سیرت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ

 ولادت ۴ سال بعد فیل - وفات ۵۳

اسم گرامی:عثمان،

کنیت: عہد جاہلیت میں آپ کی کنیت ابو عمر تھی، عہد اسلام میں جب حضرت رقیہ رضی اسے تعالٰی عنھاکے بطن سے آپ کے یہاں عبداللہ پیدا ہوئے تو آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہوگئی۔ (تاریخ الخلفا مصنف علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ مترجم حضرت شمس بریلوی،ص:۲۳۳) 

القاب: ذوالنورین، جامع القرآن اور غنی ہے۔

  والد کا نام: آپ کے والد ماجد کا نام عفان ہے۔

  والدہ کا نام: آپ کی والدہ کا نام اروی ہے (ایضا ،ص:۲۳۱) 

ولادت :

آپ کی ولادت واقعئہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ۴۷ سال قبل قریش کے ایک ممتاز گھرانے میں ہوئی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،جــ:۳،ص:۱۵۵)

 ابتدائی تعلیم :

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکپن ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تھی اور لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ آپ نے جب اس دور کے تمام مروجہ علوم پر دسترس حاصل کر لی تو اہل قریش میں آپ کو نمایاں عزت ملنے لگی، کیوں کہ اس دور میں قریش میں صرف چند افراد ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپ تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے خاندانی پیشہ تجارت سے وابستہ ہوگئے۔ اور اپنا مال تجارت لے کر دوسرے ممالک کا سفر کرنے لگے۔

  آپ نے اپنی دیانت و صداقت کی بنیاد پر اپنے کاروبار میں بے پناہ اضافہ کر لیااور قریش کے امیر ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ آپ ابتدا ہی سے شریف النفس اور نیک طینت تھے اور زمانہ جاہلیت کے تمام برائیوں سے کنارہ کش رہتے تھے۔(مقالات سعیدی ، ص: ۱۹۳) 

قبول اسلام:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ باہم دوست تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قبول اسلام کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دعوت دی، حضرت عثمان غنی دعوت اسلام سے بے حدمتاثر ہوئے اور بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاہی رہے تھے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور فرمایا ''عثمان! خدا کی جنت قبول کرو۔ میںتمہاری اور تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں، اس پر اثر خطاب کے جواب میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج: ۴، ص:۳۷۷)

نکاح:

دولت ایمان سے مالا مال ہونے کے بعد آپ کی عمدہ خصلت اور بہترین عادت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دامادی کا شرف بخشا ، چنانچہ اپنی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے عقد نکاح میں دیا، جو پہلے ابو لہب کے بیٹے عتبہ کی زوجیت میں تھیں۔جسے ابو لہب نے اپنی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کے سبب طلاق دلوایا تھا۔

ان کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ کا نکاح فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادی سے نکاح کا شرف صرف آپ کو حاصل ہوا، اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔ (تاریخ الخلفا، ص: ۲۳۱) 

 خلافت :

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بعد خلافت کے لیے مندرجہ ذیل چھ حضرات کا نام لیا، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن اور سعد رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ اور فرمایا کہ میں اپنے بعدتم چھ کے علاوہ کسی کو اس امر کے لائق نہیں پاتا اور جب تک تم میں استقامت ہے لوگوں کا امر بھی استقامت پر رہے گا۔ نیز فرمایا کہ میرے وصال کے بعد ان سب کو ایک کمرے میں بند کر دینا جہاں یہ خود میںسے ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ (تاریخ الخلفا،ص: ۲۳۸) چنانچہ جب یہ سب ایک جگہ جمع ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اس کام کو تین شخصوں کے حوالے کر دینا چاہئے۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی رائے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی راے حضرت عثمان غنی رضی رسے تعالٰی عنہ کے حوالہ اور حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی رائے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے کر دی۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ میں خود کو اس امر سے دست بردار کرتا ہوں۔ پھر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ایک طرف لے گئے اور کہا کہ اگر آپ کو خلیفہ مقرر کیا جائے توکیا انصاف سے کام لیں گے اور  اور اگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت علی رضی رصہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہاں، اس کے بعد حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھاما اور ان کو ایک طرف لے گئے اور کہاکہ اگرآپ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو کیا آپ انصاف سے کام لیں گے اور اگر حضرت علی رضی رصہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے تو ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں، اس کے بعد حضرت عبد الرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست حق پر بیعت کرلی جس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے دست حق پر بیعت کی اور آپ خلیفہ منتخب ہوئے، آپ محرم الحرام ۲۴ھ میںمسند خلافت پر بیٹھے اور بارہ سال تک مسند خلافت پر جلوہ نما ر ہے۔ (اسد الغابہ فی الصحابۃ،ج:۳،ص:۵۸۴)

