سیرت حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ

ولادت..... وفات:۴۵ھ

نام: آپ کا نام زید، کنیت: ابو عبد الرحمن اور ابو خارجہ،

والد گرامی:

ثابت بنو خزرج کی ایک شاخ ’’نجار‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں، والد کی جاب سے سلسلہ نسب یوں ہے : زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن بعذان بن عمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار انصاری خزرجی۔ سلسلہ نسب والدہ کی جانب سے: نوار بنت مالک بن معاویہ بن عدی بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار انصاری خزرجی۔( اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ،ج:۲،ص:۳۴۷،از: عزالدین ابن الاثیرعلی بن محمد الجزری ۶۳۰ھ،دار الکتب العلمیہ، طبعہ ثانی ۲۰۰۳ء)

ولادت:

آپ کی ولادت تقریباًعام الفیل کے ۴۳؍ سال بعد یعنی سن۲؍بعثت نبوی میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ وہ اس طور پر کہ باتفاقی مؤرخین  قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان لڑی جانے والی آخری جنگ ’’جنگ بعاث ‘‘ہجرت سے پانچ سال قبل مدینہ میں ہوئی۔ اس وقت حضرت زید ۶؍ سال کے تھے۔ (ایضاً،ج: ۲، ص:۳۴۷)

لہذ ا بوقت ہجرت آپ کی عمرا ا؍ سال ہوگی۔ چوں کہ پیارے آقا ﷺنے عام الفیل کے ۴۱ ویں سال اظہار نبوت فرمایا اور ۱۳؍ سال مکہ میں مقیم رہے یعنی ۵۴ / عام الفیل میں واقعہ ہجرت پیش آیا، یہ بیان ہو چکا کہ بوقت ہجرت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر اا؍سال تھی لہذا ۵۴؍ سے ۱۱؍ قصر کرنے پر ۴۳؍محفوظ رہتاہے جو آپ کا سن ولادت ہے۔

عہد طفولیت اور قبول اسلام:

بعثت نبوی کے بارہویں سال موسم حج میں مدینے سے قبیلہ اوس و خزرج کے چند افراد مکہ آئے اور جمرۃ العقبہ کے قریب دست رسول پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ لوٹتے وقت تعلیم قرآن و سنت کے لیے اپنے ساتھ کسی مبلغ کو بھجنے کی درخواست کی۔ ان کی خواہش پر ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر کو مدینہ روانہ کیا۔ آپ کی تبلیغ پر مدینہ میں بہت سے افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔(مدارج النبوۃ، ج: ۲، ص:۸۶، شیخ عبد الحق محدث دہلوی )

حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنی کمسنی میں بار گاہ میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور طلب علم میں ہمہ تن مشغول ہوگئے اور محنت ولگن کے ساتھ اکتساب علم کیا۔ جس وقت مدنی آقاﷺ مدینہ پاک میں جلوہ بار ہوئے اس وقت تک آپ نے قرآن کی سترہ سورتیں حفظ کر لی تھیں۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحا بۃ،ج: ۲،ص:۴۹۱،تذکرہ نمبر:۲۸۸۷)

ذہانت و فطانت:

حضرت زید بے حد ذہین و فطین اور دانش مند تھے۔ ساتھ ہی طلب علم کے بڑے شائق تھے۔ آپ کے بیان سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے فرماتے ہیں: جب رحمت دو عالم مکی مدنی سرکار ﷺ مدینہ میں رونق افروز ہوئے تو میرے قبیلہ والوں نے مجھے پیارے آقا کی بارگاہ میں پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ لڑکا بنو نجار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے کلام پاک کی ۱۷؍ سورتیں حفظ کرلی ہیں۔ میں نے پیارے آقا کے سامنے چند سورتوں کی تلاوت کی جسے سن کر آپ نے پسندید گی کا اظہار فرمایا اور کہا:اے زید! یہود کی (زبان) خط و کتابت سیکھ لو کیوں کہ مجھے ان کی کتابت پر اعتماد نہیں ممکن ہے کہ وہ کچھ کمی بیشی کرتے ہوں’’ بحکم سر کار میں نے عبرانی زبان سیکھنا شروع کر دی اور ۱۵؍دن نہ گذرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا۔ اس کے بعد جب بھی کوئی خط یا فرمان لکھنا ہوتا تو میں ہی سرکار کی طرف سے لکھتا اور جب کوئی مراسلہ آتا تو میں ہی اسے پڑھ کر سناتا۔ (ایضا)

