کسی مدرسے کی جگہ میں مسجد بنانا کیسا ، کیا جمعہ قائم کرنے کے لیے مسجد ہونا ضروری ہے

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک مدرسے کے احاطے میں مسجد قائم کی گئی ، لیکن اس جگہ کو مسجد کے لیے وقف نہیں کیا گیا تھا بس طلبہ و اساتذہ کے نماز پڑھنے کے لیے بہت پہلے ایک چھوٹی سی مسجد ، مدرسے کے احاطے میں بنائی گئی اب ضرورت کی وجہ سے اس مسجد کو وسیع کرکے بڑی مسجد بنانا چاہتے ہیں اور پھر وہیں جمعہ بھی قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ سارے طلبہ و اساتذہ ودگر قریبی مقامی لوگ بآسانی اس میں نماز پنجگانہ کے ساتھ ساتھ جمعہ بھی ادا کر سکیں ۔

تو اب دریافت مسائل یہ ہیں کہ (١) کیا اس مدرسے کے احاطے میں بنی ہوئی چھوٹی مسجد کو وسیع کرکے بڑی کر سکتے ہیں ؟

(٢) اگر ہاں تو کیا اس مسجد میں نماز جمعہ قائم کرسکتے ہیں ؟ جب کہ ایک زید نامی عالم و مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اس مسجد میں جمعہ قائم نہیں کرسکتے اس لیے کہ یہ جگہ مسجد کے لیے وقف نہیں ہے اور جمعہ قائم کرنے کے لیے جگہ کا مسجد کے لیے وقف ہونا ضروری ہے۔ لہذا کیا صحیح ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

سوال میں مذکور جس احاطہ میں طلبہ اوراساتذہ کی نماز کے لیے وقتیہ مسجد بنائی گئی تھی اگر وہ جگہ واقعی مدرسے ہی کے نام وقف کی ہوئی ہے جیساکہ صورت سوال سے یہی ظاہر بھی ہورہا ہے تو اب ایسی صورت میں باضابطہ طور پر اس جگہ میں مسجد نہیں بناسکتے ۔

ہاں ! اساتذہ اور طلبہ کے لیے مدرسہ کے تابع بناکر بحسب ضرورت ایک عبادت گاہ بنالی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔

جہاں تک بات رہی باضابطہ مسجد بنانے کی تو اس کی قطعٙٙا اجازت نہیں ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں وقف میں تغییر  لازم آئے گی اور وقف میں تغییرجائز نہیں ۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ: "جو جگہ مسجد شرعی کے لیے وقف ہو اس میں مدرسہ بنانا ، اسی طرح جو جگہ مدرسہ کے لئے وقف ہو اس میں مسجد بنانا جائز نہیں ہے ؛ ہاں اگر طلبہ اور اساتذہ کی ضرورت کے تحت مدرسہ کے تابع بنا کرعبادت گاہ بنالی جائے تو شرعٙٙا اس کی گنجائش ہوگی۔ اسی طرح مسجد کے تابع بنا کر اگر خارج مسجد حصہ میں کوئی مکتب(مدرسہ) بنالیا جائے تو شرعٙٙااس کی بھی گنجائش ہوگی۔

جیساکہ فتاوی عالمگیری ، جلد ثانی ، ص: ٣٦٢/ میں ہے:

"البقعة الموقوفة علی جھة إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھة یجوز بلا خلاف تبعا لہا، فإن وقفھا علی جھة أخری اختلفوا فی جوازہ والأصح أنہ لا یجوز کذا فی الغیاثیة"۔

اور ردالمحتار علی الدرالمختار جلد سادس ، ص٦٦۵/ میں ہے:

"قالوا مراعاة غرض الواقفین واجبة۔

الاشباه والنظائر میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع اي في وجوب العمل به.