فقہی و اجتہادی بصیرت کے چند نمونے :

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بلند پایامحقق اور عظیم مجتہد تھے، علوم شرعیہ میں کافی گہرائی اور گیرائی حاصل تھی، بالخصوص علم فرائض میں کافی درک حاصل تھا، آپ عہد شیخین میں مجلس شوریٰ وافتا کے اہم رکن تھے، دیگر مجتہد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کی طرح آپ کے فتاوی و تاریخ و سیر کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ کے اجتہاد کی چند مثالیں یہاں ذکر کیے جا رہے ہیں:

(۱) ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مکہ گیے اور اپنی چادر ایک شخص کے گردن پر رکھ دی۔ اتفاق سے اس پر ایک کبوتر آکر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کبوتر کو اس خیال سے ہٹا دیا کہ وہ چادر کو اپنی بیٹ سے گندہ نہ کردے، کبوتر اڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھا،وہاں اس کو ایک سانپ نع کاٹ لیا اور وہ اسی وقت مر گیا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے کفارہ کا فتویٰ دیا، کیوں کہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیر محفوظ مقام میں پہنچانے کے باعث بنے تھے۔( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،ج: ۳ ،ص: ۴۹)

(۲)بیعت و خلافت کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما مدعا علیہ تھے۔ اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی در حقیقت ایک اجتہاد پر بنی ہے۔یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے چوں کہ ہرمزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بحیثیت ولی قصاص کے بجائے دیت لینا قبول کیا اور وہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کربیت المال میں داخل کر دی۔ (کتاب الخراج ،ص:۹۲)