غروات میں شرکت:

کم سنی کے سبب چند ابتدائی غزوات میں آپ کی شرکت نہ ہوسکی، سب سے پہلا غزوہ جس میں آپ نے شرکت کی’’ غزوئہ خندق ہے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۵؍سال تھی۔ اس میں آپ نے بڑی جانثاری کا ثبوت دیا ہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، ج:۲، ص: ۳۴۷، تذکرہ نمبر: ۱۸۲۴)

مختلف فنون میں مہارت:

صحبت نبوی کی بدولت آپ کو نہ صرف علم فقہ میں کمال حاصل تھا بلکہ قضا، علم فرائض و میرات اور علم قراء ت میں آپ کا درجہ بہت بلند تھا بلکہ آپ کو ان فنون میں رئیس قوم ہونے کا شرف حاصل تھا، چناں چہ حضرت قبیصہ بن ذؤیب کا بیان ہے کہ حضرت زید کو قضا،فتویٰ، قراء ت اور علم میراث میں رئیس قوم اور ملت کا سردار کے سمجھا جاتاتھا۔(الطبقات الکبری، ج:۲، ص: ۴۳۱، ابو عبد اللہ محمد بن سعد متوفی ۲۳۰ ھ، دار احیاء التراث العربی، طبع اول ۱۹۹۴ھ)

آپ کی علمی لیاقت، فنی مہارت اور خدا داد ذہانت کی بنیاد پر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنھما قضا،فتویٰ، فرائض اور قراء ت میں کسی کو آپ پر فوقیت نہ دیتے۔ (ایضاً)

 حضرت قبیصہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کے مطابق خلافت فاروقی سے لے کر عہد امیر معاویہ تک مسلسل آپ منصب قضا پر فائز  رہے۔ یہاں تک کہ مالک حقیقی سے جاملے۔ (ایضاً)

مذکورہ روایت سے بخوبی آپ کی علوشان اوررفعت منزلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوں توبہت سےعلوم و فنون میں آپ کو مہارت اوررسوخ تام حاصل تھالیکن ان تمام پر گفتگو کرنا د فترعظیم کا تقاضا کرتا ہے۔ لہذا بعض ممتاز فنون پر کچھ روشنی ڈال کراپنے مضمون کو  زینت بخشوں گا۔

علم القراء ت:

علم قراء ت ایک عظیم فن ہے جس کا تعلق قرآن پاک کی قراء ت اور اس کے پڑھنے سے ہے اور قرآن پاک کو سات مشہورمتواتر طریقوں میں پڑھنا جسے دنیا بھر میں قراء ت سبعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں بیشتر کا مرجع اورخلاصہ حضرت زید ہی کی ذات گرامی ہے جسے آپ کے شاگردوں نے سن کر دنیا بھر میں پھیلایا اوت اس علم کو بام عروج پر پہنچایا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ مشہوراورپڑھی جانے والی قراء ت امام عاصم کوفی کی بطریق امام حفص ہے جوروایۃ و درایۃ حضرت زید اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنھما سے منقول ہے۔

اس علم میں آپ کا پایہ اس قدر بلند تھا کہ کبار صحابہ بھی آپ پراعتماد کرتے تھے۔ چناں چہ حضرت ابو عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس قرآن پڑھنے جاتا تھا۔ ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عبد الرحمن !تم مجھے امور ناس میں غوروفکرسے مشغول رکھتے ہو، حضرت زید کے پاس جاکر پڑھا کرو، وہ اس کام کے لیے خالی ہیں، نیز میری اور ان کی قراء ت بھی ایک ہے اورکوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ (کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، ج:۱، ص: ۲۶۲، حدیث نمبر: ۳۷۰۵۳، علامہ علاء الدین علی المتقی الہندی متوفی ۹۵۷ھ، بیت الافکار الدولیۃ)

علم الفرائض والمیراث:

دوسرا وہ فن جس میں حضرت زید بن ثابت کومہارت ورسوخ حاصل تھاوہ علم فرائض تھا، یہ ایک ایسا علم ہے جسے نصف علم بھی فرمایا ہے۔ اس کے ذریعے مستحقین کو مورث کے مال کا شرعی حصہ ملتا ہے گویا کہ ہر مسلمان کو اس کی حاجت اورضرورت پڑتی ہے۔ سرورکائنات ﷺ نے اس علم کی فضیلت میں ارشاد فرمایا:’’تعلموا الفرائض وعلموہا؛ فانہ نصف العلم وہو ینسی وہو اول شیء ینزع من أمتی۔(سنن ابن ماجہ، جلد: ۲، باب الحث علی تعلیم الفرائض)

علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سیکھاؤ، کیوں کہ یہ نصف علم ہے اور یہی علم سب سے پہلے میر ی امت سے بھلا یا اور اٹھایا جائے گا۔

حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو اس فن میں خصوصی کمال حاصل تھاحتیٰ کہ بار گاہ رسالت ماٰب سے’’ افرضکم زید۔‘‘(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ، ج:۲، ص ۳۴۷، تذکرہ نمبر: ۱۸۴۲)

أعلمہم بالفرائض زید‘‘۔(الطبقات الکبریٰ،ج:۲، ص:۴۳۰)

اور ’’أفرض امتی زید بن ثابت ‘‘۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج:۲، ص:۱۱۲،تذکرہ نمبر :۸۴۵)

جیسے: زرین تمغے عطا ہوئے تھے جو کسی اور صحابی کو نصیب نہ ہوئے۔

تفقہ و اجتھاد:

    حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کوعلم فقہ واجتہاد میں جو درجہ اور رتبہ حاصل تھا وہ کم ہی صحابہ کو نصیب ہو ا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما جیسے جلیل القدر صحابی آپ کی بارگاہ میں زانوے تلمذ تہ کرنے میں شرف محسوس کرتے تھے اور آپ کے علمی جلال وفنی کمال کی وجہ سے حد درجہ احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت زید گھوڑے پر سوار تھے، حضرت ابن عباس نے احترام میں  گھوڑے کی لگام تمام لی، حضرت زید نے فرمایا : اے ابن عم رسول ﷺ !آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ ابن عباس نے جواب دیا کہ ہمیں اپنے اکابرین اور علما کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے کا حکم ہے،(کنزالعمال، ج: ۲، ص: ۱۳۸۲،حدیث نمبر:۳۷۰۶۱)

اس پر حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اپنا ہاتھ تو دکھائیے، ابن عباس نے جب اپنا ہاتھ نکالا تو حضرت زید نے ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور فرمایا: ہمیں اپنے نبی کے آل سے ایسے ہی برتاؤ کا حکم ملا ہے۔ (ایضاً)

مشہور تابعی، عظیم مجتہد اور قاضی حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ فتاوی اور فیصلوں میں آپ کی اقتدا کرتے تھے۔ جب کسی مسئلہ میں آپ کے سامنے دیگر مجتہدین صحابہ کے اقوال پیش ہوتے تو آپ اس مسئلہ میں حضرت زید کی رائے دریافت کرتے اور کہتے:’’ فاین زیدبن ثابت عن ہذا؟‘‘ ’’ ان زید بن ثابت أعلم الناس بما تقدمہ من قضا، وأبصر ہم بما یرد علیہ مما لم یسمع فیہ شئی‘‘ یعنی اس مسئلہ میں حضرت زید کا فتوی اور رائے کیا ہے؟ کیوں کہ زید بن ثابت سابقہ فیصلوں کو زیادہ جاننے والے اور جن مسائل میں حدیث وارد نہ ہو ان کے بتانے میں سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے ہیں۔ (الطبقات الکبری، ج:۲، ص: ۴۳۱)

فقہی مسائل اور حضرت زید:

آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار فتوے دیے اور امت نبوی کی رہنمائی فرمائی۔ ان میں سے بعض کو یہاں تیمنا ذکر کیا جارہا ہے۔

مسئلہ تملیک طلاق:

حضرت زید کے فرزند خارجہ بن زید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں والد محترم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ محمد بن عتیق تشریف لائے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اباّ حضور نے ان سے حال دریافت کی۔ انھوں نے عرض کی: حضور! میں نے اپنی اہلیہ کو طلاق کا مالک کر دیا تھا اب وہ مجھ سے جدا ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا؟ عرض کی تقدیر کی وجہ سے (یعنی جو کچھ لکھا تھا وہ ہوا) آپ نے فتوی دیا کہ یہ تملیک صرف ایک طلاق ہی میں ہوئی ہے اگر تم چاہو تو اب بھی رجوع کر سکتے ہو۔ (الموطا، ص:۳۲۱، حدیث نمبر: ۱۱۷۹، امام مالک بن انس)

متوفی عنھا زوجھا کی عدت:

