تعطیل کلاں کی تنخواہ کیا شعبان میں لی جاسکتی ہے

فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسٸلہ میں کہ کوٸی مدرس از شوال تا شعبان جس دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیتا ہے اس دارالعلوم میں تعطیل کلاں بھی ہوتی ہے - مذکورہ تعطیل کی تنخواہ اراکین دارالعلوم قبل رمضان و بعد رمضان دیتے ہیں - مسٸلہ یہ ہے کہ مدرس تعطیل کلاں کی تنخواہ لینا چاہتا ہے - کیا مدرس ازروۓ شرع تعطیل کلاں کی تنخواہ کامستحق ہے؟ از روۓ شرع تعطیل کلاں کی تنخواہ نہ دینے پر کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

جس دارالعلوم یا مدرسہ میں تعطیلات کی تنخواہ دینے کا ضابطہ ہو تو اساتذہ کو تنخواہ لینے کا شرعاً حق ہے کہ یہ ادارہ اور اساتذہ کے درمیان معاہدہ کی شرائط کا درجہ رکھتا ہے، اور تعطیل رکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اساتذہ ودگر ملازمین کو آرام اور اپنی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کا موقع بہم پہنچے ، تاکہ اگلے دنوں تازہ دم ہوکر اور ذہنی سکون و راحت اور یکسوئی کے ساتھ ادارہ کا کام کرسکے ، پس تعطیل میں جس اساتذہ کا فائدہ ہے ، اسی طرح ادارہ کا بھی مفاد ہے ، لہٰذا اساتذہ کا ادارہ کی مقرر کردہ تعطیلات کے ایام کی تنخواہ لینا حلال ہے۔
نیزایں کہ ہندوستان کے اکثر مدارس اسلامیہ میں یہی عرف کئی سالوں سے رائج ہے کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ مدرس کو دی جاتی ہے ، لہذا اس عرف عام سے بھی واضح ہے کہ مدرس کو مدرسہ میں حاضری دیے بغیر چھٹی کے دنوں کی تنخواہ لینا بلاشبہ جائز ہے کہ اس کے وہ مستحق ہیں ۔ 
البتہ اگر مذکورہ دارالعلوم میں ایام تعطیل میں عملے کی حاضری اور تنخواہ کے حوالے سے پہلے ہی سے کوئی جداگانہ قاعدہ یا ضابطہ متعین ہے اور مدرس نے بوقتِ تقرر اس کے مطابق معاہدہ کیا ہے تو انھیں اس قاعدہ یا ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا ۔
*الاشباہ والنظائر ، القاعدۃ الخامسة في الفن الأول ، ۲۷۱-۲۷۸/ میں ہے:*
"انما تعتبر العادۃ اذا اطردت او غلبت" -
 "المعروف عرفًا کالمشروط شرطًا"۔ 
*مزید اسی الااشباہ والنظائر میں بالتفصیل لکھا ہے:*
"البطالة فى المدارس كايام الاعياد و يوم عاشوراء و شهر رمضان فى درس الفقه على وجهين ان مشروطة لم يسقط من العلم شيیٔ والا فینبغی ان یلحق ببطالة القاضى ففى المحيط أنه يأخذ فى يوم البطالة و قيل لا و فى المنية يستحق فى الاصح ، و اختاره فى منظومة ابن وهبان و قال انه الاظهر اھ ملخصا۔
ترجمہ: عید کے دنوں ، عاشورہ اور ماہ رمضان جیسی مدارس میں فقہی تعلیم کی تعطیلات دو طرح سے ہے ، اگر معاہدہ میں مشروط ہیں تو مشاہرہ بالکل ساقط نہ ہو گا ورنہ قاضی کی تعطیلات کے موافق ہونا مناسب ہے ، تو محیط میں ہے کہ مدرس ایام تعطیلات کا مشاہرہ حاصل کرے گا اور بعض نے کہا حاصل نہیں کرے گا اور منیہ میں ہے اصح یہ ہے کہ وہ مستحق ہوگا اور ابن وھبان کے منظوم میں اسی کو اختیار فرمایا اور انھوں نے فرمایا کہ یہی اظہر ہے اھ ملخصا۔
(الاشباہ والنظائر ، الفن الاول ، القاعدة السادسة ج: ١، ص : ١٢٩)
*اس عبارت کے تحت امام اھل سنت ، اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:*
"اقول ھذہ الترجیحات حیث لم یشترط فکیف اذا شرط ھذا لیس محل نزاع و قد علمت ان المعروف کالمشروط"۔ 
 "میں کہتا ہوں یہ ترجیحات مشروط نہ ہونے کی صورت میں ہے ، مشروط ہو تو کیسے مستحق نہ ہوگا حالاں کہ محل نزاع یہی صورت ہے اور تو معلوم کر چکا کہ معروف چیز مشروط کی طرح ہوتی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جدید ، ج ، ١٩ ص: ۴٣٨)
