آنکھ اور کان میں دوا ڈالنا مفسد صوم ہے یا نہیں

سوال : آنکھ اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوگا یا نہیں؟

اس مسئلہ مجلس شرعی کا فیصلہ ملاحظہ فرمائیں

آپ کو یہ معلوم کر کے حیرت ہوگی کہ یہ مسلہ نہ توآج کا جدید مسئلہ ہے اور نہ ہی اس میں کوئی اختلاف ہے، پھر چودہ سو سال بعد اس پر غور و خوض کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟ واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں ہمارے علماے مذہب کا اتفاق ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہو گا اور کان میں تیل یا دوا ڈالنے سے جب کہ دماغ تک اس کے پہنچنے کا احساس ہو بالاتفاق چاروں مذہب میں روزہ فاسد ہو جائے گا۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس کی ترقی نے فقہ اسلامی کے اس متفق علیہ مسئلے کی صحت پر سوالیہ نشان قائم کر دیا تھا۔ کیوں کہ اس نے اعضا کی ساخت کا مشاہدہ کر کے یہ حتمی اور یقینی تحقیق پیش کردی کہ آنکھوں میں پلک سے لے کر حلق تک سوراخ پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالیں یا سرمہ لگائیں تو دوا اور سرمے کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوتا ہے ، بلکہ اس کی رنگت بھی نظر آتی ہے ، اس لیے آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جانا چاہیے۔ اس کے بر خلاف کان میں ایک پردہ حائل ہوتا ہے جس میں کوئی سوراخ نہیں ہوتا، اس لیےکان کے پردے سے حلق یا دماغ تک کسی نالی کے ذریعہ کوئی تعلق نہیں پایا جاتا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کان میں تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہونا چاہیے۔

یہ اعتراض فقہ اسلامی کے پیرو کاروں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، جسے سب سے پہلے مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ نے قبول کیا اور فقہ اسلامی کی ایسی واضح تشریح کردی جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق اور فقہ اسلامی کے احکام و علل میں کوئی منافات نہیں ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر جب آپ مجلس شرعی کے فیصلوں کو بغور پڑھیں گے تو بجا طور پر آپ کے دل میں یہ احساس اجاگر ہو گا کہ یہ مجلس شرعی کا زریں کارنامہ ہے۔ واضح ہو کہ بدن میں دو طرح کے سوراخ پائے جاتے ہیں۔ ایک تو باریک باریک سوراخ جن میں بال کی نوک برابر یا اس سے کچھ کم و بیش کشادگی ہوتی ہے، انھیں عربی میں ” مسام “ کہا جاتا ہے، جیسے آنکھ کی پلکوں کے سوراخ اور بال کی جڑوں کے سوراخ یا انجکشن کے ذریعہ ہونے والا سوراخ ۔ دوسرے وہ سوراخ جو زیادہ کھلے ہوئے ہوتے ہیں، انھیں منفذ کہا جاتا ہے ، جیسے : منہ ، ناک، کان کے سوراخ ۔ مسام کے ذریعہ کوئی چیز بدن کے اندر جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا اور منفذ کے ذریعہ جائے تو روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ اس تفصیل کو ذہن نشین کر کے فیصلے پڑھیے۔

نتیجہ مجلس شوریٰ

اس پر تمام مندوبین کا اتفاق ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہ ہو گا ، اس لیے کہ خود آنکھ جوف کے حکم میں نہیں ، نہ ہی اس میں ایسا کوئی منفذ ہے جو دوا کو جوف تک پہنچائے ۔ فقہائے کرام کی عبارتوں میں بھی صراحت موجود ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنا مفسد صوم نہیں۔ کان میں تیل ڈالنا باتفاق ائمہ اربعہ مفسد صوم ہے ۔ یہی حکم کان میں دوا ڈالنے کا بھی ہے۔ ہمارے مذہب کے متون ، شروح ، فتاویٰ ، سب میں اس کی صراحت موجود ہے ، اور دیگر مذاہب کا بھی اس پر اتفاق ہے ، اس لیے یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس سے عدول کی گنجائش نہیں۔

کتاب الاصل للامام محمد میں ہے : قال أبو حنيفة: السعوط والحقنة في شهر رمضان يوجبان القضاء، ولا كفارة عليه، و كذلك ما أقطر في أذنه . اهـ . (1)

