حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ
ولادت ۴ سال بعد فیل - وفات ۵۳
اسم گرامی:عثمان،
کنیت: عہد جاہلیت میں آپ کی کنیت ابو عمر تھی، عہد اسلام میں جب حضرت رقیہ رضی اسے تعالٰی عنھاکے بطن سے آپ کے یہاں عبداللہ پیدا ہوئے تو آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہوگئی۔ (تاریخ الخلفا مصنف علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ مترجم حضرت شمس بریلوی،ص:۲۳۳)
القاب: ذوالنورین، جامع القرآن اور غنی ہے۔
والد کا نام: آپ کے والد ماجد کا نام عفان ہے۔
والدہ کا نام: آپ کی والدہ کا نام اروی ہے (ایضا ،ص:۲۳۱)
ولادت :
آپ کی ولادت واقعئہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ۴۷ سال قبل قریش کے ایک ممتاز گھرانے میں ہوئی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،جــ:۳،ص:۱۵۵)
ابتدائی تعلیم :
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکپن ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تھی اور لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ آپ نے جب اس دور کے تمام مروجہ علوم پر دسترس حاصل کر لی تو اہل قریش میں آپ کو نمایاں عزت ملنے لگی، کیوں کہ اس دور میں قریش میں صرف چند افراد ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپ تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے خاندانی پیشہ تجارت سے وابستہ ہوگئے۔ اور اپنا مال تجارت لے کر دوسرے ممالک کا سفر کرنے لگے۔
آپ نے اپنی دیانت و صداقت کی بنیاد پر اپنے کاروبار میں بے پناہ اضافہ کر لیااور قریش کے امیر ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ آپ ابتدا ہی سے شریف النفس اور نیک طینت تھے اور زمانہ جاہلیت کے تمام برائیوں سے کنارہ کش رہتے تھے۔(مقالات سعیدی ، ص: ۱۹۳)
قبول اسلام:
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ باہم دوست تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قبول اسلام کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دعوت دی، حضرت عثمان غنی دعوت اسلام سے بے حدمتاثر ہوئے اور بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاہی رہے تھے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور فرمایا ''عثمان! خدا کی جنت قبول کرو۔ میںتمہاری اور تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں، اس پر اثر خطاب کے جواب میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج: ۴، ص:۳۷۷)
نکاح:
دولت ایمان سے مالا مال ہونے کے بعد آپ کی عمدہ خصلت اور بہترین عادت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دامادی کا شرف بخشا ، چنانچہ اپنی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے عقد نکاح میں دیا، جو پہلے ابو لہب کے بیٹے عتبہ کی زوجیت میں تھیں۔جسے ابو لہب نے اپنی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کے سبب طلاق دلوایا تھا۔
ان کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ کا نکاح فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادی سے نکاح کا شرف صرف آپ کو حاصل ہوا، اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔ (تاریخ الخلفا، ص: ۲۳۱)
خلافت :
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بعد خلافت کے لیے مندرجہ ذیل چھ حضرات کا نام لیا، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن اور سعد رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ اور فرمایا کہ میں اپنے بعدتم چھ کے علاوہ کسی کو اس امر کے لائق نہیں پاتا اور جب تک تم میں استقامت ہے لوگوں کا امر بھی استقامت پر رہے گا۔ نیز فرمایا کہ میرے وصال کے بعد ان سب کو ایک کمرے میں بند کر دینا جہاں یہ خود میںسے ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ (تاریخ الخلفا،ص: ۲۳۸) چنانچہ جب یہ سب ایک جگہ جمع ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اس کام کو تین شخصوں کے حوالے کر دینا چاہئے۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی رائے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی راے حضرت عثمان غنی رضی رسے تعالٰی عنہ کے حوالہ اور حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی رائے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے کر دی۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ میں خود کو اس امر سے دست بردار کرتا ہوں۔ پھر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ایک طرف لے گئے اور کہا کہ اگر آپ کو خلیفہ مقرر کیا جائے توکیا انصاف سے کام لیں گے اور اور اگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت علی رضی رصہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہاں، اس کے بعد حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھاما اور ان کو ایک طرف لے گئے اور کہاکہ اگرآپ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو کیا آپ انصاف سے کام لیں گے اور اگر حضرت علی رضی رصہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں، اس کے بعد حضرت عبد الرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست حق پر بیعت کرلی جس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے دست حق پر بیعت کی اور آپ خلیفہ منتخب ہوئے، آپ محرم الحرام ۲۴ھ میںمسند خلافت پر بیٹھے اور بارہ سال تک مسند خلافت پر جلوہ نما ر ہے۔ (اسد الغابہ فی الصحابۃ،ج:۳،ص:۵۸۴)
فقہی و اجتہادی بصیرت کے چند نمونے :
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بلند پایامحقق اور عظیم مجتہد تھے، علوم شرعیہ میں کافی گہرائی اور گیرائی حاصل تھی، بالخصوص علم فرائض میں کافی درک حاصل تھا، آپ عہد شیخین میں مجلس شوریٰ وافتا کے اہم رکن تھے، دیگر مجتہد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کی طرح آپ کے فتاوی و تاریخ و سیر کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ کے اجتہاد کی چند مثالیں یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں:
(۱) ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مکہ گیے اور اپنی چادر ایک شخص کے گردن پر رکھ دی۔ اتفاق سے اس پر ایک کبوتر آکر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کبوتر کو اس خیال سے ہٹا دیا کہ وہ چادر کو اپنی بیٹ سے گندہ نہ کردے، کبوتر اڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھا،وہاں اس کو ایک سانپ نع کاٹ لیا اور وہ اسی وقت مر گیا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے کفارہ کا فتویٰ دیا، کیوں کہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیر محفوظ مقام میں پہنچانے کے باعث بنے تھے۔( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،ج: ۳ ،ص: ۴۹)
(۲)بیعت و خلافت کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما مدعا علیہ تھے۔ اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی در حقیقت ایک اجتہاد پر بنی ہے۔یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے چوں کہ ہرمزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بحیثیت ولی قصاص کے بجائے دیت لینا قبول کیا اور وہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کربیت المال میں داخل کر دی۔ (کتاب الخراج ،ص:۹۲)
شہادت:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہوچکی ہے۔ آپ نے متعدد مرتبہ ان کو فتنوں سے مطلع کیا تھا اور صبر و استقامت کی تاکید فرمائی تھی (ترمذی شریف،باب مناقب عثمان، ج:۲، ص۳۳۲) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس وصیت پر پوری طر ح قائم اور ہر لمحہ ہونے والے واقعہ کے منتظر تھے۔ جس دن شہادت ہونے والی تھی۔ آپ روز ہ سے تھے، جمعہ کا دن تھا، خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف فرماہیں اور ان سے کہہ رہیں کہ عثمان جلدی کرو ہم تمہارے افطار کے منتظرہیں۔ (الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد بن ہاشمی بصری،ج۳،ص۳۵) بیدار ہوئے تو حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا۔ اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت قریب آگیا ہے، باغی مجھے قتل کرڈالیں گے، پھر پاجامہ پہنا،بیس غلام آزاد کیے اور تلاوت قرآن میں مصروف ہوگئے۔ بلوائیوں نے آپ کو شہید کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور دروازہ کی طرف بڑھے جہاں حسن وحسین، ابن زبیر، محمد بن طلحہ، مروان بن سعید رضی اللہ عنہم مزاحم ہوئے اور بلوائیوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ (تاریخ مدینہ دمشق،ص۷۱۴) حامیان عثمان کا رنگ دیکھ کر محاصرین نے عمرو بن حزم کے مکان کی جانب سے سیڑھی لگائی اور پیچھے سے گھر میں داخل ہوگئے، انہوں نے دیکھا کہ امیرالمومنین تلاوت قرآن میں مصروف ہیں، ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کیا۔ آپ نے صاف انکار کردیا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے محمد بن ابی بکر آپ کی ریش مبارک پکڑ کر گستاخی کرنے لگے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فرمایا:بھتیجے اگر آج تمہارے باپ زندہ ہوتے تو وہ اس فعل کو باپسند کرتے۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر پیچھے ہٹ گئے۔ (تاریخ الخلفاء، ص ۵۴۲)
اس کے بعد قتیرہ، سودان بن حمران اور غافقی نے لوہے کی ایک سلاخ آ پ کے سرپر ماری، سر سے خون کا فوارہ چھوٹنے لگااور قرآ ن مقدس کے اوراق خون آلودہ ہوگئے۔ پھر سودان نے تلوار سے حملہ کیا، حضرت نائلہ بنت فراضہ بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو تلوار کی زد سے ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ کر الگ ہوگئیں۔ (تاریخ مدینہ دمشق، ص ۷۰۴)
اسی ظالم کے حملوں نے حضرت ذوالنورین کی شمع حیات بجھادی۔ شہادت کے وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت کریمہ تھی:”فسیکفیھم اللہ وھو السمیع العلیم“ (سورہئ آل عمران، آیت ۷۳۱)
اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چند غلام آئے ایک نے سودان کو تہہ تیغ کردیا، قتیرہ نے آگے بڑھ کر غلام کی گردن اڑادی، لیکن ایک دوسرے غلام نے قتیرہ کا کام تمام کردیا، اسی اثنامیں بلوائیوں کا ہجوم اندر داخل ہوا اور ایک سنگ دل عمرو بن حمق نے سینہ پر چڑھ کر نیزوں کے پیہم نو وار کیے۔ ایک شخص نے سر مبارک قلم کرنے کا ارادہ کیا تو نائلہ اور ام بنین چلا کر لاش پر گر پڑیں، ابن عدیس نے کہا: جانے دو سر نہ کاٹو، اس کے سر سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں،بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی کا سارا اثاثہ لوٹ لیا، عورتوں کے زیوارات چھین لیے، حضرت نائلہ کی چادر چھین لی پھر یہ سرکش بیت المال کی طرف بڑھے اور اسے بھی لوٹ لیا۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۳، ص۲۸۳)
۸۱/ ذی الحجہ ۵۳ ھ مطابق ۰۲/مئی ۶۵۶ء بروز جمعہ بعد نماز عصر ظلم وشقاوت کی شدید آندھی نے خلیفہئ ثالث کا چراغ زندگی بجھا دیا۔ کابل سے مراکش تک شرق وغرب میں پھیلی ہوئی اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت کا فرماں رواں حلم وبردباری کا پیکر جمیل،شرم وحیا کا بے مثال نمونہ اور جود وسخا کا روشن مینار پورے عالم اسلام کو سوگوار چھوڑ کر اس فار فانی سے رخصت ہوگیا، اسی تاریخ سے امت مسلمہ تفریق وانتشار کا شکار ہوگئی۔اتحاد کا شیرازہ ہمیشہ کے لیے بکھر گیا، مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں ہی کے سر قلم کرنے لگیں اور صبح قیامت تک کے لیے فتنہ وفساد کا دروازہکھل گیا۔ (الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ہاشمی بصری،ج ۳ ص ۴۵)
بلوائیوں کے پر تشدد محاصرہ کی وجہ سے اہل مدینہ پہلے ہی خانہ نشیں ہوگئے تھے۔ امیرالمومنین کی شہادت نے پورے مدینہ پر ہولناک سناٹا طاری کردیاتھا، بلوائی بے باکی سے پھرتے رہے، دو دن تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی لاش بے گور کفن پڑی رہی، سنیچر کا دن گزار کر سب میں چند جاں بازوں نے تجہیز وتکفین کی ہمت کی اور خون آلود پیرہن میں ڈوباہوا جنازہ اٹھایا گیا۔آپ کی نماز جنازہ حضررت زبیر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج:۱، ص ۷۸)
0 Comments