امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
نام: علی، کنیت: ابوالحسن، ابو تراب، القاب: حیدر، مرتضیٰ، اسد اللہ، والد کا نام: ابوطالب بن عبد المطلب بن عبد منا ف اوروالدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ آپ نجیب الطرفین ہاشمی تھے، آ پ کا سلسلہئ نسب والد اور والدہ دونوں کی جانب سے ہاشم تک پہنچتا ہے۔
شجرہئ نسب پدری: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضیر بن کنانہ (تاریخ الخلفا ص۲۳۱)
شجرہئ نسب مادری: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف (طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۴۱)
ولادت: اس سلسلے میں کوئی محکم روایت نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کب ہوئی، البتہ اکثر سیرت نگاروں کے نزدیک جیساکہ ”اصابہ“ میں ہے کہ آپ کی پیدائش صحیح قول کے مطابق اعلان نبوت سے دس سال پہلے ہوئی۔
تربیت: حضرت ولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہکی ابتدائی پرورش آپ کے والدین کے زیر سایہ ہوئی لیکن بعد میں مستقل طور پر حضور اکرم ﷺ کی کفالت میں آگئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ قحط سالی کی وجہ سے قریش بہت پریشان حال ہوئے، ابوطالب بھی انہیں میں سے تھے۔ یہ کثیر العیالی سے سبب سخت معاشی پریشانیوں سے دوچار ہوئے۔ عمربھی کافی ہوچکی تھی، ان حالات کو دیکھتے ہوئے رسول ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کیا کہ ہم دونوں کو مل کر ابو طالب کا بوجھ ہلکا کرنا چاہیے اور انہیں معاشی مشکلات سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے چانں چہ آپ دونوں نے اس مصیبت سے نجات دلانے لے لیے یہ تدبیر اپنائی کہ حضرت عباس نے جعفر بن ابی بالب کو اور رسو ل اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ حضرت علی نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو آغوش نبوت میں پایا۔ (السیرۃ النبوۃ المعروف سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۶۴۲)
قبول اسلام: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں اصحاب سیر اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں میں سب سے پیلے آپ نے اسلام قبول کیا، البتہ اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں: طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسلام قبول فرمایا اس وقت آپ کی عمر نو برس سے کم یا گیارہ برس تھی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج۳ص۵۱) اصابہ میں ہے: مشرف بہ اسلام ہونے کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر دس سال تھی، دوسرا قول یہ ہے کہ پندرہ سال تھی۔ (الاصبابہ فی تمییز الصحابہ ج۴ ص ۸۶۴)
یہاں پر قبول اسلام کا واقعہ ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا؛لہذا ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعلان نبوت کے ابتدائی دنوں میں ایک مرتبہ رسو اللہ ﷺ اور ام المومنین دخدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کو عبادت میں مصروف دیکھا تو حضرت علی نے حیرت سے دریافت کیا کہ آپ دونوں یہ کیا کررہے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے جسے نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے انبیا کو مبعوث فرمایا ہے؛ لہذا میں تمہیں خداے وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور لات وعزی کی ٹھکرانے کی تاکید کرتاہوں حضرت علی نے کہا ساس سے پہلے میں نے ایسی کوئی بات نہیں سنی، میں اس کا تذکر ہ والد گرامی سے کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمیا کہ اگر تمہیں کچھ تامل ہے تو اپنے طور پر غور وفکر کر لو، کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تربیت نے فطرت کو سنوار دیا تھا، ایک رات توقت کے بعد باگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ (اسد الغابہ ج۴ص ۸۸)اسلام سے قبل بھی آپ کا دامن اصنام پرستی اور جاہلی رسوم سے کبھی داغدار ہونہ ہوا۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۵۱)
