کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل میں کہ شیٸربازارمیں پیسہ لگانا اوراس سے منافع کماناکیسا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماٸیں۔
بینوا وتوجروا
*المستفتی:*
غلام سرورخان واپی گجرات
*الجواب بعون الملک الوھاب*
*اللھم ھدایة الحق والصواب*
آپ کا سوال مختصر ہے مگر جواب تفصیل طلب ہے ۔
اولا ہم بطور اختصار جواب کا خلاصہ ابتدائی سطور ہی میں بیان کردیتے ہیں تاکہ آپ جواب کی تفصیل دیکھ کر انتشار ذہن کا شکار نہ ہوں ۔ تو اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ
شیئر بازار میں پیسہ لگانا اور اس سے منافع حاصل کرنا جائز نہیں۔ فلھذا شیئر بازار میں پیسہ لگانے سے ، اس میں تجارت کرنے سے ، اس کے کسی حصص میں پاٹنر شب بننے سے بچا جائے اس لیے کہ اس میں سود سے آلودہ ہونا پڑتا ہے اور شیئربازار میں شراکت داری کے ناجائز ہونے کی اصل اور بنیادی وجہ سود ہی ہے اور سود لینا ، دینا یا اس میں کسی طرح کی شرکت کرنا سب ناجائز وگناہ ہے۔ (ملخصٙٙا از "شیئر بازار کے مسائل")
*اب آئیے اس جواب کی تفصیل کی طرف رخ کرتے ہیں*
دیکھیے ! شیئر بازار میں پیسہ لگانے کی مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں۔ اور ہر نوعیت میں کسی نہ کسی طرح سود کی آلودگی پائی جاتی ہے اس لیے ہمارے علمائے اھل سنت نے شیئر بازار میں شرکت کرنے سے عموما منع فرمایا ہے۔
*ہاں!* اگر شیئر بازار میں کسی کمپنی کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہو کہ اس میں یقینی طور پر سود نہ پائے جاتے ہوں تو ایسی صورت میں ایکوٹی شیئر کے جواز کا حکم ہوگا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس ایکوٹی شیئر کا سامان و متاع حلال ہو ورنہ یہ ایکوٹی شیئر بھی جائز نہیں ۔
*محقق مسائل جدیدہ ، سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب صدر شعبہ افتا وشیخ الحدیث الجامعة الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں :*
"شیئر کمپنی تین طرح کے معاملات کے پہیے پر گردش کرتی ہے:
(١)ایکوٹی شیئر (٢) پریفرینس شیئر (٣) قرض تمسکات
ان میں پریفرینس شیئر اور قرض تمسکات تو سودی ہی ہوتے ہیں کہ ان معاملات کی بنیاد میں سود داخل ہے ، اور ایکوٹی شیئر میں سود تو نہیں ہوتا ، لیکن اس کے شیئر ہولڈرس جو کمپنی کے مالکان ہوتے ہیں وہ قرض تمسکات والوں اور پریفرنیس شیئر داروں کے سود اپنے ملازمین کے ذریعہ ادا کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ حرام ہے ، اس لیے ہم اس سے بچنے کا حکم دیتے ہیں ، اور جب تک سود سے یہ آلودگی پائی جائے گی حرمت کا حکم بر قرار رہے گا جیسا کہ کتاب و سنت کے نصوص میں اس کا ذکر واضح الفاظ میں ہے۔
ایسا نہیں کہ متاعِ خرید و فروخت کی وجہ سے اس سے بچنے کا حکم ہو ، وہ تو سب جانتے ہیں کہ متاع حرام ہے تو معاملہ حرام ہے اور متاع حلال ہے تو معاملہ حلال ہے ، مثلاً چاول ، آٹا ، دال ، سبزی وغیرہ حلال اشیا کا کار و بار اصالۃً جائز ہے تو وہ جائز ہی ہے ، وہ کیوں حرام ہوگا اور کوئی بھی صاحب علم اسے کیوں حرام کہے گا ، کیا جب کوئی محقق وقت بتائے گا تب دنیا اسے حلال سمجھے گی ، مطلقاً ممنوع ہونے کی اصل وجہ وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ اس میں میری نگاہ میں جواز کا کوئی گوشہ نہیں۔
اگر کوئی صاحب علم اس میں جواز کا کوئی گوشہ بتائیں ، یا یہ واضح فرمائیں کہ کمپنی کا طریق کار بدل کر اسے سود کی آلودگی سے پاک کر دیا گیا ہے تو ضرور ایکوٹی شیئر کے جواز کا حکم ہو گا جب کہ متاع حلال ہو مگر ہمیں اب تک ان دونوں باتوں سے آگاہی نہیں ہو سکی ، ممکن ہے کسی صاحب اطلاع کو معلوم ہو۔ واللہ تعالی اعلم"۔
اور شیئر مارکیٹ کے کسی کمپنی کا شریک بننا بھی ناجائز و گناہ ہے۔
*چناں چہ آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:*
”مساواتی حصص اپنی حقیقتِ شرعیہ کے لحاظ سے سرمایہ شرکت ہیں اور ان کے ذریعے کمپنی میں زرکاری شرکت کی ایک خاص قسم ”شرکت عنان “ہے جو شرعا جائز ہے، اس لیے کمپنی میں یہ زرکاری بھی جائز ہونی چاہیے۔لیکن کمپنی خسارے کی صورت میں اپنے ذمہ کا سود اداکرنے کے لیے ہر شریک سے کچھ نہ کچھ لیتی ہے، تو یہ جانتے ہوئے کمپنی میں شرکت قبول کرنا ایک ناجائز کام میں تعاون کا ذریعہ ہوا، اس لیے کمپنی کا شریک بننا ناجائز ہے۔“
(شیئرز کا کاروبار ، شرعی مسائل ،ص: ۵٩)
*مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمد وقارالدین رضوی قادری علیہ الرحمۃ ارشاد فرما تے ہیں:*