اسی طرح قدوری ، بدایہ ، ہدایہ، وقایہ ، کنز و غیرہا متون اور شروح جیسے مبسوط امام سرخسی ، فتح القدیر، بنایہ ، بدائع ، مجمع الانہر اور در مختار وغیرہ میں ہے۔

ہدایہ میں ہے: من أقطر في أذنه أفطر؛ لقوله : الفطر مما دخل، ولوجود معنى الفطر، وهووصول ما فيه صلاح البدن إلى الجوف (۲)

رہا یہ سوال کہ کان سے دماغ تک کوئی منفذ نہیں تو کان میں تیل ڈالنے سے روزہ فاسد کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ منفذ کے ذریعہ اگر دوا یا غذا بدن کے ایسے مقام تک پہنچا دی جائے جس کا حکم شرحا عضو باطن کا ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا خواہ وہ عضو باطن جوف معدہ ہو یا حلق یا فرج داخل و غیره.

محقق علی الاطلاق امام ابن الہمام صوم کی تعریف و تشریح میں فرماتے ہیں:

والصوم لغة : هو الإمساك مطلقا. وفي الشرع : إمساك عن الجماع و عن إدخال شيء بطنا له حكم الباطن ، من الفجر إلى الغروب عن نية ." (٣)

منحته الخالق حاشیہ بحر الرائق میں ہے:

فلو قال المصنف : كما في الفتح : "هو إمساك عن الجماع و عن إدخال شيء بطنا. أو ما له حكم الباطن من الفجر إلى الغروب عن نية. لكان أجود. اهـ . (٤)

کان کا اندرونی حصہ خود جوف اور باطن کا حکم رکھتا ہے ، اس لیے اس میں دوا جانا مفسد ہے۔ محیط برہانی للعلامہ محمود بن احمد بن عبد العزیز بخاری حنفی ج: ۲، ص: ۳۸۳ ، طبع بیروت پر ہے:

لو اغتسل فدخل الماء في أذنه لا يفسد صومه بلا خلاف، وفي الإقطار في الأذن لم يشترط محمد رحمه الله الوصول إلى الدماغ. حتى قال مشايخنا إذا غاب في أذنه كفى ذلك لوجوب القضاء وبعضهم شرطوا الدخول إلى الدماغ. اهـ .

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ (اقطار والی صورت میں ۔ ) اندرون گوش پانی کا غائب ہو جانا اکثر مشایخ کے نزدیک روزہ توڑنے کے لیے کافی ہے۔ اور شیخین کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ متون میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے اور متون میں وہی مذکور ہوتا ہے جو اصل مذہب ہو۔

درج ذیل امور میں بھی یہ اتفاق آرا طے ہوئے۔

کان میں عمد ادواڈا لنے پر قضا لازم ہوگی، کفارہ نہ ہو گا۔ مگر بلا عذر پانی ، تیل، دوا وغیرہ مفسد چیز ڈالنے پر گنہ گار ضرور ہو گا۔

کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہو گا خواہ دو اقصد ا خود ڈالی ہو ، یا اس کی رضا، یا بغیر رضا کے دوسرے نے ڈالی ہو، یا دوا جوف گوش تک کسی طرح خود چلی گئی ہو، سب صورتوں میں روزہ فاسد ہوگا اور قضا لازم ہوگی۔ روزه دار اگر ایسا مریض ہے کہ کان میں روانہ ڈالے تو مرض شدت اختیار کر جائے گا یا روزہ توڑنے کی نوبت آجائے گی، ایسی حالت میں اس کے لیے دوا ڈالنے کی اجازت ہے مگر دوا ڈالنے پر روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی ۔ ہاں ! ایسی حالت میں دوا ڈالنے سے مریض گنہ گار نہ ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔


حوالہ جات و حواشی.......

(١) كتاب الأصل للإمام محمد، ج ۲، ص: ۱۸۲ ، طبع بیروت (۲) هدایه، کتاب الصوم، باب ما يوجب القضاء والكفارة، ص: ۲۰۰ ، ج ۱، مجلس بركات، مبارک پور

(٣) فتح القدير، أول كتاب الصوم ج ۲ ص ٣٠٦-٣٠٧، برکات رضا، پور بندر، گجرات 

(٤) منحة تخالق على هامش البحر الرائق ، كتاب الصوم، ص ٤٥٣، ج : ٢ ، دار الكتب العلمية، بيروت


بحوالہ....کتاب مجلس شرعی کے فیصلے



Post a Comment

0 Comments