خلافت: حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دوسرے دن ۹۱/ذی الحجہ۳ ھ کوحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر برآرائے خلافت ہوئے۔ حضرت طلحہ، زبیر، سعد بن وقاص، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل، محمد بن مسلمہ، سہل بن حنیفہ، ابو ایوب انصاری، اسامہ بن زید اور تما م اصحاب رسول ﷺ جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے آپ سے بیعت خلافت لے لی۔ آپ کے دور خلافت میں دو معرکے واقعہئ جمل ۶۳ھ واقعہئ صفین ۷۳ھ پیش آئے۔ واقعہئ نہروان بھی آپ ہی کے عہد میں پیش آیا۔ ہوا یوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف آپ ہی کے ہمراہیوں میں ایک بڑی تعداد نے خروج کیا اور وہ سب مقام میں حرورا میں جمع ہونے لگے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ کو افہام وتفہیم کے لیے بھیجا،کافی بحث ومباحثہ کے بعد ایک بڑی جماعت نے رجوع کر لیا لیکن ایک جماعت اپنی رائے پر قائم رہی اور یہ لوگ نہروان چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہروان پہنچے اور پورے لشکر خوارج کا صفایا کردیا اور ان کے سرغنہ ذو واقعہ ۸۳ھ میں پیش آیا۔ (طبقات کبریٰ ابن سعد، ج ۳ص ۲۲۔۳۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاسی تدبیر اور دانائی میں یکتائے روزگار تھے، اصول حکمرانی سے واقف تھے، آپ اپنی خلافت کو دین وتقویٰ اور اخلاص کی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اپنی خلافت صدیق وفاروق کی طرح قرآن وحدیث کے اصولوں پر قائم کیا۔ آپ نے بہت سی اصلاحات نافذ کیں، خارجیوں کی سرکوبی آپ کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔
تفسیر اور علوم قرآن:علوم ومعارف کا اجصل سرچشمہ قرآن ہے، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس چشمہ سے پوری طرح فیضیاب تھے، آپ سے آیات کی تفسیریں کثرت کے ساتھ منقول ہیں۔ آپ قرآن پاک کی ہر آیت کے معانی ومطالب اور ا کے شان نزول سے واقف تھے، چناں چہ آپ نے فرمایا: واللہ ما نزلت اٰیۃ الا وقد علمت فیما نزلت واین نزلت وعلی من نزلت وان ربی وھب لی قبلا عقولا ولسانا ناطقا۔(سیر اعلام النبلاج۲ص۷۲۶)
بخدا میں ہر آیت کے متعلق جانتا ہوں کہ یہ کہاں، کیوں اور کس کے حق میں نازل ہوئی، میرے رب نے مجھے عقل مند دل اوور زبان فصیح سے سرفراز فرمایا ہے۔
علم حدیث: مولائے کائنات علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بچپن سے لے کر نبی اکرم ﷺ کی وفات تک حضور کی خدمت و رفاقت مندگی بسر کی؛اس لیے آپ کو ارشادات رسالت سننے اوراحکام دینیہ سیکھنے کا زیادہ موقع ملا، تمام خلفا میں حدیث کی روایت کا زمانہ آپ کو سب سے زیادہ میسر آیا؛ اسی لیے خلفائے سابقین کے مقابلے میں آپ کی روایتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن احادیث کی روایت میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ اس لیے کثیر الروایہ صحابہ کے مقابلے میں آپ کی روایتیں بہت کم ہیں۔ چناں چہ آپ سے ۶۸۵ حدیثیں مروی ہیں۔ (تاریخ الخلفا ص۳۳۱)