(الأشباه والنظائر ، الفن الثاني ، كتاب الوقف ، ص: ١٦٣ دار الكتب العلمية)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"ایک وقف جس غرض کے لیے وقف کیا گیا ہے اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہو مگر ہیئت بدل دی جائے مثلاً دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان یہ حرام ہے۔

عالمگیری میں ہے:

لاتجوز تغییر الوقف عن ھیئتہ ۔ نہ کہ سرے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے ، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کرلیا جائے یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے۔”

(فتاوی رضویہ ، جلد ششم ص: ٣٨١)

فتاوی فقیہ ملت ، جلد دوم ، کتاب الوقف ، ص: ١٣٠/ میں ہے کہ :

"جب مدرسہ کے نام پر زمین خریدی گئی اور اس کے اکثر حصہ پر مدرسہ کی تعمیر بھی ہوگئی تو اراکین مدرسہ اس کے کسی گوشہ میں مسجد تعمیر نہیں کرسکتے کہ وہ زمین مدرسہ کے لیے وقف ہوگئی خواہ وہ زمین کسی نے وقف کی ہو یا چندہ کی رقم سے مدرسہ کے لیے زمین خریدی گئی ہو ۔ البتہ اس میں کوئی کمرہ بنا کر اسے نماز کے لیےخاص کرسکتے ہیں مگر وہ جگہ مسجد کےحکم میں نہیں ہوگی اور تغییر وقف جائز نہیں یعنی مدرسہ کی زمین کو مسجد بنانا یا مسجد کی زمین کو مدرسہ بنانا جائز نہیں فتاوی عالمگیری میں ہے لایجوز تغییر الوقف (جلد دوم ص: ۴٩٠) اورحضرت علامہ ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی تحریر فرماتے ہیں:

 الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ

(ردالمختار جلد سوم ص: ۴٢٧) (ماخوذ از : فتاوی فقیہ ملت جلددوم کتاب الوقف ص: ١٣٠ مکتبہ فقیہ ملت دہلی۔

ان ساری عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات امس و شمس کی واضح ہوچکی کہ جو زمین جس چیز کے لیے وقف ہوچکی ہے اس کو اسی مقصد کے تحت استعمال کیا جائے اب اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اس لیے جب واقفین نے یا اراکین مدرسہ نے سوال میں مذکور پوری زمین کو مدرسے کے نام وقف یا رجسٹرڈ کردی ہے اور وہ زمین اسی نام سے جانی بھی جاتی ہے تو اب اراکین مدرسہ اس مدرسے کی زمین کو مستقل مسجد بنانے کے لیے تو درکناراس کی ہیئت کو بھی بدل نہیں سکتا اگرچہ پہلے سے وہاں وقتیہ مسجد موجود تھی ۔

جیساکہ فقہا فرماتے ہیں کہ:وقف کا مقصد باقی رکھتے ہوۓ صرف اس کی ہیئت بدلنا بھی جائز نہیں تو جہاں وقف کی ہیئت بھی بدل جائے اور مقصد بھی بدل جاۓ وہاں بدرجہ اولی ناجائز و گناہ ہو گا۔

فتاوی عالم گیری ، اخیر کتاب الوقف میں ہے:

"لا يجوز تغيير الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماماً ولا الرباط دكانا"۔ 

پساس زمین میں کوئی مستقل مسجد نہیں بنائی جاسکتی ۔

ہاں ! مدرسہ کے تابع بناکراُسی پُرانی وقتیہ مسجد(عبادت گاہ) کو بحسب ضررت وسیع کی جاسکتی ہے۔

اراکین مدرسہ گر یہ سوچیں کہ ہم سب اراکین و اہل محلہ سبھی یہی چاہتے ہیں کہ یہاں مسجد بنائیں تو تب بھی اس جگہ مستقل کوئی مسجد نہیں بناسکتے اس لیے کہ

فقہائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم فرماتے ہیں کہ :

اورواقف بعد وقف تبدیل بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کے ملک سے وہ چیز خارج ہوگئی۔ *چناں چہ"فتح القدير میں ہے:"(قوله: وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء.” 

