر۔ آگے فرماتے ہیں: میں نے ان سے زیادہ رسول اللہ ﷺکی احادیث اور ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے فیصلوں کا جانے والا، اپنی رائے اور اجتہاد میں سے بڑا فقیہ، اشعار و ایام عرب، تفسیر، حساب اور فرائض کا جاننے والا کسی کو نہ دیکھا۔(اسد الغابہ، ج ۴، ص: ۱۸۷۔۱۸۸)
کتاب الاحکام میں ابن حزم بیان کرتے ہیں: حضرت امام ابو بکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن مامون نے حضرت ابن عباس کے فتاویٰ کو بیس جلدوں میں جمع کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص: ۳۵۸، از امام شمس الدین ذہبی، موسۃ الرسالہ، بیروت)
حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات: حضرت ابن عباس کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۱۶۶۰ ہے۔ بخاری و مسلم دونوں نے ان میں سے ۹۵؍ احادیث کو روایت کیا ہے اورصرف بخاری نے ۱۲۰؍ احادیث کواورصرف مسلم نے۴۹؍احادیث کو روایت کیا ہے۔ (الحدیث والمحدثون ، ص:۱۴۰)

Post a Comment

0 Comments