فقہ واجتہاد: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فقہ واجتہاد میں مکمل دسترس حاصل تھی، قرآن وتفسیر حدیث وسنت پر گہری نگاہ ہونے کے ساتھ ہی ذہانت، دقیقہ سنجی، نکتہ سنجی، اصول وکلیات اور فروع وجزئیات میں آپ کو کا مل دست گاہ حاصل تھی۔ اکابر صحابہ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، حضرت فاروق اعظم ور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فقہ واجتہاد کے اعلیٰ درجے پر دفائز تھے لیکن کبھی کبھی ان حضرات کو بھی آپ سے استفادہ کی ضرورت پیش آتی جیساکہ مندرجہ ذیل دونوں رویتوں سے پتہ چلتا ہے:
سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے: اعوذ باللہ من معضلۃ لیس لھا ابو حسن۔ (سیر اعلام النبلا ج ۲ ص ۸۲۶) میں اس مشکل مسئلے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جس کی گھتی سلجھانے میں ابو الحسن نہ ہوں۔
شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خفین پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ نے فرمایاکہ علی سے پوچھ لو کیوں کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے حضرت علی سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مسافر تین دن تین رات اور مقیم ایک دن اور ایک رات مسح کرے گا۔ (مسند امام احمدبن حنبل ج۲ص ۳۴۳)
فقیہ امت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”ان اقضی اھل المدینۃ علی بن ابی طالب“ (استیعاب ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبد البر ج۳ ص۷۰۲) علی بن ابی طالب اہل مدینہ میں سب سے بڑے قاضی تھے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں:”لیس احد منھم اقوی قولا فی الفرائض من علی“ فرائض میں علی سے زیادہ قوی کوئی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے خود آپ کو”أقضاھم علی“ کی سند عطا فرمائی تھی۔ (ابن ماجہ ص۳۳ حدیث ۴۵۱)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو فقہ واجتہاد اور قضا میں اتنا بڑا مقام ملنے کا سبب کیا ہے؟ اسے مولاے کائنات ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں: بعثنی رسول اللہ ﷺ الی الیمن وانا حدیث السن لیس لی علم بالقضاء فضرب صدری وقال:اذھب فان اللہ سیھدی قلبک ویثبت لسانک۔قال فما سککت فی قضاء بین اثنین۔ (سیر اعلام النبلا ج ۲ص ۷۲۶)
ابھی میں نو عمر ہی تھا اور مجھے قضا کا کچھ علم نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، آپ نے میرے سینے پر دست مبارک رکھا اور فرمایا جاؤ بے شک اللہ تعالیٰ تیرے دل کو ہدایت دے گا اور تیری زبان کو استقلال عطا فرمائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے اس کے بعد دو شخصوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی تردد نہیں ہوا
استیعاب کے یہ الفاظ ہیں : اللهم اهد قلبه وسدد لسانه - اے اللہ علی کے دل کو ہدایت دے اور زبان کو درستی عطا فرما۔ (استیعاب ج ۳ ص ۲۹۴)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقیہ کی ذمہ داریوں کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : الا أنبئكم بالفقيه من لم يقنط الناس من رحمة الله ولم يرخص لهم في معاصى الله ولم يومنهم مكر الله - ( تذکرۃ الحفاظ شمس الدین ذہبی ، ج اص (۱۵) کیا تمہیں ایسے عمدہ فقیہ کی خبر نہ دوں جو فقہ کی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ بر آ ہونے والا ہے، پھر آپ نے فرمایا جو اللہ کی رحمت سے لوگوں کو محروم نہ کر دے اور اللہ کے مواخذہ سے انہیں بے پرواہ نہ کردے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ احکام شریعت کے استنباط واستخراج میں احادیث رسول کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، فرمائے ہیں لوکان الدین بالرائے لکان باطن القدمين احق بالمسح من ظاهرهما (سنن ابی داؤد، ج اص ۲۲) : اگر دین و شریعت کا انحصار محض رائے پر ہوتا تو پاؤں کی پشت بہ نسبت پاؤں کے تلوے کے صبح کے زیادہ مستحق ہوتے لیکن حضور ﷺ نے موزوں کی پشت پر مسیح فرمایا۔
فقہی و اجتہادی نمونے :