”کسی کمپنی کے شیئرز خرید نے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کمپنی کے ایک حصہ کو خرید لیا ہے اور آپ اس حصہ کے مالک ہوگئے اور وہ کمپنی جو جائز و ناجائز کام کرے گی اس میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔ جتنی کمپنیاں قائم ہوتی ہیں وہ اپنے شیئرز کے اعلان کے ساتھ مکمل تفصیلات بھی شائع کردیتی ہیں کہ یہ کمپنی کتنے سرمایہ سے قائم کی جائے گی ، اس میں غیر ملکی سرمایہ کتنا ہوگا اور ملکی قرضہ کتنا ہوگا اور کمپنی قائم کرنے والے اپنا کتنا سرمایہ لگائیں گے اور کتنے سرمایہ کے شیئرز فروخت کیے جائیں گے؟ لہٰذا شیئرز خریدنے والا اس سود کے لین دین میں شریک ہوجائے گا۔ جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے تو وہ شیئرز خریدنا بھی حرام ہے ۔“
(وقار الفتاوی ، جلد اول ، ص: ٢٣۴)
*شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اور خیر الاذکیاء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی مدظلہ العالی فرماتے ہیں:*
”مساواتی حصص والا نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتاہے ۔ اگر کمپنی نے دس لاکھ روپے جمع کیے ، پانچ لاکھ ترجیحی حصص اور قرض تمسکات کے ذریعہ ۔ پانچ لاکھ مساواتی حصص کے ذریعہ اور دو لاکھ کا نقصان ہوا تو اس نقصان میں ترجیحی حصص اور قرض تمسکات والے بالکل شریک نہ ہوں گے ، بلکہ ان کو مقررہ سود ملتا رہے گا اور ان کا اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور دو لاکھ کا سارا نقصان مساواتی حصص والوں پر عائد ہوگا۔ اس طرح یہ شریک سود دینے اور سودی قرض کا نقصان سہنے کا عملاً مرتکب ہوگیا ۔۔۔اس لیے یہ شرکت ناجائز ہے۔“
(مجلس شرعی کے فیصلے ، ص: ١۴١
*شیئر مارکیٹ سے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ*
شیئر مارکیٹ کے متعلق بعض ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جن بینکوں کے مالکان غیر مسلم ہوتے ہیں تو ان بینکوں سے جس طرح سودی معاملات جائز ہیں اور ان بینکوں سے ملنے والی زائد رقم مالِ مباح سمجھ کر لینا جائز ہے۔
تو اسی طرح شیئر بازار کی کمپنیوں میں سے جو کمپنیاں جیسے ٹاٹا وغیرہ کہ ان کمپنیوں کے مالکان عام طور سے غیر مسلم ہی ہوتے ہیں تو جب ان کمپنیوں کے مالکان غیر مسلم ہیں تو ان کے ساتھ شیئر کرنا ، ان کے شیئر خریدنا اور نفع لینا یہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔
*تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ*
'بینک میں جو لوگ روپئے جمع کرتے ہیں وہ بینک کے مالک نہیں ہوتے وہ بینک کے کھاتے دار ہوتے ہیں۔ بینک کا مالک کوئی اور ہوتا ہے تو کھاتے دار کا حکم الگ ہے ۔ شیئردار کا حکم الگ ہے ۔ کھاتے دار بینک کا مالک نہیں ہوتا اور شیئر دار مالک ہوتا ہے ، یہ ہے دونوں میں فرق ۔ شیئردار جب کمپنی کا مالک ہے تو جہاں ہزاروں اس میں غیر مسلم ہیں وہاں ہزاروں یا کم از کم سیکڑوں مسلم بھی ہیں اور یہ سب کے سب اپنے ترجیح حصص والوں کو سود دیتے ہیں اور پریفرینس شیئر والے مسلم بھی ہوسکتے ہیں تو اس کا حاصل ہوا کہ مسلم نے مسلم کو سود دیا اور مسلم مسلم کو سود دے یہ جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے ۔ لیکن بینک والے مسئلہ میں ایسا کبھی لازم نہیں آتا ہے کہ مسلم نے مسلم کو سود دیا کیوں کہ یہاں مالک نہیں ہے یہ تو صرف کھاتے دار ہے ۔ یہ دائن ہے اور بینک مدیون ہے اور شیئر والے مسئلہ میں دائن اور مدیون کی بات نہیں ہے۔ مگر ایکوٹی شیئر والے سب کی سب کمپنی کے اصل مالکان ہیں جن میں مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اب پریفرنس شیئر جو لوگ لیں گے جو اپنی حقیقت کے لحاظ سے سود اور قرض کا معاملہ ہے ان میں بھی مسلم و غیر مسلم ہوں گے تو پھر وہی لازم آئے گا کہ مسلم نے مسلم کو سو د دیا۔ مسلم نے مسلم سے سود لیا تو مسلمان کا مسلمان سے سود دینا لینا حرام و گناہ ہے تو یہ فرق ہے کھاتے داروں میں اور شیئر داروں میں۔
*نوٹ:* مزید تفصیلات و تحقیقات جاننے کے لیے مفتی نظام الدین صاحب کی کتاب "شیئر بازار کے مسائل" کی طرف رجوع کیا جائے۔ فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
*کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*
خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
١٩/ربیع الاول ١۴۴٦/ ہجری
٢٣/ستمبر ٢٠٢۴ عیسوی۔ بشب دوشنبہ ، بوقت ٢/ بجے۔
0 Comments