(۳)حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بعض اجتہاد سے بعض معاملات میںسہولت پیدا کردی، مثلا دیت میں اونٹ دینے کا رواج تھا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی قیمت بھی دینی جائز قرار دی۔
(۴)حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ مطلقہ عورت کو اگر اس کا خاوند دوران عدت مر جائے اس خاوند کا وارث قرار دیتے تھے کہ ابھی وہ عورت دوسرے خاوند کے پاس جانے کی اہل نہیں ہو سکی مگر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے وارث نہ سمجھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج:۱، ص: ۱۵۳)
(۵)ان کے بعض اجتہادی مسائل سے دوسرے مجتہد بن صحابہ کو اختلاف بھی تھا،لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ چوں کہ اپنی رائے کو صحیح سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے اجتہاد سے کبھی بھی رجوع نہیں کیا۔ مثلا آپ لوگوں کو حج تمتع یعنی حج اور عمرہ کے لیے علیحدہ علیحدہ نیت کرنے سے اس بنا پر روکتے تھے کہ اس کے جواز کی علت اب باقی نہیں رہی، یعنی کفار کا خوف، لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص حج کے موقع پر امامت کی نیت کرلے تو اس کو منی میں بھی پوری چار رکعت نماز ادا کرنی چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ منی میں قصر کرنا ضروری سمجھتے تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ حالت احرام میں ناجائز قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس کی ممانعت سنی تھی۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے۔ (بخاری شریف ،ج: ۱، ص:۱۲۷) غرض اسی طرح بعض اور مسائل میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے درمیان اختلاف تھا۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ اختلاف کسی نفسانیت پر مبنی تھا۔
(۶)جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منی میں دو رکعت نماز کے بجائے چار رکعت نماز ادا کی تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اگر چہ میرے خیال میں قصر ضروری ہے لیکن میں عملاً امیر المومنین کی مخالفت نہیں کروں گا۔چناں چہ خود بھی دو کے بجائے پوری چار رکعتیں پڑھیں۔
(۷)اسی طرح جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ معلوم ہوا کہ بعض مسائل میں دوسرے صحابہ کو اختلاف ہے تو فرمایا کہ ہر شخص کو اختیار ہے جو حق نظر آئے اس پر عمل کرے، میں کسی کو اپنی رائے ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔
(۸) آپ علم فرائض وحساب میںکا فی ماہر تھے، جماعت صحابہ میں زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے علاوہ اس فن میں کوئی آپ کا ہمہ نہ تھا، عہد صدیقی اورعہد فاروقی پس وراثت کے جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی دونوں حضرات کرتے تھے۔ اس سے متعلق تمام مشکل عقدوں کو حل فرماتے تھے، بعض صحابہ کو یہاں تک خونی تھا کہ ان دونوں کی وفات سے علم فرائض ہی جاتا رہے گا۔ (کنز العمال ، ج:۶، ص:۷۲)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دریائے فقہ واجتہاد کے یہ چند قطرے ہیں۔ جو اوپر بطور نمونہ پیش کئے گئے، ان کو دیکھنے والا آسانی سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں بیاں کیے گیے اصول و جزئیات اور دقائق و نکات کی روشنی میں پیش آنے والے نئے مسائل کا حل تلاش کرنا۔ شریعت میں دخل اندازی والا جرم نہیں جیسا کہ فقہ کی حقیقت سے ناواقف لوگ خیال کر رہے ہیں بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت ہے۔ اور جدید مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ 
جمع قرآن:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عہد آتے آتے اسلامی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا تھا، مختلف زبانوں اور لہجوںکے حامل افراد اور قبیلے داخل اسلام ہو چکے تھے، ان لہجوں اور زبانوں کے اختلاف کی وجہ سے قرآن کریم کی تلاوت میں بہت ساری غلطیاں واقع ہو چکی تھیں۔ایسے حالات میں اندیشہ ہوا کہ کہیں قرآن کریم کے سلسلے میں امت میں اختلاف واقع نہ ہو جائے۔ چناں چہ اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی،کہ قرآن کریم کو جمع و تدوین کے عمل سے گزار کر ایک مصحف میں لکھ کر امت اسلامی کو اسی مصحف پر جمع کر دیا جائے، تاکہ امت میں قرآن کریم کے سلسلے میںکسی قسم کا اختلاف و انتشار واقع نہ ہو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیگر اہل رائے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے صلاح و مشورے کے بعد اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر امت مسلمہ کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔( مناہل العرفان فی علوم القرآن، ج: ۱، ص: ۲۰۳ تا۲۴۲)۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جاں نثاری:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام کے لیے جان و مال نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ کوئی ضرورت مند آپ کے دروازہ سے کبھی مایوس ہو کر نہیں گیا، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرنا آپ کا معمول تھا۔ مدینہ آنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، مسجد نبوی میں تمام نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ایک اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین کا ٹکڑا خرید کر وقف کرے گا؟ اس کے صلہ میں اس کو اس سے بہتر جگر جنت میں ملے گی۔ یہ سنتے ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ قطعئہ زمین خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،ج:۳، ص: ۱۵۷) جس وقت تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کا سامان جمع کر رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار اشرفیاں آپ کی گود میں ڈال دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے رہے اور فرماتے تھے: "ماضر عثمان ما عمل بعد الیوم مرتین" یعنی عثمان کو اب کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، آج کے بعد جو چاہیں کریں؟ دو مرتبہ آپ نے یہ جملہ فرمایا۔ (ترمذی شریف، باب مناقب عثمان، رقم الحدیث:۳۷۲۱)
  غزوہ تبوک کے سلسلے میں ایک اور روایت حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اکٹھا کیا اور جہاد کی اہمیت وفضیلت پرروشنی ڈالی،تاکہ لوگ اپنا مال اس کے لیے دیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ فوراً کھڑے ہوئے اور ساز و سامان کے ایک سو اونٹ پیش کرنے کا اعلان فرمایا۔سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ جاری رکھا، یہ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور دوسو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی مزید ترغیب فرماتے رہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سو اونٹ مع ساز و سامان میں پیش کروں گا۔ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ سلم منبر سے اترے اور فرمایا '' ما علی عثمان ما عمل بعد ھذہ '' یعنی عثمان کے اس عمل کے بعدانہیں آخرت میں اور کس چیز کی ضرورت نہیں ہے جو نجات اخروی کے لیے درکار ہو۔( ترمذی شریف، باب مناقب عثمان، رقم الحدیث ۳۷۲۰)
تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفت و محبت جام شہادت نوش کرنے وقت تک قائم رہی، چناں چہ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امیر المومنین سے مدینہ چھوڑ کر شام چلنے کو کہا، تو فرمایا:'' میں نہ مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑوں گا اور نہ ہی روضہ اقدس کے قریب سے محرومی مجھے گوارا ہے۔جان جاتی ہے تو جائے ''۔( شان صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ،ص:۱۰۷)