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فقہی و اجتہادی کارنامے بہت ہیں ، آپ سے کثیر فتاوی وضایا صادر ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ صاحب اعلام الموقعین نے کثیر الفتاوی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں آپ کا شمار کیا اور کہا کہ ان میں سے ہر ایک کے فتاوی اس قدر ہیں کہ ایک ضخیم دفتر تیار ہو سکتا ہے ۔ ( اعلام الموقعین ، ابن قیم جوزیہ ج ۲ ص ۱۸)
آئے اب ہم آپ کے فقہی واجتہادی کارناموں کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کریں: (1) مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ چند لوگوں نے شیر پھنسانے کے لیے ایک کنواں کھودا تھا ، شیر اس میں گر کر مر گیا ، چند لوگ ایک دوسرے کو ہنسی مذاق میں ڈھکیل رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کا پاؤں پھسلا اور کنوئیں میں گرنے لگا، اس نے اپنی جان بجانے کی خاطر بدحواسی میں دوسرے کی کمر پکڑ لی ، وہ بھی سنبھل نہ سکا اور گرتے گرتے اس تیسرے آدمی کی کمر تھام لی ، تیسرے نے چوتھے کو پکڑ لیا، غرض چاروں اس کنویں میں گر گئے اور شیر نے چاروں کو ہلاک کر دیا مقتولین کے ورثہ آپس میں آمادہ جنگ ہوئے ، حضرت علی نے ان کو منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ ہنگامہ اور فساد بہتر نہیں ، میں تمہارا فیصلہ کرتا ہوں اگر میرا فیصلہ پسند نہ آئے تو بارگارسالت میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہو، لوگوں نے رضا مندی کا اظہار کیا۔ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے یہ کنواں کھودا تھا ان کی قوم و قبیلے سے ان مقتولین کی دیت کی رقم اس طرح وصول کی جائے: ایک پوری ، ایک ایک تہائی، ایک ایک چوتھائی ، اور ایک آدھی۔ پھر پہلے مقتول کے ورثہ کو ایک چوتھائی دیت ، در سرے کو ثلث ، تیسرے کو نصف اور چوتھے کو پوری دیت دلائی۔ لیکن لوگ اس فیصلے سے راضی نہ ہوئے اور (حجۃ الوداع کے موقع پر ) جب آپ مقام ابراہیم کے پاس تشریف فرما تھے تو انہوں نے آپ کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کیا لیکن اس وقت ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت علی ہمارا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ ذرا غورکریں کہ اصل جرم ان لوگوں کا تھا جنہوں نے آبادی کے قریب شیر پھنسانے کے لیے کنواں کھودا تھا ، اس لیے کوئی متعین قاتل نہ ہونے کی وجہ سے کنواں کھودنے والوں اور ان کی قوم کو دیت کا ذمہ دار قرار دیا۔ پہلا شخص گرچہ اتفاقا گرا لیکن دوسرے کے ڈھکیلنے کا اس میں خاصا دخل تھا؛ اس لیے وہ دیت کا کم سے کم مستحق ہوا یعنی ایک چوتھائی کا؛ کیوں کہ اس شخص کے گرنے میں اتفاق کا عنصر زیادہ اور قصد کا کم دخل تھا۔ پہلے نے دوسرے کو قصدا کھینچا مگر بدحواسی کے عالم میں اس کے اپنے فعل کے انجام کے بارے میں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا؛ اس لیے پہلے کے مقابلے میں اس میں اتفاق کا کم اور قصد کا کچھ زیاد ہ دخل تھا؛اس لیے وہ تہائی کا مستحق قرار پایا۔ تیسرے مقتول کو گزشتہ نتائج دیکھ کر سوچنے سمجھنے کا موقع زیادہ ملا اس لیے اس میں اتفاق کے مقابلے میں قصد کا عنصر زیادہ تھا؛ اس لیے اس کو نصف کا مستحق قرار دیا ۔ تیسرے نے چوتھے کو کھینچا حالاں کہ وہ سب سے دور تھا اور پہلے کے نتائج کو تیسرے نے خوب غور سے دیکھ بھی لیا تھا ؛اس لیے وہ پورے قصد وارادے سے گرایا گیا۔ نیز اس نے دوسرے کو گرانے کا جر م بھی نہیں کیا اس لیے وہ پوری دیت کا مستحق ٹھہرا ( واللہ تعالیٰ اعلم) یہ واقعہ یمن میں پیش آیا تھا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہد رسالت ہی سے فتوی دیتے تھے۔