حضرت سلیمان بن یساررحمہ اللہ تعالی علیہ بیان کرتے ہیں کہ ملک شام میں أحوص نامی ایک شخص کا انتقال ہو گیا۔ اس کی بیوی اس سے مطلقہ تھی اور اسے تیسر ا حیض شروع ہو چکا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ عورت تیسرے حیض کی ابتدا سے عدت سے نکل آئی یا نہیں نیز اسے زوج کا ترکہ ملے گا یا نہیں۔ حضرت امیر معاویہ نے یہ صورت حال لکھ کر حضرت زید کو ارسال کر دی۔ حضرت زید نے یہ حکم صادر فرمایا کہ جیسے ہی اس عورت کو تیسر احیض شروع ہو اوہ عدت سے فارغ ہو گئی اور اس شخص کے نکاح سے نکل گئی اب وہ اس شخص کے نکاح سے نکل گئی اب وہ اس مرد کی وارثہ بھی نہ ہوگی۔(ایضاً،ص: ۳۲۴،حدیث نمبر: ۳۷۰۶)

غلام کی طلاق:

سلیمان بن یسار سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سلمہ کے ایک غلام نفیع نے اپنے ما تحت آزاد عورت کو دو طلاق دے دی پھر رجعت کرنا چاہی۔ اس پر دیگر امہات المونین نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کر لیا جائے، وہ غلام حضرت عثمان کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ راستہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حضرت زیدرضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ غلام نے یہ مسئلہ دونوں حضرات کے سامنے رکھا۔ دونوں حضرات نے بیک زبان ارشاد فرمایا ’’وہ عورت تم پر حرام ہو گئی، حرام ہو گئی‘‘۔ (ایضا، ص: ۳۲۳، حدیث نمبر:۱۲۱۴)

عزل کا مسئلہ:

حجاز بن عمرو بن غزیہ کا بیان ہے کہ میں حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ ابن فہد نامی ایک یمنی شخص آپ کے پاس آیا اور عزل کے تعلق سے پوچھنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے حجاز! تم مسئلہ بتاؤ، میں نے عرض کی حضور! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے ہم تو خود آپ کے پاس تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں (بھلا ہم کیا کہیں) دوبارہ آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے اس شخص سے کہا: وہ عورت تمھاری کھیتی ہے، اگر چاہو تو سیراب کرو ور نہ پیاسی رکھو۔ آپ نے یہ سن کر تصدیق فرمائی۔ (ایضاص: ۳۳۴، حدیث نمبر: ۱۲۶۶)

یہ چند فقہی نمونے بطور توضیح پیش کر دیے گئے ہیں تاکہ ناظر آپ کے پایٔہ علمی سے آگاہ ہو کر ھل من مزید کے جام طلب میں مئے کدئہ سیرت صحابہ کے چکر کاٹے اور اپنی علمی تشنگی اصحاب نبی کے شراب عشق سے دور کرے۔

عہدہ قضا:

ابتدائے اسلام میں سلطنت اسلامیہ کی توسیع کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل اور معاملات بھی در پیش ہوتے تھے جن کے مناسب حل اور بہترین تصفیہ کے لیے عہدئہ قضا کی سخت ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ چوں کہ خلافت صدیقی کا دور بہت ہی مختصر تھا اور دیگر مسائل بھی کثیر تھے اس لیے باضابطہ طور پر اس منصب کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ لیکن عہد فاروقی میں جب اسلامی حکومت کا رقبہ مزید کشادہ ہوا تو شدت احتیاج اور اہمیت کی بنا پر حضرت عمر فاروق اعظم نے باضابطہ اس منصب کو قائم فرمایا اور حضرت زید کی تقرری فرماکر ان کے لیے مشاہرہ مقرر فرمادیا۔(الطبقات الکبری، ج:۲، ص: ۴۳۱)

حضرت قبیصہ بن ذوب رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کے مطابق حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ عہد فاروقی سے لے کر دور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تک منصب قضا پر فائز رہے حتی کہ مالک حقیقی سے جاملے۔ (ایضا)