شہادت:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہوچکی ہے۔ آپ نے متعدد مرتبہ ان کو فتنوں سے مطلع کیا تھا اور صبر و استقامت کی تاکید فرمائی تھی (ترمذی شریف،باب مناقب عثمان، ج:۲، ص۳۳۲) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس وصیت پر پوری طر ح قائم اور ہر لمحہ ہونے والے واقعہ کے منتظر تھے۔ جس دن شہادت ہونے والی تھی۔ آپ روز ہ سے تھے، جمعہ کا دن تھا، خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف فرماہیں اور ان سے کہہ رہیں کہ عثمان جلدی کرو ہم تمہارے افطار کے منتظرہیں۔ (الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد بن ہاشمی بصری،ج۳،ص۳۵) بیدار ہوئے تو حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا۔ اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت قریب آگیا ہے، باغی مجھے قتل کرڈالیں گے، پھر پاجامہ پہنا،بیس غلام آزاد کیے اور تلاوت قرآن میں مصروف ہوگئے۔ بلوائیوں نے آپ کو شہید کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور دروازہ کی طرف بڑھے جہاں حسن وحسین، ابن زبیر، محمد بن طلحہ، مروان بن سعید رضی اللہ عنہم مزاحم ہوئے اور بلوائیوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ (تاریخ مدینہ دمشق،ص۷۱۴) حامیان عثمان کا رنگ دیکھ کر محاصرین نے عمرو بن حزم کے مکان کی جانب سے سیڑھی لگائی اور پیچھے سے گھر میں داخل ہوگئے، انہوں نے دیکھا کہ امیرالمومنین تلاوت قرآن میں مصروف ہیں، ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کیا۔ آپ نے صاف انکار کردیا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے محمد بن ابی بکر آپ کی ریش مبارک پکڑ کر گستاخی کرنے لگے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فرمایا:بھتیجے اگر آج تمہارے باپ زندہ ہوتے تو وہ اس فعل کو باپسند کرتے۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر پیچھے ہٹ گئے۔ (تاریخ الخلفاء، ص ۵۴۲)