(کتاب الوقف، جلد ششم ، ص: ٢٢٠)

حضور اعلی حضرت ، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

"مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں ، تصرف آدمی اپنی ملک میں کرسکتا ہے وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خالص ہے اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں تصرف کا اختیار نہیں۔

(فتاوی رضویہ جلد ششم ، ص:٣٨)

نیز بہار شریعت میں ہے:

"وقف کا حکم یہ ہے کہ نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیع کرسکتا ہے نہ عاریت دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے

(بہار شریعت ، جلد دوم ، حصہ دہم ، ص: ۵۳۳ /مكتبة المدينه دہلی)

اب رہ گئی بات یہ کہ اگر اسی وقتیہ مسجد کو وسیع کرلی گئی تو اس میں جمعہ قائم کرسکتے ہیں یا نہیں؟

تو اس بارے حکم یہ ہے کہ آپ کا یہ مدرسہ جہاں پر واقع ہے وہ ایک گاؤں دیہات ہے-

اور گاوں دیہات میں جمعہ جائز نہیں جیسا کہ فقہائے کرام نے علم فقہ کی مستند و معتمد کتب میں جمعہ و عیدین کی نماز کی صحت و درستگی کے لیے کچھ شرائط تحریر فرمائے ہیں اگر ایک بھی شرط کا فقدان ہوا تو جمعہ ونمازعیدین نہیں ہوگی

جمعہ وعیدین کی نماز کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے جہاں جمعہ قائم کیا جائے وہ جگہ شہر یا فنائے شہر ہو ۔

چناں چہ ایک حدیث شریف میں ہے:

لاجمعة ولا تشریق الا فی مصر"۔ (درایہ ، ص: ١٣١)

ھدایہ میں ہے:

"لاتجوز فی القری"۔ (جلد اول ، ص: ١۴٨)

*علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*

” تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ”

دیہات میں جمعہ کی نماز مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر صحیح عمل میں مشغول ہونا ہے، اس لیے کہ صحت جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے.

(درمختار)

*حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*

”جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں”

(بہار شریعت ، جلد اول ، ص: ٧٦٣)

فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

''دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں ، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کریں گے کہ شاید اس طرح اللہ و رسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جائے گا''

*اسی میں ہے:*

” دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے ، ھکذا قال الامام احمد رضا، وھو تعالیٰ اعلم” (فتاوی فیض الرسول جلد اول ، ص: ۴٠٦)

مذکورہ نصوص سے ثابت ہوا کہ گاؤں ، دیہات میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں لیکن جہاں عوام نے پہلے ہی سے قائم کرلی ہے اسے روکا بھی نہیں جائے گا۔ 

لیکن چوں کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ایک روایتِ نادرہ کے مطابق بڑے دیہات میں جمعہ جائز ہے اس زمانے میں اسی روایتِ نادرہ پر جوازِ جمعہ کا فتویٰ دیا جاتا ہے*  مگر چوں کہ اس مدرسے کے آس پاس والے گاوں میں پہلے ہی سے جمعہ قائم ہے لہذا جب اس مدرسے کے قریب والے گاوں میں پہلے سے جمعہ قائم ہے تو اب یہاں اس مدرسے میں جمعہ قائم نہ کیا جائےـ

*امام ابو یوسف کی روایت نادرہ کو اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے اس طرح نقل فرمایا:*

"ایک روایت نادرہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ آئی ہےکہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہوسکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انھیں جمعہ کے لیے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کےلیے شہر سمجھی جائے گی ۔

*امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:*

"(وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة (العناية شرح الهداية ، جلد ثانی ، ص:۵٢) 

(فتاویٰ رضویہ شریف غیر مترجم جلد سوم ، ص: ۷۰۲ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

لہذا سوال میں موجود مدرسہ اور اس کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں کی آبادی اور کیفیت اگر امام ابو یوسف کی روایت نادرہ کے مطابق ہے تو وہاں جمعہ تو قائم کیا جا سکتا تھا* لیکن جب اس مدرسے کے آس پاس والے گاوں کی مساجد میں پہلے سے جمعہ قائم ہے اور طلبہ و اساتذہ کو ان مساجد میں جمعہ ادا کرنے میں کوئی شرعی دشواری نہیں ہے تو پھر مدرسے کی اس پنج وقتہ مسجد (عبادت خانہ) میں از سر نو جمعہ قائم نہ کیا جاے کہ ایک تو اصل مذھب اور ظاھر الروایہ کے اعتبار سے دیہات میں جمعہ درست ہی نہیں۔

*اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*

"جمعہ و عیدین دیہات میں نا جائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح اللہ و رسول کا نام لے لیں غنیمت"

(فتاویٰ رضویہ شریف غیر مترجم جلد سوم ،  ص: ۷۱۹ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

اور دوسرا یہ کہ جمعہ جامعِ جماعات کو کہتے ہیں جوکہ جگہ جگہ جمعہ قائم کرنے سے حاصل نہیں ہوگا، خود شہروں میں تعدد جمعہ پر متقدمین کا اختلاف رہا پھر متاخرین نے ضرورت کے پیش نظر اسے جائز قرار دیا اور گاؤں دیہات میں جگہ جگہ جمعہ قائم کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ـ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

لما ابتلي أهل مرو بإقامة الجمعتين فيها مع اختلاف العلماء فی جوازهما أمو أئمتهم بالأربع بعدها حتما احتیاطا اھ. ونقله كثير من شراح الھداية وغيرها وتداوله۔

جب اہل مرو کو دو جمعوں کا قیام پیش آیا علماء نے متعدد جمعہ میں اختلاف کیا تو ائمہ نے لوگو پر جمعہ کے بعد احتیاطاً چار رکعات ظہر ادا کرنا لازمی قرار دے دیا اھ اکثر شارحین ھدایہ وغیرہ نے اسے نقل کیا اور اسے ہی متد اول قرادیا ـ (فتاویٰ رضویہ شریف جلد سوم ، ص : ۷۰۵ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

*ہاں!* متاخرین نے تعدد جمعہ کو جائز قرار دیا مگر حتی الوسع ایک پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے

اعلیٰ حضرت ، فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

"جہاں جمعہ جائز ہے وہاں نماز جمعہ متعدد جگہ ہونا بھی جائز ہے اگر چہ افضل حتی الوسع ایک جگہ ہوتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ، ص : ٦٨٧ ، ٦٨٨ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

لہذا مدرسے میں موجود وقتیہ مسجد (عبادت خانہ) میں جمعہ قائم نہ کیا جائے ۔

محقق مسائل جدیدہ ، سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی (شیخ الحدیث.  وصدر دارالافتا وسابق صدر مدرس الجامعة الاشرفیہ مبارکپور سے سوال کیا گیا کہ مدرسے میں عبادت گاہ بنی ہوئی ہے تو کیا اس میں جمعہ قائم کرسکتے؟

تو آپ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

حکم یہاں بھی وہی ہے کہ جمعہ ہو یا نماز پنجگانہ کی جماعت یہ مسجد میں قائم ہونی چاہیے۔ مسجد کااپنا حق ہے۔ اگر مسجدیں بھر جاتی ہیں اور مسجدوں میں جگہ تنگ ہو جاتی ہے اس وجہ سے مدرسے کے اندر بنے ہوئے عبادت خانے میں جمعہ قائم کیا جائے تو ان تین شرطوں کی رعایت کے(علاقے کا سب سے بڑا عالم جمعہ قائم کرے یا اس کی اجازت سے قائم کی جائے ۔اذن عام ہو کہ جو بھی مسلمان جمعہ کے لیے آنا چاہے آسکے ۔جمعہ کا خطبہ اور جمعہ ہونے سے پہلے گیٹ نہ بند کیا جائے) ساتھ وہاں بھی جمعہ قائم کر سکتے ہیں۔ نماز جمعہ صحیح اور درست ہوگی۔ لیکن اگر مسجدوں میں جگہ ہو ، تنگی نہ ہو تو مدرسے میں یا مدرسے کے عبادت خانے میں نہ قائم کریں بلکہ مسجد میں حاضری دیں اس کی فضیلت اور اس کا اجر زیادہ ہے۔

(ماخوذ از : بزم سوالات)

اب رہ گئی بات کہ زید نامی عالم و مفتی کا یہ کہنا "جمعہ قائم کرنے کے لیے جگہ کا مسجد کے لیے وقف ہونا ضروری ہے"۔* درست نہیں اس لیے کہ 