قاسم بن محمد کی روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق کے پاس مختلف شہروں سے نامزد صحابہ کا مطالبہ ہو تا تھا، جہاں آپ ان افراد کو حسب لیاقت منصب امارت سپرد فرما کر روانہ کردیتے تھے۔ لیکن جب کبھی حضرت زید کا مطالبہ ہوتا تو جواباً ارشاد فرماتے: ’’لم یسقط علی مکان زید ولکن اہل البلد یحتاجون الی زید فیما یجدون عندہ فیما یحدث لہم ما لا یجدون عند غیرہ ‘‘مجھ سے زید کا مقام پوشیدہ نہیں ہے لیکن اہل شہر (مدینہ) ان کے محتاج اور ضرورت مند ہیں کیوں کہ ان کے پاس لوگوں کی حاجت روائی کا اتنا وافر حصہ ہے (علم وفقہ، قضاو فتوی) جو کسی اور میں نہیں۔ (ایضاً)

جمع قرآن:

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کے اہم کارناموں میں جمع قرآن ایک عظیم کارنامہ ہے۔ جس کے بیان کے بغیر آپ کی روداد حیات بھی مکمل نہیں ہو سکتی یہ وہ سعادت ہے جو آپ کے حصہ میں دو مرتبہ آئی۔ ایک خلافتصدیقی میں۔ دوسری عہد عثمانی میں۔

وصال پرملال:

عظمتوں، رفعتوں کا کوہ ہمالہ، میدان کارزار کا شہسوار، علم و عمل کا سنگم اپنی زندگی کی ۵۶ / بہاریں دیکھ کر ۴۵؍ھ میں’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کی عملی تفسیر بن کرراہی ملک بقا ہوگیا اورہمیشہ کے لیے دنیا والوں کوجدائیگی کا داغ دیتا گیا۔ حاکم مدینہ مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور صحابہ نے نم آنکھوں کے ساتھ جسد مبارک کو سپر د خاک کیا۔( اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ج:۲، ص: ۳۴۷، تذکرہ نمبر: ۱۸۴۲)

آپ کے سال وفات کے سلسلہ میں سخت اختلاف ہے :لہذا کتب تاریخ میں ۴۲؍۴۳؍۵۱؍۵۲؍۵۵؍ کے علاوہ ۵۰؍اور۵۴؍ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج:۲، ص:۱۱۳، تذکرہ نمبر:۸۴۵)

تہذیب الکمال میں بعض کی راے ۴۸؍ھ بتائی گئی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی کل عمر ۵۷؍ ہوئی کیوں کہ غزوئہ خندق میں آپ کو شریک ہونے کی اجازت دی گئی تھی اس وقت آپ کی عمر ۵ا؍ سال تھی اور یہ غزوہ ۴ھ میں واقع ہوا،( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج:۲، ص: ۱۱۳، تذکرہ نمبر: ۸۴۵)

اب ۴۸؍ھ میں آپ کا سال وفات قرار پائے گا اور نہ ۵۷؍ سال مکمل نہ ہوں گے لیکن یہ موقف صحیح معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ اس لحاظ سے آپ کی عمر ۵۹؍ ہونی چاہیے نہ کہ ۵۷؍سال۔

تہذیب الکمال میں حضرت یحی بن بکیر کے حوالے سے ہے کہ حضرت زید کا انتقال ۴۵ ھ میں ہوا اس وقت آپ کی عمر ۵۶؍ سال تھی ( ایضاً) اس قول کے مطابق آپ کا سن وفات ۴۵؍ھ روایۃً در ایۃً صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ بالاتفاق مؤرخین ہجرت کے وقت آپ کی عمرا ا؍سال تھی لہذا ۴۵؍ ھ آپ کی وفات ماننے پر عمر کے ۵۶ / سال پورے ہو جاتے ہیں جو حضرت امام یحی کے قول کے مطاق ہے۔

اس کے علاوہ مختلف کتب تاریخ میں ۴۵؍ھ کو دیگر اقوال پر مقدم رکھا گیا ہے جس سے مزید تائید حاصل ہوتی ہے بلکہ اصابۃ فی تمیز الصحابۃ میں متعدد اقوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا: ’’و فی خمس و أربعین قول الاکثر‘‘ یعنی بیشتر حضرات کے نزدیک آپ کا سال وفات:۴۵؍ھ ہی ہے( الاصابۃ فی تمیز الصحابہ،ج:۲، ص:۴۹۲،تذکرہ نمبر:۲۸۷)

شخصی زندگی کے درخشاں پہلو:

اخلاق و کردار:

حضرت زید بن ثابت کی زندگی بڑی پر وقار زندگی تھی۔ جب آپ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوتے تو وقار کا ایک مجسمہ بن جاتے لیکن جب اہل خانہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے تو ان سے بے تکلف کلام فرماتے اور ان سے دل لگی کی باتیں کرتے مزاح کرتے چناں چہ حضرت ثابت بن عبید بیان کرتے ہیں ’’ ما رأیت رجلا أفکہ فی بیتہ ولا أو قرقی مجلسہ من زید'' میں نے گھریلو زندگی میں حضر سے زید سے زیادہ پر مزح اور مجلس میں آپ سے زیاد پر و قار کسی کو نہ دیکھا۔ (ایضاً)

استقامت فی الدین:

صحابہ کرام کو اپنے دین ومذ ہب سے جس قدر وارفتگی تھی سب پر عیاں ہے۔ اپنا نقصان ہوتا دیکھ کر بھی شرعی قوانین کی محافظت کرتے اور کسی صورت میں رخنہ اندازی کو گوارا نہ کر سکتے تھے چناں چہ منقول ہے کہ عہد امیرمعاویہ میں حضرت زید اور ابن مطیع کے درمیان ایک مشتر کہ گھر کی کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ مقدمہ حاکم مدینہ مروان بن حکم کے دربار میں پیش ہوا۔ مروان نے کہا: اگر زید منبر پر کھڑے ہو کر قسم کھالیں تو ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا چوں کہ منبر پر قسم کھانے کے تعلق سے وعید الہی ہے۔ اس پہ حضرت زید نے کہا: میں اپنے اس مقام پر قسم کھانے کے لیے تیار ہوں۔ مروان نے کہا: بخدا! ایسا نہیں ہو سکتا، لیکن جب آپ اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائیں۔ راوی کہتے ہیں:’’فجعل زید بن ثابت یحلف ان حقہ حق‘‘ یعنی حضرت زید اسی جگہ قسم کھانے لگے کہ ان کا حق ہی ثابت ہے لیکن منبر پر قسم کھانے سے انکار کر دیا، مردان کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔(مؤطا امام مالک،ص:۴۰۷،حدیث نمبر:۱۴۳۷)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر:

استقامت فی الدین کا ایک نمایاں پہلو امرونہی ہے، صحابہ کرام سنت نبویہ کے خلاف ادنی تغیر کو بھی روانہ رکھتے۔ اوراسی مخالفت پر چرا غ پا ہوجاتے اور اپنے قول و عمل سے اس کی تردید فرماتے تھے۔ یہ تو تمام صحابہ کا آئینہ حیات تھا۔ حضرت زید تو خواص میں تھے۔ پھر کیوں نہ آپ کی ذات میں امر و نہی کے جلوے نظر آتے۔

حضرت شرحبیل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ شریف میں ایک پرندے کا شکار کر لیا۔ حضرت زید نے دیکھا تو ان کی گدی پر ایک ضرب لگائی اور پرندے کوآزاد کر کے ارشاد فرمایا:’’أما علمت یا عدی نفسک أن رسول اللہ ﷺ حرم ما بین لا بیتھا‘‘

اے جان کے دشمن! کیا تجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے پیارے رسول دو سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیانی (مدینہ) کو حرم قرار دیا۔(المسند، ج:۳۵، ص:۵۲۳،حدیث نمبر: ۲۱۶۷۰)

    آپ ہی کا بیان ہے کہ ہم اپنے باغیچہ میں شکار کرنے کے لیے جال لگارہے تھے۔ حضرت زید نے دیکھ لیا تو پھٹکار لگائی اور فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ میں شکار سے منع فرمایا ہے۔ (ایضاً،ص: ۸۱۵، حدیث نمبر: ۲۱۶۶۳)

حاکم مدینہ مروان بن حکم نمازمغرب میں ہمیشہ قصار مفصل ہی کی تلاوت کرتا (قصار مفصل :سورہ لم یکن سے لے کر اخیر قرآن تک تمام سورتیں قصار مفصل کہلاتی ہیں) آپ نے مروان سے کہا: تم ہمیشہ ہی مغرب میں قصار مفصل کی تلاوت کرتے ہو حالاں کہ ہم نے حضور ﷺ کو مغرب میں سورئہ اعراف کی تلاوت کرتے دیکھا ہے۔ (ایضاً،ص:۴۸۵، حدیث نمبر: ۲۱۶۰۹)

فہم حدیث:

حضرت زید بڑے باریک اورمدبر صحابی تھے، مزاج رسول سے واقفیت کی وجہ سے استنباط احکام و مسائل میں خطانہ کرتے تھے جب کہ ظاہر حدیث کو لے کر خطا کر بیٹھتے۔ چناں چہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھماکا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک مسئلہ کے بیان میں یہ حدیث سنائی :’’لاتباع ثمرۃ بثمرۃ ولا تباع ثمرۃ حتی یبدو صلاحہا‘‘ یعنی پھل کو پھل کے بدلے اٹکل اور اندازے سے نہ بیچا جائے۔ جو اب تک کار آمد نہ ہواہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت زید نے ابن عمر سے ملاقات کی اور تنبیہا ارشاد فرمایا :’’رخص رسول اللہ فی عرایا‘‘ اللہ کے رسول نے بیع عرایا میں اٹکل سے بیچنے کو جائز فرمایا ہے۔ (ایضاً،ص:۵۲۴ ،حدیث نمبر:۲۱۶۷۲)

عرایا: راوی حدیث حضرت سفیان بن حسین کہتے ہیں: عرایا یہ ہے کہ کھجور کے درخت فقیرکو ہبہ کردیے گئے لیکن وہ شمربارنہ ہوئے تھے چوں کہ وہ انتظار کرنے سے قاصرہے اس لیے ان پھلوں کو ان کا صلاح ا بھی تک ظاہر نہیں ہوا ہے، اندازے سے دوسرے پھلوں کے بدلے بیچ سکتا ہے۔ (ایضاً)

قبیصہ بن ذوئب نے اس سلسلہ میں ایک بہترین واقعہ بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صد یقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آل زبیر کو یہ حدیث سنائی اور کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے عصر کے بعد میرے گھر پر نماز دوگا نہ ادا فرمائی( آپ کا مطلب یہ تھا کہ بعد عصر کی نماز عصر کی نماز نفل کی ادائیگی در ست ہے) یہ حدیث سن کر آل زبیر نے بھی بعد مصر نفل نمازیں پڑھنا شروع کردیں۔ حضرت زید کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا ’’ یغفر اللہ لعائشۃ، نحن أعلم برسول اللہ ﷺ  من عائشۃ‘‘اللہ! ام المؤمنین کی مغفرت فرمائے، ہم ان سے زیادہ احوال مصطفیﷺ سے باخبرہیں۔ پھر آپ نے توجیہ فرمائی کہ بعد عصر نفل نماز پڑھنا درست نہیں، پیارے آقاﷺ نے جو نماز ادا فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مقام’’ ہجیر‘‘ سے چند اعرابی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دینی امور سے متعلق سوالات کرنے لگے حتی کہ ظہر کا وقت آگیا، فرض کی ادائیگی کے بعد پھر یہ سلسلہ شروع ہوا اور عصر تک دراز ہو گیا۔ نماز عصر کی تکمیل کے بعد سر کار حجرہ میں تشریف لائے پھر آپ کو یاد آیا کہ ظہر کے بعد کی رکھتیں ابھی باقی ہیں۔ اس لیے آپ نے عصر کے بعد وہ رکعتیں اداکیں۔ وہ نفل نماز نہ تھی کیوں کہ’’ نہی رسول اللہﷺ عن الصلاۃ بعد العصر‘‘۔( ایضاً،ص:۴۸۷،حدیث نمبر:۲۱۶۱۲)

شمع رسالت سے واسبتگی:

یوںتو تمام صحابہ کوذات رسالت سے حد درجہ وارفتگی اور وابستگی۔ ایک لمحہ بھی آپ سے جدائیگی انھیں گوارا نہ تھی لیکن بعض صحابہ کا حال کچھ ممتاز تھا، وہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ بارگاہ رسالت میں گزارتے اور مدنی اداؤں کا بغور مطالعہ کر کے اپنانے کی کو شش کرتے اور دوسروں کو بھی بتاتے، انھیں اصحاب میں ایک نام حضرت زید بن ثابت کا بھی ہے۔ ایک روز جلدہی سحری سے فارغ  ہو گئے اور جمال زیباآ نکھوں میں بسانے کے لیے فوراً ہی مسجد نبوی کا رخ کیا۔ جس وقت مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ پیارے آقاابھی سحری تناول فرمارہے ہیں۔ پیار ے آقاﷺ نے بیٹھنے کا حکم دیا، عرض کی :میں نے روزہ کی نیت کر لی ہے، لیکن دوبارہ حکم ٹالنا آپ کی قدرت میں نہ تھا، لہذا میں نے ساتھ میں بیٹھ کر کھانے کا شرف حاصل کیا، ان مقدس ساعات کو اس طرح شمار کیا کہ بعد میں پوچھے جانے پر برجستہ کہا کہ سحری اور قیام صلاۃ کے درمیان پچاس آیات پڑھنے کی مقدار تک کا فاصلہ تھا۔ (ایضاً ، ص: ۵۲۴، حدیث نمبر:۲۱۶۷۱)