{۲}ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں ایک ایسی عورت کا معاملہ پیش ہوا جس نے صرف چھ ماہ کے حمل کے بعد بچہ جنا تھا ، تو حضرت فاروق اعظم نے اسے رجم کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وحملہ وفصٰلہ ثلٰثون شھرا (احقاق آیت ۱۵) آپ نے اس آیت کریمہ سے اس طور پر استدلا ل کیا کہ اس میں حمل ورضاعت دونوں کی مدت کا بیان ہے اور یہ اسی وقت درست ہوگا جب کہ حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہو؛ کیوں کہ ’’والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین ‘‘ (البقرہ آیت ۲۳۳) مائیں اپنی اولاد کو کامل دو سال دودھ پلائیں ۔ اس میں رضاعت کی مدت دو سال بتائی گئی ہے ۔ دو سال کے چوبیس مہینے اور حمل کے چھ ماہ کل تیس ماہ ہوگئے ؛ لہذا جب حمل کی مدت کم از کم چھ مہینے ہے تو اگر کوئی شادی شدہ عورت چھ مہینے پر بچہ جنے تو اس پر ہرگز زنا کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی؛لہذا اسے رجم بھی نہیں کیا جائے گا ۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا تو اس خاتون کو چھوڑ دیا اور اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ ( مصنف عبد الرزاق ج۷ص ۳۵) اسی موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا: لولا علی لھلک عمر (استیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج۳ص ۳۹۶)
(۳)اگر کنویں میں چوہا گر جائے اور مر کر پھٹ جائے توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک سات ڈول پانی کگالا جائے گا، اگر پھولا پھٹا نہ ہو تو ایک دو ڈول اور اگر سڑ گیا ہوتواس قدر پانی نکالا جائے گا جس سے بد بو دور ہوجائے۔ (کنز العمال ج۱ص ۹۸۴ حدیث ۲۷۵۰۰)ممکن ہے کہ آہ کے پیش نظر یہ حدیث ہو:’’ان الماء لا ینجسہ شیٔ الا ما غلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ‘‘ (ابن ماجہ باب الحیاض، ص ۶۸ حدیث ۵۲۱) بے شک کوئی چیز پانی کو ناپاک نہیں کرسکتی مگر یہ کہ اس کے رنگ ،مزہ یا بو پر کوئی چیز غالب آجائے۔
(۴) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک امامت کے لیے یہ ضروری تھا کہ امام کی حالت مقتدی کی حالت سے کم تر نہ ہو ؛اس لیے آپ تیمم کرنے والے کے پیچھے وضو کرنے والے کی نماز کو جائز قرار نہیں دیا۔ چناں چہ فرمایا: ’’لا یؤم المتیمم المتطھرین‘‘تیم کرنے والا وضو کرنے والوں کی امامت نہ کرے ۔ (کنز العمال ج۱ص ۸۳۸) اس میں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ’’ انما جعل الامام لیؤتم بہ‘‘ امام تو اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے لہذا اس سے اختلاف نہ کرو۔ اور ’’ الامام ضامن ‘‘ سے استدلال کیا ۔ (ترمذی شریف ج۱ص ۲۹۔۴۷)
(۵) بلی کے جھوٹے پانی کو پینے اور اس سے وضو کرنے میں آپ کوئی حرح نہیں سمجھتے تھے۔ چناںچہ کنز العمال مین ہے کہ آپ سے بلی کے جھوٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (کنز العمال، ج۱ ص ۹۸۴) اس مسئلے میں آپ کی نظر اس حدیث پر تھی ’’ انھا لیست بنجس انما ھی من الطوفین او الطوافات۔‘‘ بلی ناپاک نہیں ہے وہ گھروں میں بار بار آنے جانے میں والوں میں سے ہے۔ (سنن ابن ماجہ، باب الوضوء بسور الھرۃ ، ص ۵۴)
(۶) حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا موقف یہ تھا کہ اگر کوئی شخص قتل کردیا جائے اور اس کا قاتل کوئی شخص معین نہ ہو یا قاتل کا پتہ نہ چلے تو اس کی دیت بیت الما ل ست دی جائے گی۔ ، مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن مسجد کے اندر بھیڑ میں ایک شخص کو قتل کردیا گیا تو حضرت علی نے اس کی دیت بیت المال سے دلائی۔ ( مصنف عبدالرزاق، ج۸ص ۱۸۲) اسی طرح کعبہ شیرف میں ایک شخص کو قتل کردیا گیا لیکن قاتل کا پتہ نہ چلا توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بیت المال سے اس کی دیت دی جائے۔ ( ایضا حدیث ۱۹۴۱۴)