 جمعہ کے قیام کے لیے مسجد ہونا کوئی شرط نہیں ہے ۔

*جیساکہ کبیری میں ہے:*

 والمسجد الجامع لیس بشرط ؛ لہذا أجمعوا علی جوازھا بالمصلی في فناء المصر إلخ (ص: ۵۵۱ ، ط: اشرفی)۔

پس مسجد کے علاوہ بھی کسی گھر یا میدان میں جمعہ ادا کرنا جائز ہے جب کہ جمعہ کی شرطیں پائی جائیں۔  صحت جمعہ کے لیے چھ شرطیں ہیں ۔ 

(۱) مصر یا فنائے مصر (۲) بادشاہ (۳) وقت ظہر (۴) خطبہ(۵)  جماعت(٦) اذن عام ۔

١۔ مصر یا فنائے مصر:

 مصر سے وہ جگہ مراد ہے جس میں متعدد کوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ ہوں کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہوں کہ اپنے دبدبہ وسطوت کے سبب سے مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر پوری قوت و قدرت ہو اگرچہ نا انصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو”

یا وہ اتنا بڑا گاوں ہوکہ اس کی آبادی ٣۔ ۴ ہزار ہو نیز وہاں روز مرہ کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیاں ہوں۔

 فنائے مصر “ سے وہ جگہ مراد ہے جو مصر کے آس پاس اس مصر کی مصلحتوں کے لیے ہو اسے فناء مصر کہتے ہیں جیسے قبرستان گھوڑ دوڑ کا میدان فوج کے رہنے کی جگہ کچہری اسٹیشن یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر میں ان کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز ہے ۔

٢۔ بادشاہ :

اس سے مراد سلطان اسلام یا اس کا نائب جس کو سلطان نے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا سلطان عادل ہو یا ظالم جمعہ قائم کرسکتا ہے یوں ہی اگر زبردستی بادشاہ بن بیٹھا یعنی شرعا اس کو حق امامت نہ ہو مثلا قرشی نہ ہو یا اور کوئی شرط نہ ہو تو یہ بھی جمعہ قائم کر سکتا ہے۔

٣۔ وقت :

وقت جمعہ وقت ظہر ہے یعنی جو وقت ظہر کا ہے اس وقت کے اندر جمعہ ہونا چاہیے تو اگر جمعہ کی نماز میں اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہوگیا ظہر کی قضا پڑھیں۔

۴۔ خطبہ :

جمعہ کے خطبہ میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو اور نماز سے پہلے ہو اور ایسی جماعت کے سامنے ہو تو جمعہ کے لئے ضروری ہے یعنی کم سے کم خطیب کے سوا تین مردہو اور اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سن سکیں اگر کوئی امر مانع نہ ہو۔

۵ ۔ جماعت :

یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد ہونے چاہیے ورنہ جمعہ نہ ہوگا۔

٦ ۔ اذن عام :

اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے تاکہ جس مسلمان کاجی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو۔(عامۂ کتب فقہ)

(ملخصٙٙا از بہار شریعت)

پس مذکورہ شرائط کے ساتھ  مدرسہ ، میدان ، اسکول وغیرہ جہاں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی تو نماز ادا ہوجائے گی ۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔

فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔ 

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات، 

٢٢/جمادی الاولٰی ١۴۴۵/ ہجری 

٧ /دسمبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز جمعرات۔

تصدیقات:

ماشاء اللہ اچھا لکھا یے جواب صحیح ہے

جامع معقول ومنقول ، ادیب شہیر ، استاذ المکرم حضرت علامہ مفتی محمد نسیم الدین کامل ثقافی صاحب قبلہ 

(استاد و مفتی : جامعہ نعیمیہ مراد آباد یوپی)

جواب درست ہے

ماہر علم و فن ، حاذق درسیات حضرت علامہ مفتی نذرالباری اشرفی جامعی (استاد و مفتی جامع اشرف کچھوچھہ شریف امبیڈ کرنگر یوپی)

Post a Comment

0 Comments