مطلب بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید سے سری نمازوں میں قراء ت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے ر شاد فرمایا: ہاں سری نمازوں میں بھی قراء ت ہوگی۔ دلیل میں ارشاد فرمایا:’’ کان رسول اللہ یطیل القیام وتحرک شفتیہ‘‘اللہ کے رسولﷺ در از قیام فرماتے تھے اور آپ کے لب مبارک حرکت کرتے تھے۔ (ایضاً، ص: ۴۹۲، حدیث نمبر:۲۱۶۲۲)

ان مختصر سے دو واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ذات رسالت سے آپ کی وابستگی کس درجہ تھی۔

خدمت حدیث:

آپ کی مکمل زندگی خدمت حدیث میں گزری۔ سفر ہو یا حظر، منصب قضا ہو یا مسند فقہ و افتاہرجگہ فرامین نبوت کو عام کیا۔ اس طرح آپ کا فیضان علم ابل ابل کر عشاق و دیو ان گان مصطفی کو سیراب کرتارہا۔ لیکن کتب احادیث میں آپ کی مرویات کی تعداد ۹۲؍ ہے جو لفظ ’’ محمد‘‘ کے اعداد ہیں۔پانچ پر بخاری و مسلم متفق ہیں،چار کی روایت صرف امام بخاری نے کی اور ایک کی امام مسلم نے اور بقیہ کی روایت دیگر محدثین نے کی ہے۔ (تھذیب الاسما و اللغات، ج:۱،ص:۲۱۸، تذکرہ نمبر:۱۸۶)

راویان حدیث و تلامذہ:

عظیم رتبہ صحابہ کرام نے بھی آپ سے روایت کی ہے اور بلند پایہ تابعین نے بھی۔ جن صحابہ نے آپ سے روایت کی ہے، ان کے اسما اس طرح ہیں: حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، انس، سہل بن ابی حتمہ، عبد اللہ بن زید، سہل بن حنیف، ابوسعید خدری، سہل بن سعد رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین۔

تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، عطا بن یسار، قاسم بن محمد، ایان بن عثمان اور قبیصہ بن ذوئب نے روایت کی ہے رحمۃ اللہ علیھم۔ (ایضاً)

حضرت زیدا کا برین واصاغرین کی نظر میں: (۱)’’أفرض أمتی زید بن ثابت‘‘( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج:۲، ص:۱۱۲، تذکرہ نمبر: ۸۴۵)

زید میری امت میں سب سے زیادہ علم میراث کا جانکار ہے (مدنی سرکا رﷺ )

(۲)’’ من کان یرید أن یسأل عن الفرائض فلیأت زید بن ثابت‘‘ (الطبقات الکبری، ج:۲، ص:۴۳۱)

جسے علم میراث کے تعلق سے کچھ بھی پوچھنا ہو وہ زید بن ثابت کے پاس آئے۔ (حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ)

(۳)’’ لولا ان زید بن ثابت کتب الفرائض لرأیت أنہا ستذہب من الناس‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء، ج :۴، ص:۷۹، امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی متوفی ۷۴۸ ھ، دار الفکر، بیروت طبع اول ۱۹۹۷ء)

اگر حضرت زید بن ثابت نے علم فرائض کو نہ لکھا ہوتا تو تم دیکھتے کہ علم فرائض لوگوں سے رخصت ہو جاتا۔ (حضرت امام زہری رحمۃ اللہ تعالی عنہ)

(۴)’’ غلب زید بن ثابت الناس علی إثنتین: ألفرائض والقرآن‘‘ (ایضًا، ص:۷۷)

دو چیزوں میں زید تمام لوگوں پر غالب آگئے۔ علم فرائض و فہم قرآن۔ (حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ تعالی عنہ )

(۵)’’ أتیت المدینۃ فوجدت زید بن ثابت من الراسخین فی العلم‘‘ (ایضا، ص:۸۰)

میں مدینہ حاضر ہوا تو حضرت زید کو راسخین فی العلم سے پایا۔ (حضرت امام مسروق رحمۃ اللہ تعالی علیہ)

Post a Comment

0 Comments