اس کے بعد قتیرہ، سودان بن حمران اور غافقی نے لوہے کی ایک سلاخ آ پ کے سرپر ماری، سر سے خون کا فوارہ چھوٹنے لگااور قرآ ن مقدس کے اوراق خون آلودہ ہوگئے۔ پھر سودان نے تلوار سے حملہ کیا، حضرت نائلہ بنت فراضہ بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو تلوار کی زد سے ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ کر الگ ہوگئیں۔ (تاریخ مدینہ دمشق، ص ۷۰۴)

اسی ظالم کے حملوں نے حضرت ذوالنورین کی شمع حیات بجھادی۔ شہادت کے وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت کریمہ تھی:”فسیکفیھم اللہ وھو السمیع العلیم“ (سورہئ آل عمران، آیت ۷۳۱)

اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چند غلام آئے ایک نے سودان کو تہہ تیغ کردیا، قتیرہ نے آگے بڑھ کر غلام کی گردن اڑادی، لیکن ایک دوسرے غلام نے قتیرہ کا کام تمام کردیا، اسی اثنامیں بلوائیوں کا ہجوم اندر داخل ہوا اور ایک سنگ دل عمرو بن حمق نے سینہ پر چڑھ کر نیزوں کے پیہم نو وار کیے۔ ایک شخص نے سر مبارک قلم کرنے کا ارادہ کیا تو نائلہ اور ام بنین چلا کر لاش پر گر پڑیں، ابن عدیس نے کہا: جانے دو سر نہ کاٹو، اس کے سر سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں،بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی کا سارا اثاثہ لوٹ لیا، عورتوں کے زیوارات چھین لیے، حضرت نائلہ کی چادر چھین لی پھر یہ سرکش بیت المال کی طرف بڑھے اور اسے بھی لوٹ لیا۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۳، ص۲۸۳)

۸۱/ ذی الحجہ ۵۳ ھ مطابق ۰۲/مئی ۶۵۶ء بروز جمعہ بعد نماز عصر ظلم وشقاوت کی شدید آندھی نے خلیفہئ ثالث کا چراغ زندگی بجھا دیا۔ کابل سے مراکش تک شرق وغرب میں پھیلی ہوئی اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت کا فرماں رواں حلم وبردباری کا پیکر جمیل،شرم وحیا کا بے مثال نمونہ اور جود وسخا کا روشن مینار پورے عالم اسلام کو سوگوار چھوڑ کر اس فار فانی سے رخصت ہوگیا، اسی تاریخ سے امت مسلمہ تفریق وانتشار کا شکار ہوگئی۔اتحاد کا شیرازہ ہمیشہ کے لیے بکھر گیا، مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں ہی کے سر قلم کرنے لگیں اور صبح قیامت تک کے لیے فتنہ وفساد کا دروازہکھل گیا۔ (الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ہاشمی بصری،ج ۳ ص ۴۵)

بلوائیوں کے پر تشدد محاصرہ کی وجہ سے اہل مدینہ پہلے ہی خانہ نشیں ہوگئے تھے۔ امیرالمومنین کی شہادت نے پورے مدینہ پر ہولناک سناٹا طاری کردیاتھا، بلوائی بے باکی سے پھرتے رہے، دو دن تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی لاش بے گور کفن پڑی رہی، سنیچر کا دن گزار کر سب میں چند جاں بازوں نے تجہیز وتکفین کی ہمت کی اور خون آلود پیرہن میں ڈوباہوا جنازہ اٹھایا گیا۔آپ کی نماز جنازہ حضررت زبیر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج:۱، ص ۷۸)

شہادت کے وقت آپ کی عمر:
شہادت کے وقت آپ کی عمر کیا تھی اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر بیاسی سال تھی، بعض اکاسی سال بتاتے ہیں، بعض جوراسی سال اور بعض چھیاسی سال کہتے ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال یہ ہے کہ اس وقت آپ کی عمر اس سال تھی۔ اسی طرح بعض نواسی سال اور بعض نوے سال کہتے ہیں۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج۳، ص۲۶۱،تاریخ الخلفاص۸۴۲)

Post a Comment

0 Comments