*مزید ایک دوسری جگہ اعلی حضرت امام احمدرضا خاں علیہ الرحمہ فرماتےھیں:"مدرسین وامثالھم اجیر خاص ہیں ۔ اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہودہ میں تسلیم نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ ہو ۔ جس قدر تسلیم نفس میں کمی ہوگی اتنی تنخواہ وضع ہوگی ۔ معمولی تعطیلیں مثلاً جمعہ ، عیدین اور رمضان المبارک اس حکم سے الگ ہیں کہ ان ایام میں بے تسلیم نفس بھی مستحق تنخواہ ہے ۔اھ (مخلصٙٙا از : فتاوی رضویہ قدیم ، جلد ہشتم ، ص : ١٧٠)
درمختار مع ردالمحتار جلد سادس،ص:٦٩/میں ہے: * "الاجیرالخاص ویسمی اجیر و حد و ھو من یعمل لواحد عملا موقتا بالتخصیص ویستحق الاجیر بتسلیم نفسه فی المدة وان لم یعمل کمن استؤجر شھرا للخدمة۔اھ ۔
 *ردالمحتار ، جلد رابع ،ص: ٣٧٢/ میں ہے:* 
"حیث کانت البطالة معروفة فی یوم الثلاثا والجمعه وفی رمضان والعیدین یحل الاخد"۔
*اسی فتاوی رضویہ قدیم ، جلد ہشتم ص: ١۴١/ میں ہے:*
"تعطیلات معہودہ میں مثل تعطیل ماہ مبارک رمضان وعیدین وغیرہا کی تنخواہ مدرسین کو بیشک دی جاۓ گی ۔ ،،فان المعہود عرفا کاالمشروط مطلقا"۔
بہار شریعت ، حصہ دہم ، ص: ٦٩/ میں لکھا ہے کہ:
"جو تعطیلیں عام طور پر مسلمانوں میں رائج و معہود ہیں مثلا جمعہ یا جمعرات ، ماہ رمضان المبارک اور عید و بقر عید وغیرہ ، مدرس ان تعطیلات کی تنخواہ پانے کا مستحق ہوتا ہے"۔
*فتاوی فقیہ ملت ، حصہ دوم ، ص: ٢٢٩/ میں لکھا ہے:*
"چھٹی کے دنوں میں اگرچہ مدرسین سے کوئی کام نہیں لیا جاتا مگر وہ ان دنوں کی تنخواہ پانے کے مستحق ہیں"۔ 
مذکورہ حوالجات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ اساتذہ تعطیلِ کلاں کی تنخواہ پانے کے مستحق ہیں ۔ 
ْاب جب یہ بات ثابت ہوہی چکی ہے ان تعطیلاں کلاں کی تنخواہ کے حقدار ہیں تو اب وہ اپنا حق رمضان سے پہلے بھی لے سکتا ہے اور رمضان کے بعد بھی۔ اب اگر مدرسے کے اراکین و ٹرسٹیان ودگر ذمہ داران نہیں دینا چاہتے ہیں تو یہ سراسر ظلم ہے اور ایسے لوگ بروز قیامت حق تلفی کے جرم کے شکار ہوں گے۔ حقوق العباد میں گرفتار اور سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گے۔
(ایسا ہی فتاویٰ رضویہ جدید ، ج ١٦ ، ص: ٢٠٨/ میں لکھا ہے)
اور فتاوی فقیہ ملت جلد دوم ، ص: ٢٢۴/ میں صاف صاف لکھا ہے کہ :
ہمارے ہندوستان کا عرف یہی ہے کہ جو شوال سے شعبان تک مدرسہ کا مدرس رہے گا وہ تعطیل کلاں کی تنخواہ پانے کا مستحق ہوگا ، خواہ وہ بعدِ رمضان اس ادارے میں تعلیم دے یا نہ دے ۔
لہذا زید شعبان ہی میں تعطیل کلاں کی تنخواہ اگر لینا چاہے تو اراکین مدرسہ کا اسی وقت دینا لازم کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ کا استحقاق مطلق ہے ایام گزرنے کے ساتھ مقید نہیں ۔ البتہ اگر آئندہ اسے اس ادارے میں نہ رہنا ہو تو پہلے سے کمیٹی کو اطلاع کر دے تاکہ وہ کسی دوسرے مدرس کا انتظام کرے اور شروع سال میں تعلیمی نقصان نہ ہو ۔ اور اراکین کا یہ کہنا کہ جو مدرس بعدِ رمضان میرے دارالعلوم میں رہے گا اسی کو اس تعطیل کی تنخواہ ملے گی یہ سراسر ظلم و زیادتی اور ناانصافی ہے"۔ فقط ھذا ماظھر لی والعلم بالحق عند اللہ تعالیٰ عزوجل و رسولہ المختارﷺ ۔
کتبہ..
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ* 
خادم التدریس والافتا: دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا ، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات ، 
یکم/رمضان المبارک ١۴۴۵/ ہجری 
١٢/ مارچ ٢٠٢۴ عیسوی۔ بروز منگل ۔

Post a Comment

0 Comments