وھابیوں کے پیسوں سے افطاری كرنا کیساہے

وھابیوں کے پیسوں سے افطاری كرنا کیسا ھے؟ ھمارے یھاں افطاری میں لوگ وھابی کا پیسہ ملا دیتے ھیں ۔ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔

اگر آپ کے یہاں کوئی ایسی پریشانی نہیں ہیں کہ اگر وہابیوں کے پیسوں کو شامل نہ کیا گیا تو افطاری کا انتظام نہ ہوسکے گا تو حکم یہ ہے کہ لوگ حسب استطاعت اپنے حلال کمائے ہوئے پیسوں سے خریدی ہوئی رزقِ حلال جیسے کھجور ، چھوہارا یا پانی وغیرہ کسی بھی چیز سے روزہ افطار کرلیا کریں مگر ان وہابیوں کے افطاری کے لیے دئے پیسوں سے افطاری کا انتظام نہ کریں ۔ کہ وہابیوں کا یہ پیسہ دینا گویا ایک ہدیہ یا تحفہ کی منزل میں اور وہابیوں ، دیوبندیوں کے تحائف قبول کرنے سے علمائے اہل سنت منع فرمایا ہے۔

ہاں ! اگر کوئی دیوبندی و وہابی نیاز مندانہ طور پر افطاری کے لیے پیسے یا پھل فروٹ ازخود لاکر دے دیتا ہے تو دریں صورت بھی حتی المقدور اس کے پیسے یا فروٹ وغیرہ لینے سے گریز کریں۔ کہ یہ لوگ کب پلٹی مار دے اور کب احسان جتانا شروع کردے کوئی نہیں کہہ سکتا اس لیے پرہیز ہی بہتر ۔

اور اگر آپ کے یہاں کے لوگ صاحب استطاعت نہیں بلکہ کمزور شکستہ حال ہیں تو دریں صورت لینے میں تو حرج نہیں لیکن افضل واولی یہی کہ لے کر کسی غریب کو دیدے ۔اور خود جو میسر ہو اس سے افطار کرلیں ۔ یہ تو ہوا عام وہابیوں ، دیوبندیوں کا حکم ۔

لیکن جو دیابنہ و وہابیہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں ان کا بھیجا ہوا پھل فروٹ یا پھر اس کا پیسہ ہرگز ہرگز نہ لیں کہ اس کا یہ بھیجا ہوا یہ پیسہ یا پھل فروٹ گو ایک تحفہ یا ہدیہ کی منزل میں ہے اور علمائے کرام نے ان وہابیوں کے تحائف وغیرہ کو قبول کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اور دوسری بات یہ یہ وہابی اس کے ذریعے(بھیجا ہوا پیسہ یا پھل فروٹ) سے اپنی طرف اہل سنت کے افراد کو مانوس کریں گے پھر اپنا عقیدہ بیان کرکے انھیں اپنی طرف کھینچیں گے ۔ فلھذا ایسے وہابیوں کے پیسوں کو افطاری کے انتظام میں ہرگز ہرگز شامل نہ کریں۔

شارح بخاری ، فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

"کہ کسی دیوبندی سے میل جول رکھنا حرام ہے حدیث مبارکہ میں ولاتجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم نہ ان کے پاس اٹھو بیٹھو نہ ان سے کھاٶ پیو۔

مزید فرماتے ہیں:

کہ دیو بندی یہاں سے جو تحفہ آٸے اس کو لینا بھی جاٸز نہیں ۔ (فتاوی شارح بخاری ، جلد سوم ، ص: ٢٧١)

اور بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ :* "دیوبندیوں وہابیوں سے مسجد و مدرسہ کے لیے چندہ مانگنا نہ چاہیے از خود دے تو مسجد میں لگانا نہ چاہیے , مدرسہ کے غریب طلبہ البتہ اس قسم کی امداد کے مستحق ہیں ان پر صرف کرنا چاہیے۔

(فتاویٰ بحرالعلوم ، جلد دوم ، ص: ٢٢٦) فقط واللہ تعالی ورسولہ الاعلی اعلم بالصواب

کتبہ

*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ* 

خادم التدریس والافتا: دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا ، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات ، 

٢/رمضان المبارک ١۴۴۵/ ہجری 

١٣/ مارچ ٢٠٢۴ عیسوی۔ بروز بدھ ۔

Post a Comment

0 Comments