(۷) آپ رمضان میں بیس رکعت تراویح کے قائل تھے ، ترمذی شریف میں ہے : ’’ واکثر اہل العلم علی ما روی عن علی وغیرھمامن اصحاب البنی ﷺ عشرین رکعۃ ‘‘ (جامع ترمذی ج۱ ص ۹۹) اکثر اہل علم اس پر ہیں جو حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے یعنی تراویح بیس رکعت ہے۔
امام شافعی فرماتے ہیںکہ میں نے مکہ میں دیکھا کہ لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں یعنی صرف اہل کوفہ کا یہ مذہب نہیں کہ تراویح بیس رکعت ہے بلکہ اہل مکہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
(۸) یمن کے لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے پرانی باتیں ابھی تازہ تھیں ۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدالت می ںایک مقدمہ پیش ہوا ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عورت کے ساتھ تین مرد خلوت کرچکے تھے نومہینے کے بعد اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہر ایک دعویٰ کیا کہ وہ لڑکا اس کا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰ عنہ نے ان تینوں کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جس کے نام کا قرعہ نکلا بچہ اس کے سپرد کردیا اوراس سے بقیہ دونوں کو اس کے لڑکے کی دیت کے دوثلث دلوائے۔ (مستدرک حاکم ، ج۴ ص ۱۰۸)
(۹) مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کے نزدیک دیہات اور چھوٹے گائوں میں تشریقااو ر جمعہ قائم کرنا درست نہیں ، فرماتے ہیں : لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع ۔ جمعہ اور تشریق شہر کے سوا کہیں نہیں۔
(۱۰) آپ کے نزدیک موتمن پر ضمان نہیں ہے ؛جناں چہ فرماتے ہیں : لیس علی المؤتمن ضمان ۔ (مصدر سابق ج۸ص ۱۸۲)
(۱۱) اگر کسی عورت کا شوہر انتقال کرجائے اورر وہ حاملہ ہو توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کی عدت ابعد اجلین ہوگی یعنی وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی وہی اس عورت کی عدت کے لیے معتبر ہوگی۔ کیوں کہ یہ آیت کریمہ ’’واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن ‘‘ (الطلاق ،آیت ۴) اورحمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جن دے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ، عا م ازیں کہ ان عورتوں کو طلاق دی گئی ہو یا ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو اور دوسری جگہ ارشاد ہوا’’ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا‘‘ (البقرۃ آیت ۳۴) اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن عورتوں کے شوہر انتقال کر جائیں ان کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۔ بظاہر ان دونوں آیتوں میں تعارض ہے ۔ اس تعارض کو دورکرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ان دونوں آیتوں کون مقدم اور کون مؤخر ہے ہمیں اس کا علم نہیں لہذا ان کے درمیں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ عورت کی عدت ابعد اجلین قرار دی جائے اگر وضع حمل پہلے ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس قرار دی جائے اور اگر چار ماہ دس پہلے مکمل ہوجائے تو عدت وضع حمل تک مؤ خر کی جائے گی اس طرح دونوں آیتوں پر عمل ہو جائے گا۔ (التوضیح فی حل غوامض التنقیح ص۶۲)
(۱۲) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبیذ سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ شاید آپ کی نظر لیلۃ الجن والی حدیث پر تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: کچھ نبیذ ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا وہ پاکیزہ کھجور اور پاک کرنے والا پانی ہے۔( مصدر سابق، حدیث ۲۷۴۹۸) دوسری جگہ فرماتے ہیں : جب تو جنبی ہوجائے تو اپنے مقدور بھر کوشش کر کے پانی تلاش کر ۔ اس کے بعد اگگر قدرت نہ ہوپائے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لے پھر جب پانی مل جائے تو غسل کرلے۔ آپ کی نگاہ ’’ لا یکلف اللہ تفسا الا وسعھا ‘ (البقرۃ آیت ۲۸۶) پر تھی۔
(۱۳) کبھی کبھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں کوئی لغو مقدمہ پیش ہوتا تو آپ زندہ دلی کا ثبوت دیتے ۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس دو شخص آئے ، ان میں سے ایک نے دوسرے کے بارے میں عرض کیا کہ اس شخص نے خواب میں دیکھا ہے کہ اس میری ماں کے ساتھ آبرو ریزی کی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کرو اور اور اس کے سایہ کو مارو۔ (تاریخ الخلفا للسیوطی ص۱۴۲) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسا بطور مزاح فرمایا کیوں کہ آپ کے پیش نظر یہ حدیث تھی۔ ’’ رفع القلم عن ثلثۃ عن النائم حتی یستیقظ۔۔۔‘‘
(۱۴) کتاب الفرائض کا ایک اہم مسئلہ ’’مسئلۂ منبریہ ‘‘ ہے اس کو مسئلہ منبریہ اس لیے کہتے ہیں کہ حضرت علی سے یہ مسئلہ اس وقت دریافت کیا گیا جب کہ آپ کوفہ میں منبرپر خطبہ دے رہے تھے، آپ نے خطبہ کے سجع کی رعایت کرتے ہوئے اس کا جواب دیا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اسی دوران ایک آدمی نے آپ سے سوال کیا کہ ایک شخص کے وارثین میں ایک بیوی ،دوبیٹی اور اس کے والدین ہیں ، کیا ایسی صورت میں عورت کو ثمن نہیں ملے گا؟ تو آپ نے برجستہ فرمایا: صار ثمنھا تسعا یعنی اس مسئلے میں بیوی کا آٹھوا حصہ نواں حصہ ہوگیا ہے۔ (ملخصا برکات السراج لحل اصول السراجیہ ص۵۳)
(۱۵) ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مقام صہبا میں رسول اللہ ﷺ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میںسر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے تھے اور آپ نے عصر کی نماز ادا نہیں کی تھی ، حضور ﷺ آرام فرماتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ جب حضور ﷺ بیدار ہوئے تو دعا فرمائی : اے اللہ !علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا؛ لہذا سورج کو واپس فرمادے۔آپ کے دعا فرماتے ہی سورج بلند ہوگیا یہاں تک کہ حضرت علی نے وضو کرکے نماز ادا فرمائی ، اس کے بعد معمول کے مطابق سورج غروب ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ ج۲ص ۸۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس اندیشے سے کہ کہیں سرکار ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے ، آپ کو بیدار نہ کیا اور اپنی نماز آپ کی محبت واطاعت میں قربان کردی۔ شاید آپ نے یہاں پر یہ اجتہاد فرمایا کہ جب حق عبد اور حق اللہ جمع ہوجائے تو وہاں پر حق عبد کو ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ غنی وبے نیاز ہے اور یہاں پر تو افضل العباد سید المرسلین ﷺ کا حق ہے تو اسے بدرجہ اولیٰ غلبہ دیا جائے گا۔ اس لیے آپ نے اس وقت نماز ادا نہیں کی اور اس اطاعت شعاری کا یہ انعام ملا کہ آپ کے لیے سورج دوبارہ واپس آیا۔ مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریاے فقہ واجتہاد کے یہ چند قطرے ہیں جو بطور نمونہ پیش کیے گئے جن کو دیکھ کر آسانی کے ساھت یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میدان میں آپ کا مقام ومرتبہ کتنا اونچااور بلند ہے
وفات: ۱۷؍رمضان ۴۰ھ کو آپ پر عبد الرحمن بن ملجم اور شبیب بن بجرہ نے تلوار سے حملہ کردیا جس سے آپ بہت شدید زخمی ہوگئے اور تیسرے دن ۱۹؍رمضان ۴۰ھ کو آپ کا وصال ہوگیا۔
وقت وصال آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج۳ ص۲۲
0 Comments